نافذ عابد کی عمر 55 برس اور تعلق غزہ کی پٹی سے ہے۔ انہوں نے کئی سال صہیونی زندانوں میں گذارے۔ رہائی کے بعد جب وہ اپنے اہل خانہ اور اہل علاقہ سے ملے تو وہ سابق اسیر اور مجاھد آزادی ہی نہیں بلکہ ایک بہترین دست کار بھی تھے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کی دیواروں پرفن کاری کی ہنر سیکھ لیا تھا۔
نافذ عابد اس وقت غزہ کی پٹی میں ایک دست کار کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دست ہنر سے لکڑی اور کپڑے پرکشیدہ کاری کے ایسے ایسے جوہر پارے تیار کیے ہیں کہ ان کے سامنے بڑے بڑے کوالیفائیڈ ہنرمند بھی زانو تلمذ طے کرتے ہیں۔
عابد نے اپنےفن کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ ان کی کہانی واقعہ سبق آموزبھی ہے اور ولولہ انگیز بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج سے کئی سال پیشتر جب میں قیدی کی حیثیت سے اسرائیل کی ایک جیل میں ڈال دیا گیا تو میں نے سوچا کہ وقت گذارنے کے لیے میرے پاس کوئی شغل ہونا چاہیے۔ چنانچہ میں نے غور شروع کردیا۔ لوح ذہن پرکئی طرح کے خیالات ابھرتے۔ ایک بار کہیں سے غزہ میں تاریخی نوادارت اور ماضی میں بنائے گئے دست کاری کے نمونوں کی جانب گیا۔ چنانچہ اسرائیلی زندانوں ہی کو ہنرسیکھنے کی مشق کا مرکز بنا دیا۔ میں اسرائیلی دیواروں پر نقشے بناتا اور مٹاتا۔ کئی بار مجھے جیل اہلکاروں کی جانب سے سختی کا بھی سامنا کرنا پڑا مگرمیں اپنے عزم پرڈٹا رہا، یہاں تک میں نے اسرائیلی جیلوں ہی میں صرف ذہن کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی، بازنطینی اور یونانی دور کے فن پارے بنانا شروع کردیے۔ گوکہ یہ تمام فن پارے دیواروں یا فرش پربنائے جاتے تھے اس لیے ان کی کوئی اہمیت یا افادیت نہیں تھی۔
رہائی کے بعد میں نے میں نے دست کاری کو بہ طور پیشہ اپنا اور اپنے گھر میں مختلف فن پارے تیار کرنا شروع کردیے۔ نافذ کا کہنا ہے کہ میں گذشتہ 35 سال سے اس فن سے وابستہ ہوں اور میں نے اپنے گھرہی کو ایک ثقافتی ورثے کے مرکز میں بدل رکھا ہے۔ غزہ کی پٹی کے علاوہ باہر سے بھی لوگ میرے گھرمیں فن پارے دیکھنے اور خریدنے آتے ہیں۔
نافذ عابد کو دیگر فلسطینی فن کاروں اورعام شہریوں کی طرح یہی شکوہ ہے کہ اس کی بنی اشیاء کوغزہ سے باہر پذیرائی اس لیے نہیں مل سکی کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پرپابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نافذ عابد نے بتایا کہ فلسطینی قوم بہ حیثیت مجموعی اپنی تاریخ اور ثقافت سے محبت کرنے والی ہے۔ اگراپنی تہذیب وثقافت سے محبت کا داعیہ نہ ہوتا تو میں کبھی بھی دشمن کی جیل میں رہتے ہوئے یہ فن نہ سیکھ سکتا۔ اس فن کو سکھانے میں میرا کوئی استاد نہیں۔ صرف میرا شوق ہی میرا امام رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایک درمیانے درجے کے فن پارے کی تیاری میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا عموما تین ہفتے کا وقت ایک فن پارے کی تکمیل میں لگ جاتا ہے۔ کسی بھی فن پارے کی تیاری اور وقت کا انحصار اس پرہونے والے کام پرہوتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چیز پربھی کافی وقت لگ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کے اسلامی دور اور اس سے قبل بڑے بڑے شاہی محلات کو فن پاروں کے ذریعے مزین کیا جاتا تھا۔ آج بھی ان کی باقیات غزہ اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ فلسطینی قوم اپنی تاریخ روایات میں فنون لطیفہ کی دل دادہ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی کی جانب سے غزہ کی پٹی میں پابندیاں نہ ہوں تو وہ اپنی مصنوعات اور گراں قیمت فن پارے فلسطین کے دوسرے شہروں تک بھی پہنچائیں اور ان کی زیادہ قیمت وصول کریں مگر صہیونی فوج کی ناکہ بندی کے باعث انہیں بھی مشکلات درپیش ہیں۔