اسلام پسند شخصیات جنہوں نے عرب ریاستوں میں نظامِ حکومت سنبھال لیا ہے یا پھر سنبھالنے کے قریب ہیں بہت سارے سوالات سے دوچار ہیں جن کے جوابات عرب و غیر عرب ممالک کی اسلام پسندی کی صورتحال پر گہرے اثرات کے حامل ہوں گے ۔
اسلام پسند شخصیات تنظیم اور ترجیحات کے حوالے سے ہر ایک ملک میں اپنا ایک جداگانہ فرق و امتیاز رکھتی ہیں ۔مثلاً تیونس میں اخوانِ المسلمین شروع ہی سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے آمادہ تھی جب کہ مصر میں اس کے ہم منصبوں نے پہلے اپنے آپ کو اقتدار سے الگ رکھا اور صدارتی عہدے کے لئے اپنے کسی امیدوار کو متعارف کرانے کے کسی منصوبے کے لئے کوشاں نہیں رہے۔ یہ عصری تاریخ میں پہلی بار ہے کہ اخوان المسلمین اور سلفی شخصیات نظمِ مملکت کا بارِ گراں اپنے دوش پر اٹھارہی ہیں ایسی حالت میں کہ علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں ان کے رویے کی نگرانی کررہی ہیں ۔پہلی نظر میں یہ معلوم ہوگا کہ اسلام پسند حضرات جن میں اخوان المسلمین اور سلفی گروہ دونوں ہی شامل ہیں کے لئے اولین ترجیح اپنے ملک میں امورِ مملکت چلانا ہے ۔اخوان المسلمین معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے حل کی تلاش میں سرگرداں ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے اقتدار کی بنیاد کو مستحکم کرسکے جب کہ سلفی حضرات اپنے کام کی ابتداء شرعی قوانین کی نفاذ سے کرنا چاہتے ہیں۔ان دونوں کا اصل اختلاف داخلی ترجیحات پر ہے نہ کہ خارجی امور پر۔ مصر اور تیونس میں قانونی دائرہ ہائے کار اس طرح کے ہیں کہ وہ اختلاف کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔دونوں گروہ خارجی معاملات میں نیزاقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے حتیٰ کہ مغرب اور اسرائیل کے ساتھ تعلق کے ضمن میں بھی اپنی ترجیحات کے تعین کو معرضِ التوا ء میں ڈالنے کے لئے کامل اتفاقِ رائے رکھتے ہیں ۔ مصر اور تیونیشیاء میں انقلاب کا ایک سال سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی گذشتہ حکومتوں کے باقیات کی جانب سے خطرہ اور تشویش موجود ہے ۔
کسی واحد قیاد ت کی عدم موجودگی کے سبب انقلابیوں کو اس بڑے گروہ کی تطہیر کی جرأت نہیں ہورہی ہے اور یوں گذشتہ صورتحال کی بحالی نیز انقلاب کے رنگ کے ماند پڑجانے کا خطرہ ہنوزباقی ہے ۔ کون کہتا ہے کہ گذشتہ حکومتوں کے باقی ماندہ افراد حکومت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ مغرب جو کہ تیونس اور مصر کے سابق ڈکٹیٹروں یعنی زین العابدین اور حسنی مبارک کا اصل پشت پناہ رہا ہے وہ اب انہیں اسلام پسند سیاست دانوں کے خلاف پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ان کی حمایت نہیں کررہا ہے ؟
اگرچہ عرب انقلابات داخلی مسائل کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن علاقائی اور بیرونی مسائل ان کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ کیا مغرب کو ان مفادات کے تحفظ کی ضمانت دینے یا اسرائیل کے ساتھ تعلق کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرانے سے اسلام پسندوں کے تئیں مغرب کے رویے میں کسی نرمی کا امکان ہے اور کیا مغرب اپنے آپ کو عرب ممالک میں ایک نئے تجربے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے ؟ اگر اسلام پسند حضرات فی الوقت مغرب کے مفادات کے حوالے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ ان مفادات کے خلاف مستقبل میں کھڑے ہوں گے ؟یہ کیا معاملہ ہے کہ تیونس کی نہضت پارٹی کے رہنما راشد غنوشی واشنگٹن میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کی اصل ترجیح تیونس ہے اور وہ تیونس کے تجربے کو ایک کامیاب تجربہ ثابت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ شام دشمن حکومتوں کے محور میں شامل ہوتے ہیں اور نام نہاد ’’دوستانِ شام ‘‘ کی کانفرنس کے انعقاد کی اپنے ملک میں اجازت دیتے ہیں ؟ کس طرح غنوشی اس تحریک میں شامل ہیں جو اسرائیل سے تصادم اور جنگ سے انکاری ہے ؟ واشنگٹن انسیٹیوٹ میں غنوشی نے یہ بیان دیا ’’ تیونس کا آئین انہیں اسرائیل سے تعلق استوار کرنے سے نہیں روکتا ہے ۔‘‘ یہ کون سی مثال نہضت پارٹی قائم کررہی ہے ؟ تیونس ، مصر اور لیبیا میں اسلام پسند حضرات مستقبل کی پالیسیوں سے متعلق درحقیقت غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایسی صورت میں وہ کس طرح حکومت کریں گے ؟ کیا وہ مذہبی قوانین نافذ کرسکیں گے ؟کیا وہ غیر مسلموں کے حقوق کو تسلیم کریں گے ؟ ممکن ہے کہ یہ تمام باتیں اصل موردِ تشویش ہوں اور وہ اسلامی قوانین کو فوری طور سے نافذ کرنے نہیں جارہے ہوں۔ وہ مخلوط یا اتحاد کی حکومتیں قائم کریں گے ،وہ مذہبی اقلیتوں کے شہری حقوق کا احترام کریں گے ۔ اس رجحان کی شدت میں معاشرتی اور اقتصادی ترجیحات کے پیشِ نظر دگنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔جو گروہ سلفی مکتبِ فکر کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کررہا ہے یعنی یہ کہ شرعی قوانین کو فوری طور سے نافذ نہ کیا جائے اور اقلیتوں کو حکومتی عہدوں سے نہ ہٹایا جائے وہ اخوان المسلمین کا گروہ ہے ۔انقلابی پارلیمنٹوں میں سلفیوں کی اکثریت بہرحال نہیں ہے لہٰذا یہ اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے پر ابھی تک قادر نہیں رہے ہیں ۔ جو اصل چیز اسلام پسندوں کے مستقبل پر منفی اثر ڈال رہی ہے وہ ان کی طرف سے مغرب کو خوش کرنے کی کوشش ہے ۔
اصولی طور سے مغرب اور امریکہ سے مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو چیز قابلِ تشویش ہے وہ ان مذاکرات کا موضوع اور وقت ہے ۔ بہرحال کسی کو بھی ان ممالک میں انتخابات کے منصفانہ انعقاد پرشک نہیں ہے اور نہ ہی اس بات میں شک ہے کہ اخوان المسلمین پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرے گی مسئلے کا آغاز وہاں سے شروع ہوتا ہے مثلاً جب غنوشی واشنگٹن انسیٹیوٹ کا سفر کرتے ہیں جو کہ ایسا ادارہ ہے جو اسرائیل کا زبردست حامی و ہمنوا ء ہے ۔ غنوشی یہاں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ کسی عرب ریاست یا فلسطین سے متحد ہونے کے خواہش مند نہیں ہیں اور ساتھ ہی وہ ایران اور ایران کے اسلامی انقلاب کے ساتھ اپنے اختلافات کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی اُس تحریک سے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں جو اسلامی جمہوری ایران کے مرحوم بانی امام خمینیؒ نے شروع کی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ تیونس ایران نہیں ہے اور تیونس کا انقلاب بھی ایران کے اسلامی انقلاب جیسا نہیں ہے اور نہ ہی غنوشی امام خمینیؒ جیسی شخصیت کے مالک ہیں ۔ لیکن کس طرح یہ تمام مسائل مغرب کے لئے پریشانی کا باعث ہیں ؟ کیوں تیونس کی یہ طاقتور تحریک مغرب کو اس طرح کی یقین دہانی کرانے پر مصُر ہے ؟
مصر اور تیونس کے سابق ڈکٹیٹرز حسنی مبارک اور زین العابدین جواپنے ملک میں عوامی مقبولیت اور قانونی حیثیت سے محروم تھے باہر سے اپنے لئے قانونی پشت پناہی حاصل کرنے کی خاطر واشنگٹن اور پیرس کے دورے پر مجبور ہوا کرتے تھے۔ نہضت تحریک کو آخر مغربی پشت پناہی کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا تیونس اور لیبیا میں اسلام پسند حضرات مغرب کو اس لئے یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں تاکہ ان پر سے انتہا پسندی کا الزام دھل جائے اور ان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا خطرہ ٹل جائے ؟
