(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) آج مسلم دنیا میں ایک بار پھر تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔طاغوتی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار ڈالنے کے درپے ہیں، مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان ظلم و تشدد اور جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، ان کی آزادی سلب کر لی گئی ہے ،انہیں انسانی حقوق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر تو ایک سال سے نریندر مودی اور ان کی حکومت کی قید میں ہے۔موجودہ عالمی حالات کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ مسلمان ایک نہ ایک دن متحد ضرور ہوں گے ‘‘۔
علامہ اقبال خوش قسمت شاعر ہیں،ان کا ایک خواب قیام پاکستان کی صورت میں تعبیر پا چکا ہے ، وحدت ملت کا خواب تکمیل کے مرحلے میں ہے ۔ اگرچہ مسلمانوں میں انتشار ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،جہاںکچھ ممالک یورپ کے ساتھ ہو رہے ہیں ،وہیں کچھ اسلامی ممالک آپس میں قریب آ رہے ہیں ، مجموعی طور پر اسلامی ممالک کی طاقت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ’’وحدت‘‘ اس ملت کا رنگین خواب بھی رہا ہے اورسنگین المیہ بھی ۔ ہمیں ہر دور میں ایسی بے خواب آنکھیں نظر آتی ہیں جو وحدت ملت کے اس رنگین خواب کو سمو کر سنگین المیوں پر آنسو بہاتی رہی ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا قبول ہوئی اور نبی کریم ﷺ کے صدقے ملت ابراہیمیؑ کو رعنائی اور یکجائی نصیب ہوئی۔ پھر صدیوں تک کبھی فاتحین کی، کبھی مبلغین کی اور کبھی سیاسی رہنمائوں کی مساعی جمیلہ جاری رہیں، ان میں عہد حاضر کے وہ عظیم فلسفی، شاعر اور مصور مملکت خداداد، علامہ محمد اقبالؒ بھی شامل ہیں جنھوں نے لاہور سے تابخاک بخارا و سمر قند اور نیل کے ساحلوں تک ہر آنکھ میں ’’وحدت ملت‘‘ کا خواب بھر دیاہے۔
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اگرچہ لمحہ موجود میں وحدت اسلامی کی صورتحال کچھ زیادہ خوش کن نہیں لیکن جو کچھ بھی ہے ،حضرت علامہ اور ان جیسی دیگر محترم ہستیوں کی سعی پیہم ہی کا ثمر ہے۔ آپ وحدت اسلامی کے اس حیات افزاء پیغام کو ہندو پاکستان، ایران، افغانستان اور وسطِ ایشیاء کے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک براہ راست پہنچانا چاہتے تھے اسی لئے انہوں نے زیادہ تر کلام فارسی زبان میں کہا ہے۔حضرت علامہ کے نزدیک اسلام قوم پرستی کے جذبے پر قائم ہے نہ کہ ملک گیری پر ۔یورشِ تاتار کا افسانہ اس امرکابین ثبوت ہے کہ صنم خانوں سے بھی کعبے کے پاسبان پیدا ہوسکتے ہیں۔ قوم مذہب سے بنتی ہے، وطن سے نہیں صرف مذہب ہی فرد اور ملت کا رابطہ استوار رکھ سکتا ہے۔ بقول اقبال :
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
علامہ اقبالؒ جان چکے تھے کہ مسلمانوں کی منفعت اور نقصان مشترکہ ہے مگر افسوس کہ یہ اللہ، نبی پاک ﷺ ، حرم پاک اورقرآن کی متفق علیہ بنیادیں ہونے کے باوجود فرقہ بندی، ذات، برادری اور رنگ و نسل میں تقسیم ہوچکی ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں،
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خو ں مٹ جائے گا
تُرکِ خر گاہی ہو یا اعرابی والا گہُر
توحید ربّ کبریا اور اس کا زندہ و تا بندہ نشان، بیت اللہ، وحدت اسلامی کاایک ایسا مضبوط ترین رشتہ ہے جو کسی اور قوم کو میسر نہیں
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباںہیں، وہ پاسباں ہمارا
