(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) چوہدری صاحب لاجواب شخصیت کے مالک ہیں۔ انگریزی، اُردو اور پنجابی ادب پر عبور اُن کے ساتھ محفل کو اتنا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ محفل چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اُنہیں ہزاروں اشعار زبانی یاد ہیں۔ کچھ باتیں وہ محفلوں میں نہیں کرتے تنہائی میں کرتے ہیں۔
ایک دفعہ چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ تنظیم آزادی فلسطین میں شامل ہو گئے۔ مقصد صرف فلسطین کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان کی آزادی بھی تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اُنہیں احساس ہوا کہ جنرل ضیاء کے مارشل لاکا مقابلہ مسلح جدوجہد کے ذریعہ نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد سے کیا جانا چاہئے۔ وہ پاکستان واپس آ گئے۔
انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ پی ایل او کے ساتھ گزارے ہوئے ایام کی کہانی وہ فی الحال منظر عام پر نہیں لانا چاہتے کیونکہ اُن کا خاندان سیاست میں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں یہ کہانی ضرور سامنے لائوں گا کیونکہ میں اکیلا تو پی ایل او میں نہیں گیا تھا۔ بہت سے پاکستانی پی ایل او میں شامل ہوئے اور شہید بھی ہو گئے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے ان پاکستانیوں کی قربانیاں مجھے ایک کالم پڑھ کر یاد آئیں جس میں بڑے طنزیہ انداز میں فرمایا گیا ہے کہ….
’’ہم پاکستانی بھی کیا دلچسپ قوم ہیں، ہم نے فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا اور ہم نے عملی طور پر آج تک فلسطینیوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آپ تاریخ نکال کر دیکھ لیں ہمارا کون سا صدر، وزیراعظم یا وزیر آج تک فلسطین گیا یا ہم نے آج تک فلسطین کے لئے کون سی قربانی دی؟‘‘ کالم لکھنے والے صاحب یہ بھول گئے کہ فلسطین اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔
1994ء میں وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بوسنیا کے بعد غزہ کا دورہ کرنا چاہتی تھیں لیکن جب اُنہیں مصری حکام نے بتایا کہ غزہ جانے کے لئے اسرائیل سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے تو اُنہوں نے فلسطین کے دورے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔
کالم نگار نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بڑے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز دلائل دیئے ہیں اور اس معاملے پر مہذب انداز میں علمی اور منطقی دلائل پیش کرنے کی بجائے فلسطین کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خیالات کا حوالہ دینے والوں کا مذاق اُڑایا ہے۔ فلسطین کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے بیانات اور تقریروں کا سب سے زیادہ ذکر تو میں نے کیا تھا۔
اگر اس جُرم کے ارتکاب پر کالم نگار میری ذات پر تنقید کر دیتے تو میں بُرا نہ مناتا لیکن اُنہوں نے مجھ پر تو نام لکھے بغیر طنز کیا لیکن بانیان پاکستان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ…. ’’ہمارے پاس دلیل ختم ہو جاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام ڈال دیتے ہیں اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہو تو ہم اس میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں اور ہم یہ کارنامہ سرانجام دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے باوجود سر کا خطاب قبول کر لیا تھا اور قائداعظمؒ 1947ء میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا‘‘۔
پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں اُردن کی حکومت کی درخواست پر فلسطینیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے واقعی بریگیڈیئر ضیاء الحق (بعد میں جنرل بن گئے) کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور اس واقعے کی میں خود کئی دفعہ مذمت کر چکا ہوں۔ لیکن ہمیں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھانے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان ایئر فورس نے اُردن اور عراق کی فضائی حدود میں کئی اسرائیلی طیارے مار گرائے۔
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ایئر فورس کا ایک پورا اسکواڈرن شام بھیج دیا اس اسکواڈرن میں شامل پاکستانی جانبازوں نے صرف شام نہیں بلکہ مصر کی فضائی حدود میں بھی اسرائیلی طیارے مار گرائے اور پوری عرب دنیا سے داد پائی۔ کیا یہ عربوں کی عملی مدد نہیں تھی؟ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں یاسر عرفات کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ کیا یہ فلسطینیوں کی عملی مدد نہیں تھی؟
فیض احمد فیض نے اپنے بڑھاپے کے آخری چند سال پی ایل او کے ساتھ بیروت میں گزارے اور فلسطینیوں کے لئے نظمیں لکھیں۔ کیا یہ ایک ایسے پاکستانی کی فلسطین کے لئے عملی جدوجہد نہیں تھی جسے پاکستان میں غدار کہا گیا؟
اب آ جائیں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ پر کئے جانے والے اعتراضات کی طرف۔ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ بہت سے طاقتور اور با اثر لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں خود سامنے آ کر بولنے کی بجائے میڈیا کے کچھ لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
افسوس کہ اُنہیں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے ذکر پر بہت غصہ آ جاتا ہے اور اب ان دو محترم شخصیات کو متنازعہ بنا کر اپنا سودا بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ کچھ عرب بادشاہوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ شکر ہے کہ سعودی عرب اور بحرین نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ بیان نہ آتا تو خدشہ تھا کہ پاکستان میں اسرائیل کی مخالفت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ یہ کہنا کہ علامہ اقبالؒ نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے باوجود سر کا خطاب قبول کیا کوئی نیا اعتراض نہیں۔
علامہ اقبالؒ نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے خلاف 30؍ نومبر 1919ء کو باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں ہونے والے جلسے سے خطاب بھی کیا اور اس سانحے پر اشعار بھی کہے جن کا ذکر میں 31؍ مارچ 2014ء کو ’’علامہ اقبال پر الزامات کا جواب‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں کر چکا ہوں۔ سانحہ جلیانوالہ باغ 1919ء میں پیش آیا اور علامہ اقبالؒ نے سر کا خطاب 1923ء میں قبول کیا۔ اس خطاب کی وجہ اُن کا مجموعہ کلام ’’اسرار خودی‘‘ تھا جو انگریزوں پر تنقید سے بھرا ہوا تھا۔
اس خطاب سے اقبالؒ کی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ 1930ء میں اُنہوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کر دیا۔ تاریخ کے طلبہ و طالبات علامہ اقبالؒ پر دیگر اعتراضات کے جواب کے لئے پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کی کتاب ’’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ ضرور پڑھ لیں۔ قائداعظمؒ کے بارے میں یہ کہنا کہ اُنہوں نے ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بننا کیوں قبول کر لیا ایک کمزور دلیل ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قائداعظمؒ اور اُن کی مسلم لیگ 1917ء سے 1947ء تک مسلسل فلسطین کی حمایت کرتے رہے اور 26؍ اگست 1938ء کا دن یوم فلسطین کے طور پر منایا۔ مزید تفصیلات کے لئے منیر احمد منیر کی کتاب …’’قائداعظم، اعتراضات اور حقائق‘‘ اور شاہد رشید کی کتاب ’’افکار قائداعظم‘‘ پڑھیں۔
وہ جو پوچھتے ہیں کہ پلیز بتائیں پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کر کے کیا ملا وہ ہمیں یہ بتا دیں کہ ترکی، مصر اور اُردن کو اسرائیل کو تسلیم کر کے کیا ملا؟
میں بار بار واضح کر چکا ہوں کہ اسرائیل پر تنقید کا مطلب یہودیوں سے دشمنی نہیں بہت سے یہودی بھی اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں، ہم فلسطینیوں کی حمایت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی طرح مظلوم ہیں اگر ہم نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں پاکستان کا موقف ختم ہو جائے گا اس لئے جب تک اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کرتا اُسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر: حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