تحریر: پروفیسر خورشید احمد
عالمی اْفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کشمکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنہیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کر دینے، صفحہ ہستی سے مٹا دینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔امریکہ کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے، جس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جر?ت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے، جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔ 14 نومبر 2012ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں 80 سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمد جعبری کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F۔16 کے ذریعے غزہ پر تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو آٹھ دن تک جاری رہا۔
اس اثناء میں اسرائیل نے 1500 اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو 22 دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔ ان آٹھ دنوں میں غزہ میں 163 افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔
اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیر سرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پْل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، اسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا، حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب 31.1 اور مالی نقصان کا تناسب 100.1 تھا۔
اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ ’’اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا۔‘‘ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہو رہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔
فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کر دیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہو جائیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیئے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی رائے بھی پیش کر دیں، تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمائندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی 14 نومبر 2012ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ ’’کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس کی توقع کی جا رہی تھی‘‘۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی، جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔
اسرائیلی دانشور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری اخبار کاؤنٹر پنچ (16۔18 نومبر 2012ء ) میں لکھتا ہے: اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔ غزہ کی پٹی پر تنازعات کا "آغاز” نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ اور اس کے بعد ایک اور غیر ضروری جنگ۔
دی گارڈین لندن کا ایک اور مشہور کالم نگار سیوماس ملن اس راز کو، اگر اسے راز کہا جائے تو بالکل فاش کر دیتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے دعوے دھوکے اور چوری اور سینہ زوری کی مثال ہیں۔ مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اْکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیشتر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر آپس کا جھگڑا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لئے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گزشتہ اکتوبر میں 15 فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک 13 سالہ بچے کو قتل کرنے اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لئے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کر دیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملے اسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے اور حماس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کر دیا جائے، اور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو 1948ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لئے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، بشمول فوجی مزاحمت کے (لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدوں پر اس کا کنٹرول ہے، ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔
سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاد دہانی سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہر موقع پر ایسا ہی خونیں ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ دسمبر 2008ء، جنوری 2009ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات 22 جنوری 2013ء کو طے ہیں اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لئے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں، لیکن اللہ تعالٰی کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے ’’اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔اٰل عمرٰن ۳:۵۴
اس جنگ سے ان تمام مقاصد کے ساتھ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل کا اصل مقصد فلسطین کی تحریکِ آزادی کی اصل قوت حماس کو عسکری، مادی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنا تھا۔ فلسطینی حریت پسند تحریک "الفتح” کو گزشتہ 40 برس میں اسرائیل نے قوت اور ڈپلومیسی، عسکریت اور سیاسی رشوت، خوف اور لالچ کا ہر حربہ استعمال کرکے غیر موثر کر دیا۔ پہلا وار اپنے حلیفوں کے ذریعے اردن میں 1970ء میں کیا گیا، پھر تحریکِ مزاحمت کے دوسرے بڑے مرکز لبنان میں1982ء میں تصادم کا خونیں ڈرامہ رچا کر وہاں سے بے دخل کیا گیا۔
