تحریر: صابر ابو مریم ،
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ،شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ عرب دنیا یا اس طرح کہا جائے کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے بر اعظم ایشیاء کے ایک ایسے مرکز پر اسرائیل کی جعلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا کہ جہاں سے مغرب و یورپ کے ایشیاء سے سمندری راستوں سے جوڑا جانا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے مفید تھا، جی ہاں نہر سوئز یعنی سوئز کنال۔ سنہ48ء سے جب سے اسرائیل کی جعلی ریاست سرزمین فلسطین پر قائم ہوئی ہے اس کے بعد سے گذرنے والے ستر برسوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اس پورے خطے میں جس قدر بد امنی ارو دہشت گردی فروغ پائی ہے وہ صرف اور صرف اسرائیل کی ایماء پر اور اسرائیل کی اعلانیہ اور پس پشت حمایت کے نتیجہ میں ہی سامنے آئی ہے ۔حالیہ دور کی تازہ مثال دیکھنی ہو تو داعش اور النصرۃ جیسی خطر ناک دہشت گرد تنظیموں کو وجود بخشنے میں امریکہ اور اسرائیل کا کردار واضح طور پر ایک کھلی مثال ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ستر برس میں اسرائیل نے نہ صرف فلسطین میں تباہی و بربادی پھیلائی ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں بد امنی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسی طرح اسرائیل کی ہمیشہ یہ سازشیں رہی ہیں کہ پورے ایشیاء کے وسائل پر اپنا براہ راست یا بالواسطہ تسلط قائم کرے اور حکمرانی کرے، اس کام کے لئے ان ستر برس میں اسرائیل نے جہاں دہشتگرد گروہوں کی پرورش کر کے خطے کو غیر مستحکم کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ خطے کی چند عرب ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی سنہرے خواب دکھلا کر رام کر لیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ عرب ممالک اور حکومتیں جو سنہ48ء سے ہی اسرائیل کی جعلی ریاست کے قیام کے مخالف تھے آج کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا رہے ہیں ، چند ایک ایسے بھی ہیں جو خفیہ طور پر یہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں شاید ان کے اندراب بھی عوام کی اس بیداری کا خوف ہے کہ جو کسی بھی وقت ان حکمرانوں کے تاج وتخت کو تاراج کر سکتی ہے۔
ایشیا ء کے علاقوں میں بد امنی اور دہشت کا راج پھیلانے کے بعد اب اسرائیل کی نظریں افریقا پر بھی گڑھ چکی ہیں، افریقا بھی آبادی کے لحاظ سے بڑے بر اعظم میں شمار ہوتا ہے ۔
جہاں تک عرب ممالک سے تعلقات کی دوڑ کے بعد اب اسرائیل نے افریقی ممالک کا رخ کیا ہے اس کے بارے میں سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ امریکہ نے جو گذشتہ برس فلسطین کے مسئلہ پر ’’صدی کی ڈیل ‘‘ نامی منصوبہ پیش کیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں پہلے مرحلہ میں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ القدس پر اسرائیل کا حق ہے اور پھر اس کے بعد دنیا بھر کے دوسرے ممالک کو کہا گیا کہ اپنے سفارتخانوں کو تل ابیل سے بیت المقدس شہر میں منتقل کر لیں تاہم اس معاملے پر زیادہ پیشرفت تو نہ ہو سکی تاہم صدی کی ڈیل کا یہ ایک اہم ترین اعلان و فیصلہ تھا اس کے ساتھ امریکہ نے یروشلم شہر کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کا یکطرفہ اعلان کر دیا جس کو دنیا نے مسترد کر دیا ۔
اب کہا یہ جا رہاہے کہ اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات جہاں امریکی پلان صدی کی ڈیل کا حصہ ہیں تو وہاں افریقی ممالک میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور نفوذ بھی اسی امریکی صدی کی ڈیل کا ہی حصہ ہے کہ جس کو فلسطینی عوام اور تمام سیاسی ومزاحمتی دھڑوں نے مسترد کر دیا ہے اور دو ٹوک موقف دیا ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اورامریکہ سمیت کسی کو فلسطین کے مستقبل اور مسائل کے فیصلوں کا حق نہیں ہے۔