اصل مسئلہ قانونی جواز یا حیثیت کا سرچشمہ ہے یعنی آیا یہ مذہب ہے یا عوام ؟ دراصل ان دو سرچشموں کے تعلق سے اتفاق یا اختلاف پر بحث ہے ۔ اسلام پسند اس مسئلے سے گذر چکے ہیں لہٰذا انہیں باہر سے قانونی جواز حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ عرب ممالک میں عوامی انقلابات کا ہدف آزادی، خودانحصاری اور احترام کا حاصل کرنا ہے ۔ یہ اہداف مغرب کے ساتھ ارتباط سے حاصل نہیں ہوں گے جو سابقہ حکومتوں کی حمایت کرتا رہا ہے اور انقلابات کے پہلے اسلام پسندوں پر ہونے والے ظلم وستم سے چشم پوشی کرتا رہا ہے ۔مصر اپنے جغرافیائی و سیاسی حیثیت کے سبب ایک بہت ہی حساس کیفیت کا حامل ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ تصادم میں نیز اسلامی و عربی ہر دومیدانوں میں اس کا تاریخی کردار رہا ہے۔ بہت سارے اخباری کالم و مضامین ان دنوں سامنے آئیں ہیں جو انقلاب کے بعد یا پارلیمانی انتخابات کے بعد یا انتخابات کی تاریخ کے تعین کے بعد امریکی حکام اور اخوان المسلمین کے ذمہ داران کے درمیان مذاکرات کا انکشاف کرتے ہیں ۔ کیا ان مذاکرات کے دوران امریکیوں نے مبارک حکومت کو اپنی بھرپور مدد دینے پر کوئی معذرت پیش کی ؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے اخوان المسلمین کو مغربی جمہوریت کے کھیل میں آلۂ کار بننے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو نہ چھیڑنے کی خاطر دعوت دی ہو؟ کیوں اسلام پسندوں کو کیمپ ڈیوڈ معاہدوں سے متعلق خاموش رہنا چاہیے ؟ کیوں وہ اس معاہدے کو ایک بین الاقوامی معاہدہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس کا احترام کیا جانا چاہیے؟ اگر اسلام پسندوں کی طرف سے کچھ صدائے احتجاج بلند ہوئی بھی تو وہ اس لئے کہ واشنگٹن نے مالی امداد میں کمی کی مصر کو دھمکی دی تھی ۔ عصام الیریان (Essam el-Erian)نے دھمکی دی ہے کہ یہ معاہدہ مصر کے لئے امریکی امداد کی بنیاد پر ہے اور یہ ان اسلامی اصولوں سے متصادم ہے جنہیں اخوان المسلمین نے قبول کیا ہے ۔ کس ’’اخلاقی ماڈل ‘‘ کا اظہار یہاں اخوان المسلمین دنیائے عرب کی ایک مقبول ترین اسلامی تحریک ہونے کی حیثیت سے کررہی ہے ؟ اس تنظیم نے بہت آسانی سے اپنے اس عہد کی خلاف ورزی کر ڈالی جو اس نے صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار نہ کھڑا کرنے کے حوالے سے کیا تھا اور وہ بھی بغیر کوئی معقول وجہ بتائے ۔ کیا اس تنظیم کا اقتصادی ماڈل بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا ہے ؟ اگر انقلابات مغرب کے ذریعے بپا کئے گئے ہوتے تو وہ اُن کا احترام کرتے ۔ اگر مغرب کو تمام امور پر گرفت حاصل ہوتی تو وہ ان انقلابات کو معرضِ وجود میں آنے کی ہرگز اجازت نہ دیتے ۔ یہ مغرب ہے جسے پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے اور یہ اسلام پسند اور علاقے کے عوام ہیں جو برسرِ منظر آئے ہیں۔
درحقیقت اسلام پسند ہیں جنھوں نے امریکہ ، اسرائیل اور مغرب کے اتحادیوں کی بالادستی کے خلاف مزاحمت کی ہے اور انھیں اقتدار سے اتار پھینکا ہے اور مشرقِ وسطیٰ پر امریکی گرفت کو کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔لہٰذا یہ مغرب ہے جس کو پریشان ہونا چاہیے نہ کہ اسلام پسندوں کو ۔ مغرب کی اصل تشویش یہ ہے کہ عرب اسلام پسند کتنی دیر تک اپنے آپ کو مغرب دشمن محاذ سے دور رکھ پائیں گے ۔ عرب ممالک کے اسلام پسندوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائیں۔ اگر ایران اور طاقتور غیر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات مستحکم ہوتے ہیں تو امریکہ اور یورپ فوری طور سے ان نئی حکومتوں کے لئے اقتصادی منصوبہ سازی کریں گے اور اپنے ماضی کے کردار پر اپنی معذرت پیش کریں گے ۔اس بات کا امکان ہے کہ اگر اسلام پسندوں کا رجحان غیر مغربی محاذ کی جانب ہوتا ہے تو امریکہ اور یورپ اُن کے خلاف فوری طور سے پابندیاں نافذ کرنے کے لئے سرگرم ہوجائیں ۔ لیکن یہ وہ قیمت ہے جسے اسلام پسندوں کو بہرحال چکانی ہوگی ۔ اسلام پسند اس محاذ کی چوٹی پر ہیں جو امریکی ، یورپی اور مغربی مفادات سے متصادم ہیں ۔ اسلام پسند اپنی ملتوں کو وقار ،آزادی و خودمختاری سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بہت حیرت کی بات ہوگی اگر مغرب ایسی صورت میں ان کا محاصرہ نہ کرے اور انھیں سزا نہ دے ۔