تیونس میں بھی کھلی کھلی جارحیت کے ذریعے ضرب پر ضرب لگائی گئی اور بالآخر ہر طرف سے دائرہ تنگ کرکے اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کے ڈرامے (1978ء) کے ذریعے فلسطینی لیڈر یاسر عرفات اور "تحریک آزادی فلسطین” (PLO) کو امن اور دو ریاستی نظام کے چکر میں ڈال دیا اور تحریکِ آزادیِ فلسطین کو کچھ دیئے بغیر اپنے دونوں بنیادی مطالبے منوائے یعنی اسرائیل کو تسلیم کرانا اور جہاد اور مزاحمت کے راستے کو خیرباد کہہ کر نام نہاد سفارت کاری اور مذاکرات پر مکمل انحصار۔
اسرائیل کی عیارانہ حکمت عملی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ اوسلو معاہدے میں پانچ سال کے اندر مستقل انتظامات کا لالچ دیا گیا تھا لیکن 20 سال کے بعد صورت یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے صرف 22فیصد کا جو وعدہ فلسطینیوں سے کیا گیا تھا، اس پر اسرائیلی تسلط اسی طرح موجود ہے جس طرح 1967ء کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس 22 فیصد کے نصف سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں اور یہ 6 لاکھ مسلح آبادکار جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرح نسلی امتیاز کی بنیاد پر ریاست قائم کئے ہوئے ہیں۔
تمام سڑکیں ان کے پاس ہیں، سیکورٹی کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے، فوج اور کرنسی ان کی ہے، محصول وہ وصول کرتے ہیں اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خیرات دے دیتے ہیں اور ان کی ہر نقل و حرکت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ کے چند سو مربع کلومیٹر کا جو علاقہ حماس کی جر?ت اور حکمت کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس ہے، اس کی حیثیت بھی کرہ ارض پر سب سے بڑے کھلے قید خانے کی سی ہے نومبر 2012ء کی فوج کشی اور فضائی جارحیت کا اصل مقصد حماس کی کمر توڑنا اور غزہ کو تہس نہس کرنا تھا، تاکہ بالآخر مغربی کنارے کو مدغم کرلیا جائے اور اس طرح فلسطین کے مسئلے کا ان کی نگاہ میں آخری حل ہو جائے۔
نوم چومسکی نے اسرائیلی حملے سے صرف ایک ماہ پہلے اسی غزہ میں چند دن گزار کر اس بستی کی حالت کی جو منظرکشی کی ہے، وہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ غزہ کو نوم چومسکی نے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیا۔ (دی نیشن، 15 نومبر 2012ء4 ) غزہ پر حملے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے اسرائیلی عزائم، امریکہ اور دوسری مغربی قیادتوں کے اعلانات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ امریکہ میں اسرائیل کا سفیر مائیکل ڈورن، حماس کی یہ تصویر امریکہ اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ’’کھلی یہودیت دشمنی اور نسل کشی کے مذہب کی پابندی کی وجہ سے حماس کو کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اسے جنگ سے روکا جاسکتا ہے۔‘‘ (ہیرالڈ ٹربیون، 22نومبر 2012ء)۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں انہیں ختم کر دینا چاہئے، تاکہ ہم اعتدال پسندوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور امن کی گفتگو کرسکیں۔‘‘
اسرائیلی قیادت نے حماس کو ایک نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے دعوے سے اس سال یلغار کا آغاز کیا اور اسرائیل کے وزیر داخلہ ایلی یشائی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ غزہ کو ہمیں قرونِ وسطٰی تک واپس پہنچا دینا چاہئے۔ ایک دوسرے وزیر نے کہا کہ ہم غزہ کو پتھر کے زمانے میں پھینک دیں گے۔ سابق وزیراعظم ایرل شیرون کے صاحبزادے نے بھی حماس کو صفحہ? ہستی سے مٹا دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہ تھے وہ اعلانات جن کے ساتھ اسرائیل نے اس تازہ جنگ کا آغاز اکتوبر 2012ء میں سوڈان میں کارروائی کرکے کیا اور اسے نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں اپنے انجام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس کے لئے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ ’’ہم اسرائیل کے اس حق کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ اسے لوگوں کے گھروں اور کام کرنے کی جگہوں پر، اور شہریوں کے امکانی قتل کے لئے گرنے والے میزائلوں سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کے دفاع کے اس حق کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘ امریکی صدر اوباما کے اس ارشاد میں قتل کی ایک نئی قسم کا اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی potentially killing۔
گویا قتل کیا جانا ضروری نہیں، جس اقدام میں صرف ہلاکت کا امکان بھی ہو تو وہ بھی جارحیت یعنی فوج کشی اور دوسروں کی سرزمین پر بمباری کے لئے جواز فراہم کرتا ہے اور یہ فرمانا اس صدر کا ہے، جس کی طے کردہ kill۔list کے تعاقب میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں معصوم افراد پاکستان، یمن اور صومالیہ میں شب و روز ہلاک کئے جا رہے ہیں اور جن کو اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کرنے کا یا جارح قوت پر ضرب لگانے کا دور دور تک بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جس کے ردعمل میں تشدد اور دہشت گردی جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔
صدر اوباما جس اسرائیل کو "خود دفاعی” کے نام پر قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر نسل کشی اور تباہ کاری کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ بھی بین الاقوامی قانون کے غیرجانبدار ماہرین کے الفاظ میں سْن لیں، تو امریکی اور یورپی قیادتوں کی حق پرستی، انسان دوستی اور اصولوں کی پاسداری کی قلعی کھل جاتی ہے: بلاشبہ جیسے جیسے غزہ کا حالیہ تصادم لامحالہ کم ہونا شروع ہو جائے گا، یہ بات کھل کر سامنے آتی جائے گی کہ اسرائیل کا غزہ میں اور اسی طرح مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر افواج کو لانا اور وہاں کے عوام کے خلاف بلاامتیاز اسلحے کا استعمال کرنا، یہ محض جنگی جرائم نہیں ہیں، بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اور امن کے خلاف بھی۔
آخرکار اسرائیل کتنا ہی چاہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو، اس کے اقدامات امریکہ کی "دہشت گردی کے خلاف جنگ” جیسے ہیں۔ اس کا تعین اس سے ہوگا کہ اس نے عالمی قانون کو عالمی تعبیرات کے مطابق تسلیم کیا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل جتنے طویل عرصے تک فلسطینیوں کو بلاامتیاز اور بے خوف ہوکر قتل کرتا ہے اور مغربی کنارے اور غزہ کے ناجائز اور پْرتشدد قبضے کو جتنا عرصہ برقرار رکھتا ہے اور ان پالیسیوں کو برقرار رکھتا ہے، اسی قدر اس کو ان پالیسیوں کے غیر قانونی ہونے کی بناپر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسرائیلی قیادت کو اپنے نئے حفاظتی حصار پر بھی بہت ناز تھا، جسے امریکی سرمایہ اور مہارت کی مدد سے آہنی گنبد (Iron Dome) کے نام سے گزشتہ چار سال میں تیار کیا گیا تھا اور جس میں ایسا خودکار نظام نصب کیا گیا تھا کہ جو خود بخود، باہر سے اندر آنے والے میزائل کی شناخت کرتا ہے اور پھر انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے۔ اس تمام ساز و سامان اور تیاری کے ساتھ اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ چند ہی دن میں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا اور پھر اپنی شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کر کے جس طرح پی ایل او اور الفتح کو اپنے قابو میں کیا تھا، اسی طرح حماس کو بھی زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گا پھر جنوری کے انتخابات جیت کر نیتن یاہو اور اس کے دستِ راست لیبرمین کے اس عظیم تر اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر گامزن ہو جائیں گے، جو صہیونیت کا اصل خواب ہے۔
حماس نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلاشبہ مجاہد اکبر احمد جعبری نے جامِ شہادت نوش کیا اور ان آٹھ دنوں میں 163 مجاہد اور معصوم جوان، بچے اور خواتین شہید ہوئے، ایک ہزار زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا لیکن حماس اور پوری غزہ کی آبادی کے عزم میں ذرا کمی اور ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔
میزائل کی جنگ معرکے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ حماس کے مجاہدین نے وسائل اور ٹیکنالوجی میں ہزار درجے سے بھی زیادہ کم تر ہونے کے باوجود، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور لڑائی کو اسرائیل کے طول و عرض میں پھیلا دیا، حتّی کہ تل ابیب جو غزہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ بلاشبہ اسرائیلی ہلاکتیں کم ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ حماس کے میزائلوں کا نشانے پر نہ لگنا ہے یا پھر ارادی طور پر حماس کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عام آبادی کو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جائے مگر سول ہلاکتوں سے اجتناب کیا جائے۔
ایک امریکی تجزیہ نگار جولیٹ کیین نے اپنے مضمون میں بڑے اہم سوال اٹھائے ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا :غزہ کی پٹی کی منتخب فلسطینی حکومت حماس کے لئے Iron Dome کی کامیابی اس سے کم مایوس کن تھی جیسا کہ بظاہر نظر آیا۔ حماس نے یہ میزائل اس لئے نہیں چلائے تھے کہ اسرائیلیوں کو ماریں۔ اگر ان کا یہ مقصد ہوتا تو یہ ناکام ہوتے۔ دراصل اس کا مقصد اپنے دشمن اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مضبوطی دکھانا تھا۔ Iron Dome کی وجہ سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہوگی لیکن اس سے ان راکٹوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جو حماس نے چھوڑے۔
حماس کے راکٹ لانچر اسرائیلیوں کو محض مارنے کے لئے نہیں تھے بلکہ یہ ایک منقسم فلسطینی قیادت میں حماس کے مقام کو بڑھانے کے لئے تھے۔ بحیثیت مجموعی عالمی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا احساس ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا فوجی حل جو اسرائیل اور خود امریکہ کی حکمت عملی تھا، اس کی کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہو رہے ہیں اور اس کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے کسی سیاسی حل کی ضرورت کا احساس روزافزوں ہے۔
پہلو اور بھی بہت سے ہیں جن پر غور و فکر اور مباحثے کی ضرورت ہے، لیکن اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ایک بڑے شر میں سے بھی کسی نہ کسی صورت میں خیر کے رونما ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بلاشبہ ابھی کشمکش اور جدوجہد کے بے شمار مراحل درپیش ہیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ہر لمحہ آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر مقصد سے وفاداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی، اب اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
"روزنامہ جنگ