بہر حال اب اسرائیل صدی کی ڈیل کے منصوبوں کے تحت افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے میں مصروف عمل ہے اور اس کوشش میں ہے کہ ان تعلقات کے نتیجہ میں افریقی مسلمان ممالک سے اسرائیل کے حق میں تسلیم کا اعلان کروائے اور ساتھ ساتھ اگلے مرحلہ میں افریقی ممالک می موجود وسائل پر بھی اپنا براہ راست یا پھر بالواسطہ تسلط حاصل کرے ۔
یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ جس طرز پر مشرق وسطیٰ میں امریکی و صہیونی حمایت سے دہشت گرد گروہوں نے جنم لیا تھا ٹھیک اسی طرح افریقی ممالک میں بھی ان گروہوں کی موجودگی پائی جا رہی ہے جس میں داعش کا افریقی ورژن بوکو حرام منظر عام پر آ چکی ہے جبکہ مزید نہ جانے کتنے ایسے دہشت گرد گروہ پنپ رہے ہیں کہ جن کو براہ راست اسرائیل سپر وائز کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیلی جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو نے یکے بعد دیگر افریقی ممالک کا دورہ کیا، ان میں سے ایک افریقی ملک چاڈ تھا کہ جہاں دو طرف تعلقات کو عادی سازی پر لانے کے لئے اہم پیش رفت کی گئی ۔یہ بات یاد رہے کہ چاد جو کہ مسلم اکثریت کا ملک ہے ، سنہ1972ء میں غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو ختم کر دیا تھا تاہم اس کے بعد اب از سر نو تعلقات کی بنیاد رکھی گئی ہے جسے ماہرین سیاسیات نے امریکی منصوبہ صدی کی ڈیل کی کڑی قرار دیا ہے۔اس سے قبل چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے نومبر 2016ء میں مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی اور یہ اس وقت گزشتہ سینتالیس برس کسی چاڈ کے سیاسی حکمران کی پہلی ملاقات تھی۔
دوسری طرف فلسطینی سیاسی و مزاحمتی دھڑوں نے عرب اور افریقی ممالک کی جانب سے اسرائیل کی قربت کے عنوان سے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور گذشتہ دنوں اسرائیلی جعلی ریاست کے وزیراعظم کے چاڈ کے دورہ کو افریقی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے، ایک بیان میں فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے چاڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فلسطینی حمایت کے موقف پر قائم رہے اور اسرائیل جیسی خونخوار اور دہشت گرد جعلی ریاست کے ساتھ تعلقات بنانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کرے تاہم چاڈ حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام کے لئے تاحال کوئی مثبت پیغام سامنے نہیں آیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جعلی ریاست کے اس وقت مصر اور وردن کے ساتھ اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم ہیں البتہ نیتن یاہو مسقط کا دورہ بھی کر چکے ہیں جبکہ اسرائیلی عہدیدار ابوظہبی، سعودی عرب، عرب امارات، دبئی، شارجہ، بحرین، کویت اور قطر سمیت دیگرعرب ممالک کے دورے بھی کرتے رہتے ہیں حتیٰ بعض مقامات پر اسرائیلی ثقافت پر مبنی پروگرام بھی منعقد کئے گئے ہیں۔
دوسری طرف اب اسرائیل نے انگولا، سوڈان اور چاڈ جیسے افریقی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنا شروع کر دئیے ہیں جبکہ نیجیریا میں بھی اسرائیلی مداخلت کے شواہد موجود ہیں جو کہ نیجیرین حکومت اور فوج کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بہر حال افریقی ممالک کو عرب دنیا کے حالات سے سبق حاصل کرنا چاہئیے اور اس بات کو سمجھ لینا چاہئیے کہ آج جو کچھ خطے میں اسرائیل اور امریکہ کی دوستی کے باعث ہو رہا ہے شاید ایسا سب کچھ ان عرب حکمرانوں کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی کے نتیجہ میں نہ ہوتا۔آج جو بھی عرب حکومت امریکہ اور اسرائیل کی دوستی کا دم بھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے اس کی ذلت و تحقیر بھی اسی قدر زیادہ ہے جبکہ جن چند ایک حکمرانوں نے اسرائیل کو دشمن قرار دیا ہے وہ آج بھی عزت کے ساتھ سربلند ہیں اور فخر وحمیت کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔اب فیصلہ افریقی عوام اور ان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ آیا وہ اسرائیلی نوکری کے کے اپنے ممالک کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں یا دنیا بھر کے مسلمانوں کے دفاع اور بالخصوص مظلوم فلسطینی ملت اور القدس کے دفاع کی خاطر اسرائیل کی دوستی کو ٹھکرائیں گے۔