تحریر:علی احمدی
بعض امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر قانع کرنے کیلئے بھرپور فعالیت کا آغاز کر دیا ہے کہ وہ متنازع گولان ہائٹس کو اسرائیلی سرزمین کا حصہ قرار دے دیں۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مقبوضہ فلسطین میں قریب الوقوع الیکشن میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی پوزیشن مضبوط بنانا ہے۔ یہودی لابی سے قریب تصور کئے والی امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر لنڈسے گراہم نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’گولان ہائٹس پر اسرائیلی حاکمیت کا سرکاری طور پر اعلان کر دیں۔‘‘ گراہم نے یہ بات گولان ہائٹس کا دورہ کرتے ہوئے کی۔ اس دورے میں ان کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیویڈ فریڈمین بھی تھے۔ لنڈسے گراہم نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’’گولان ہائٹس متنازع نہیں ہیں۔ یہ علاقہ اسرائیل کے کنٹرول میں ہے اور ہمیشہ اسرائیل کے کنٹرول میں باقی رہے گا۔ یہاں آنے سے میرا مقصد حکومت (ڈونلڈ ٹرمپ) کو اس مسئلے کے بارے میں وضاحت پیش کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’گولان ہائٹس کی واپسی اسرائیل کیلئے ایک اسٹریٹجک ڈراونا خواب ثابت ہو گا۔ وہ گولان ہائٹس کس کو واپس کرنا چاہیں گے؟‘‘
امریکی سینیٹر کا یہ دعوی ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی برادری اور اقوام متحدہ متفقہ طور پر گولان ہائٹس کو شام کی سرزمین کا حصہ قرار دیتے ہیں جو اسرائیل کے زیر قبضہ ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے 1967ء میں چند عرب ممالک کے خلاف جنگ کے دوران گولان ہائٹس پر مشتمل وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا تھا۔ کچھ عرصے سے اسرائیلی حکام اور واشنگٹن میں ان کے ہم خیال امریکی سیاست دانوں کی جانب سے گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ قرار دیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کے ہمراہ گولان ہائٹس کے دورے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا: "گولان ہائٹس ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا حصہ باقی رہیں گی۔” تقریباً ایک ماہ قبل امریکی سینیٹرز لنڈسے گراہم اور ٹڈ کروز نے قرارداد کا ایک مسودہ تیار کیا تھا جس کا مقصد "گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضہ برقرار رہنے کی یقین دہانی” بیان کیا گیا تھا۔ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ مطالبہ قبول کر لیں گے یا نہیں لیکن وہ اس سے پہلے قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے چکے ہیں جس کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کی جانب سے مقبوضہ گولان ہائٹس کے دورے اور امریکہ کی جانب سے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دیے جانے پر مبنی موقف کے اظہار کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیلی ٹی وی نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی محبوبیت میں اضافہ کرنے کی غرض سے گولان ہائٹس کو اسرائیلی سرزمین کا حصہ قرار دیے جانے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں مقبوضہ فلسطین میں شائع ہونے والی مختلف سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے سیاسی حریف گانٹیز کی سربراہی میں بننے والا اتحاد عوام میں زیادہ مقبول ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی الیکشن کے قریب عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ دوسری طرف یورپی سیاست دانوں نے گولان ہائٹس کے بارے میں روایتی موقف میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے پر امریکہ کو خبردار کیا ہے۔ سویڈن کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کارل بیلٹ نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا: ’’بین الاقوامی قانون بین الاقوامی قانون ہے۔ اگر ٹرمپ گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ قرار دینا چاہتے ہیں تو پھر وہ کریمہ جزیرے کا روس سے الحاق کرنے پر ولادیمیر پیوٹن پر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟‘‘
اسی طرح فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات میں امریکہ کے سابق نمائندے مارٹن اینڈیک نے امریکی صدر کی جانب سے گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ قرار دیے جانے کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا:’’ امریکہ کی جانب سے گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لینے پر مبنی اقدام اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 سے براہ راست تضاد کا حامل ہو گا۔ یہ قرارداد خود امریکہ نے پیش کی تھی اور اسرائیل نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ اسی طرح ایسا امریکی فیصلہ 1974ء میں طے پانے والے اسرائیل اور شام کے درمیان امن معاہدے کے بھی خلاف ہو گا۔ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، گولان ہائٹس شام کی سرزمین کا حصہ ہیں۔‘‘ سیاسی مبصرین کی نظر میں گولان ہائٹس کے بارے میں اسرائیل کی حالیہ سفارتی سرگرمیوں کی ایک وجہ شام کے موجودہ حالات بھی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے بعد شام حکومت نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے بلکہ شام کی مسلح افواج کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں جبکہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے بھی گولان ہائٹس کے قریب اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔ شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے حال ہی میں کہا ہے: ’’دمشق گولان ہائٹس پر قبضہ مضبوط بنانے کیلئے انجام پانی والی اسرائیلی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے میں تذبذب کا شکار نہیں ہو گا۔‘‘