(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) آج کی جمہوریت میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں لیکن اس جمہوریت میں اگر عدلیہ اور میڈیا آزاد ہوں تو جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل اسرائیل میں ہے۔ نیتن یاہو 2009سے اسرائیل کے وزیراعظم ہیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن آزاد میڈیا آڑے آیا۔
میڈیا نے نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ کی کرپشن کو بےنقاب کیا اور یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ قائم کرکے انہیں عدالت سے سزا دی جائے۔ اس مشکل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انکی مدد کو آئے اور انہوں نے پچھلے سال مڈل ایسٹ پیس پلان کے نام پر نیتن یاہو کو سہارا دینا شروع کر دیا۔
2018میں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جو مسئلہ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھا لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے نیتن یاہو کو بہت زیادہ سیاسی فائدہ ہوا، تاہم اس کے باوجود مارچ 2020میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ انہیں اپوزیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت ڈیڑھ سال نیتن یاہو اور ڈیڑھ سال اپوزیشن رہنما اسرائیل کے وزیراعظم رہیں گے۔
نیتن یاہو وزیراعظم تو بن گئے لیکن مئی 2020میں ان کے خلاف کرپشن کے الزام میں یروشلم کی ایک عدالت میں ٹرائل شروع ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے ایک اخبار کے مالک کے ساتھ نیتن یاہو کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی سامنے آ چکی ہے جس میں وہ ایک دوسرے اخبار کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک دفعہ پھر ٹرمپ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کروا کے خود بھی فائدہ حاصل کیا اور نیتن یاہو کو بھی کافی سیاسی طاقت دی ہے۔
اب عمان پر بھی دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے جائیں۔ ٹرمپ انتظامیہ مختلف عرب ممالک کو مشرق وسطیٰ میں امن کے نام پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر راضی کر رہی ہے لیکن جو بھی اسرائیل کے ساتھ دوستی کا اعلان کرتا ہے اس کے خلاف فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ ٹرمپ کے مجوزہ مڈل ایسٹ پلان کا مقصد مسئلہ فلسطین کو حل کرنا نہیں بلکہ اپنے اور نیتن یاہو کیلئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔
جس پلان پر مظلوم فلسطینی سیخ پا ہیں اس پلان کا حصہ بننا امن قائم کرنے کی کوشش نہیں بلکہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی مدد ہے۔ ٹرمپ اس سال نومبر میں امریکی انتخابات سے پہلے پہلے اپنے نام نہاد مڈل ایسٹ پلان کو کافی آگے بڑھا چکے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ افغان امن مذاکرات میں بھی کوئی بریک تھرو ہو جائے لیکن افغان طالبان بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی سازوں کے اصل پلان پر کسی اور وقت بات کروں گا فی الحال یہ عرض کرنا ہے کہ نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس سال کے آخر تک پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو نیتن یاہو اسرائیل میں ایک ہیرو کا درجہ پالیں گے اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا آگے بڑھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل 1948سے اس کوشش میں ہے کہ پاکستان اسے تسلیم کر لے لیکن نیتن یاہو کی کوششوں کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔
نیتن یاہو نے 2015میں یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کے ماسٹر مائنڈ مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی تھے۔
نیتن یاہو کے اس دعوے کو کئی اسرائیلی اہلِ فکر و دانش نے جھٹلا دیا لیکن اس دعوے کے فوراً بعد بی جے پی کے ایک حامی ہندوستانی دانشور اراوی نندن نیلاکندن نے یہ دعویٰ کر دیا کہ علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور مفتی امین الحسینی دراصل ہٹلر کی یہودی دشمن سوچ کے حامی تھے اور اسی لئے تحریک پاکستان میں بار بار فلسطین کا نام استعمال کیا گیا۔
اس ہندوستانی دانشور نے مفتی امین الحسینی کی قائداعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ تصاویر کو بھی خوب استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ فلسطین کا ذکر دوسری جنگ عظیم کے دوران نہیں بلکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران شروع کر دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کلکتہ (30دسمبر تا یکم جنوری 1917) میں پہلی دفعہ بیت المقدس کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر کی تصویر سے کرائی گئی کیونکہ وہ جیل میں تھے۔
1918کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں اے کے فضل الحق کی صدارت میں مسلم لیگ نے بیت المقدس اور نجف اشرف پر برطانوی قبضے کی مذمت کی اور 23ویں سالانہ اجلاس (1933)منعقدہ دہلی میں اعلان بالفور کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اس دوران مولانا محمد علی جوہر کا لندن میں انتقال ہوگیا تو مفتی امین الحسینی نے انہیں بیت المقدس کے احاطے میں دفن کرایا۔ ان کی قبر پر ’’محمد علی الہندی‘‘ تحریر ہے۔
بعض اسرائیلی محققین کا دعویٰ ہے کہ محمد علی جناح کی طرف سے مفتی امین الحسینی کو خفیہ مالی امداد دی جاتی تھی لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ کے مطابق فلسطین فنڈ خفیہ نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں سے چندہ جمع کرکے مفتی امین الحسینی کو فراہم کیا جاتا تھا۔
مفتی صاحب اور قائداعظم کے درمیان خط و کتابت قائداعظم پیپرز میں موجود ہے۔ کچھ بھی خفیہ نہیں، امریکی سی آئی اے کی ایک ڈی کلاسیفائڈ رپورٹ کے مطابق مفتی امین الحسینی 1951میں پاکستان آئے تو انہوں نے نا صرف آزاد کشمیر کے اوڑی سیکٹر جاکر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کی بلکہ وہ کابل بھی گئے اور پاک افغان دوستی کیلئے بھی کوشش کی۔
حکومت پاکستان مفتی صاحب کو وانا بھی لیکر گئی جہاں انہوں نے وزیرستان کے قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ مملکت پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ برطانوی حکومت نے مفتی صاحب کو وار کریمنل ڈیکلیئر کر رکھا تھا اور برطانیہ کو مطلوب یہ شخص حکومت پاکستان کا مہمان بن گیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد مفتی صاحب پاکستان نہیں آئے لیکن برطانیہ کو مطلوب رہنے والے اس فلسطینی عالم کو نیتن یاہو آج بھی کوستا ہے۔
اس فلسطینی عالم کے ساتھ تحریک پاکستان کی قیادت کا تعلق ان سب کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ہے جو علامہ اقبال اور قائداعظم کو انگریزوں کا ساتھی قرار دیتے ہیں اور آج کل پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کے لئے ہلکان ہو رہے ہیں۔
مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب پاکستان کے مفادات کا نہیں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے مفادات کا تحفظ ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے وہ قائداعظم کے راستے پر چل رہے ہیں وہ خیال رکھیں کہ میڈیا کی آزادی کا تحفظ بھی قائداعظم کا راستہ ہے۔
تحریر: حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