(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) متحدہ عرب امارات کا شمار ایسی خلیجی ریاستوں میں ہوتا ہے جو طاقت کے مختلف عناصر میں سے زیادہ تر عناصر سے محروم ہیں۔ جیوپولیٹیکل پوزیشن، قدرتی وسائل، صنعتی اور اقتصادی ترقی، فوجی طاقت اور آبادی مادی طاقت کے چند عناصر ہیں جبکہ قومی خصوصیات، قومی جذبہ، حکومت کی افادیت، عالمی سطح پر حیثیت اور اعتبار، لیڈرشپ کا طریقہ کار اور سفارتکاری معنوی طاقت کے چند عناصر شمار ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا عناصر میں سے متحدہ عرب امارات صرف ایک عنصر کا حامل ہے اور وہ صنعتی ترقی ہے۔ لیکن تزویراتی گہرائی نہ ہونے اور انتہائی قلیل آبادی کے پیش نظر نیز قومی جذبے اور حکومت کی افادیت نہ ہونے کے باعث متحدہ عرب امارات بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور ملک تصور نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف پیٹرو ڈالرز کا حصول اس بات کا باعث بنا ہے کہ یہ خلیجی ریاست عالمی سطح پر طاقتور ہونے کا خواب دیکھنے لگے۔
متحدہ عرب امارات نے خود کو طاقتور ظاہر کرنے کیلئے ابتدا میں دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا راستہ اختیار کیا ہے جس کی واضح مثال یمن کے خلاف فوجی جارحیت اور لیبیا اور سوڈان میں فوجی مداخلت انجام دینا ہے۔ لیکن بعد میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو یمن میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اس خلیجی ریاست کی امنگوں پر پانی پھر گیا۔ ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زاید نے اپنی طاقت میں اضافے کیلئے دوسرے قدم کے طور پر انتہائی خطرناک جوا کھیلا ہے۔ اس مرحلے پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ انجام دیا ہے۔ امارات کا یہ اقدام مختلف ممالک اور گروہوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنا ہے اور اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اسلامی مزاحمت کے گروہوں نے بھی متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
مزید برآں، اسلامی مزاحمت کے گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ آج کے بعد متحدہ عرب امارات ہمارا مشروع ٹارگٹ بن گیا ہے۔ خود متحدہ عرب امارات کے اندر کئی سیاسی اور سماجی شخصیات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کو آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات اس معاہدے کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کے جدید جنگی طیارے اور فوجی ہتھیار حاصل کرنے کے درپے ہے۔ متحدہ عرب امارات کے مشیر خارجہ انور قرقاش نے ایٹلینٹک کاونسل نامی تھنک ٹینک سے ایف 35 جنگی طیارے خریدنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ تل ابیب کے ساتھ دوستانہ تعلقات امریکہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے میں حائل "ہر قسم کی رکاوٹ” دور ہو جانے کا باعث بنیں گے۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ اس بارے میں لکھتا ہے: "اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوستانہ تعلقا کے قیام پر مبنی معاہدے میں ایک خفیہ شق بھی شامل ہے جس کے ذریعے امریکہ کی جانب سے اس خلیجی ریاست کو ایف 35 اسٹریٹجک جنگی طیارے اور جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی فروخت کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔” ان امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ اماراتی حکمرانوں نے متعدد وعدوں کے بعد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل کی کیا ضمانت پائی جاتی ہے؟ صہیونی حکام کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے ان وعدوں کی تکمیل شک و تردید کا شکار ہو جاتی ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کے یہودی بستیوں کے وزیر تساحی ہانقبی نے ایسا ہی ایک بیان دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر تساھی ہانقبی نے ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "اسرائیل امریکہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو ایف 35 جنگی طیارے فروخت کرنے کا مخالف ہے۔ ہم اپنا یہ موقف امریکہ کی کانگریس کے سامنے بھی پیش کریں گے۔” بنجمین نیتن یاہو نے بھی متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیارے بیچے جانے کی مخالفت کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اماراتی حکمرانوں نے پہلے سے ہارے ہوئے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ وہ عالم اسلام کا مرکز ہونے کے ناطے قدس شریف اور مسئلہ فلسطین سے غداری کر کے اپنی عوام کی حمایت کھونے کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا میں بھی منفور ہو چکے ہیں۔ لہذا متحدہ عرب امارات نے امریکہ اور اسرائیل سے ایسا معاہدہ انجام دیا ہے جس کا دوسرا فریق معاہدے کی رو سے اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا۔
دوسری طرف خطے سے متعلق امریکی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکمران خطے کے ممالک کو مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔ درحقیقت اماراتی حکمران اسرائیل سے معاہدے کے ذریعے چند اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے دو اہم ہدف مغربی کنارے کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ملحق کرنے سے روکنا اور امریکہ سے ایف 35 جنگی طیارے حاصل کرنا تھے۔ اسرائیلی حکام واضح طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مغربی کنارے کو مقبوضہ فلسطین سے ملحق کرنے کا منصوبہ ہر گز ترک نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت سے متعلق بھی ان کا موقف سامنے آ چکا ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے سنہرے خواب بہت جلد سراب میں تبدیل ہونے والے ہیں۔