اسی مرکز کے گرد سارا عالم اسلامی جمع ہے۔ دنیا بھرکے مسلمان ہر لمحہ اللّھم لَبیکَ پڑھتے ہوئے کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں، اس گھر کی پاسبانی امت اسلامیہ کیلئے باعثِ اعزاز ہے ورنہ ربّ کریم تو ابابیلوں سے اور ہواؤں سے بھی اپنے گھر کی حفاظت کراسکتا ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺ کی روشن ترین حیاتِ مبارکہ اور سنت مطہرہ ، اتحاد اسلامی کی دو سری بڑی اساس ہے۔ سیدالانبیا ﷺ دنیا کی وہ واحد ہستی پاک ہیں جن کی زندگی کے لمحہ لمحہ کا ریکارڈموجود ہے، آپﷺ کا خطبہ حجتہ الوداع عظمت انسانی کا منشور اولین ہے۔ نہ صرف مسلمانان عالم بلکہ بنی نوع انسان بھی اس پرچم کے تحت اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
قرآنِ پاک خالقِ کائنات کا وہ لافانی پیغام ہے جو حضور خاتم النبینﷺکے ذریعے امت مسلمہ کو عطا ہوا۔ یہ بھی وحدت ملت کی مضبوط ترین اساس ہے۔
ایں کتاب زندہ قرآن حکیم
نوع انساں را پیام آخریں
اگر مسلمانانِ عالم اللہ کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو ہمیشہ سرفراز و باکمال رہیں گے ورنہ تارکین قرآن ہو کر خواری و ذلت ہمارا مقدر بنی رہے گی۔تبلیغ اور جہاد امت مسلمہ کے تنِ مردہ کو حیات نو بخشتے ہیں۔ خطبۂ حجتہ الوداع میں سیدالانبیاءؐ نے جو فرمایا، اب اس پیغام کو حاضرین، تمام غائبین تک ہم پہنچائیںگے۔اس امت کو نبیوں والا جو مبارک کام سونپا گیا وہ انہیں دنیا میں بھی سرفراز کرے گا اور آخرت میں بھی ان کی کرسیاں انبیاء کے ساتھ ہوںگی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ’’اے اللہ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سنے اور دوسروں تک پہنچائے‘‘ ۔
اگر ہم اپنے زوال کے اسباب کا جائزہ لیں تومختار مسعود کا یہ تجزیہ درست لگتا ہے،
’’جب حق کی جگہ حکایت اور جہاد کی جگہ جمودلے لے، جب مسلمانوں کو موت سے خوف آنے لگے اور زندگی سے پیار ہوجائے تو صدیاں یونہی گم ہوجاتی ہیں۔‘‘
دینوی علوم و فنون میںکمال حاصل کرنا بھی ملت اسلامیہ کی تقویت کا باعث ہے۔ لیکن جب عصر حاضر کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے تو علامہ اقبالؒ خاکِ مدینہ و نجف کو سُرمہ بنانے کی نصیحت کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے سے تازہ ہواؤں کے جھونکے آتے ہیں لیکن قرآن کے مطالب کو صحیح صحیح پیش کرنا چاہیے۔
اگر وحدتِ امت ایک کُل ہے تو اس کا جزو ہمارا گھر ہے۔ اس گھر کی وحدت کی ضامن عورت سے جو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں چراغ خانہ ہے، شمع محفل نہیں۔ جیسا کہ شروع میں لکھا گیا ہے ہماری آج کی وحدت اسلامی کی صورتحال بہت اچھی نہ سہی مگر بہت بری بھی نہیں۔ ہم ایک صدی میں آگے کی طرف بہت سا فاصلہ طے کرچکے ہیں۔ بہت سی بین الاسلامی تنظیمات اتحاد عالم اسلامی کے لئے کوشاں ہیں۔ ضروری ہے کہ اس عمل کو تیز تر کیا جائے۔ اگر امریکہ کی باہم متحارب ریاستیں متحد ہو سکتی ہیں یا اہلِ یورپ دو خوفناک جنگیں لڑنے کے باوجود ایک پارلیمنٹ اور ایک کرنسی بناسکتے ہیں تو اسلامیان ـعالم کیوں ایک نہیں ہوسکتے ؟ علامہ صاحب انتشارِامت کے اسباب کو کماحقہ سمجھتے تھے جس میں سے ایک بڑا سبب استعماری طاقتوں کی بندر بانٹ اور’’ لڑاؤ اور حکومت کروــ‘‘ کی پالیسی بھی ہے۔ بقول اقبالؒ:
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑ سے ٹکڑ سے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز
22 فروری 1974 ء کو عالمگیری مسجد لاہور میں اکٹھے ہو کر ایک ہی صف میں نماز پڑھنے والے مسلمان ملکوں کے سربراہ خفیہ ہاتھوں نے ایک ایک کر کے شہید کرادیئے لیکن روشنی کا سفر تیز ہوا سے رک نہیں سکتا ۔علامہ اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا جو خواب دیکھا تھا، وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا، انشاء اللہ۔
آسماں ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پاہو جائے گی
کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کر ہے پھر برگ و بر پیدا
ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا ء والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
تحریر : ڈاکٹر مختار احمد عزمی
بشکریہ روزنامہ دنیا