پانچ سو سال قبل کی بات ہے کہ جب صیہونی امریکہ میں داخل ہوئے تھے اور اسی امریکہ میں ورود کے زمانے سے تاحال وہا س کوشش میں لگے رہے ہیں کہ ایک ایسی مملکت میں نفوذ کرنے میں کامیاب ہوں،جو دنیا کا سب سے بڑا اور امیر ترین ملک ہے۔اور اتفاقاً کامیاب بھی ہوئے۔
جارج واشنگٹن کے زمانے میں یہودی،امریکہ میں صرف چار ہزار تھے،اور انہوںنے نے امریکہ کی جنگ آزادی میں اپنی حمایت کا حصہ ڈال دیا،یہاں تک کہ نو آبادیاتی نظام میں بھی انہوں نے بہت زیادی مدد کی۔
امریکی جنگ آزادی میں صیہونیوں کی حمایت کو ابھی پچاس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کی تعداد امریکہ میں 33لاکھ سے تجاوز کر گئی۔لیکن ان کی اصل تعداد آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکی ہے کہ یہ بھی صیہونیوں کی سیاست کا ایک حصہ ہے،نیز پوری امریکی مردم شماری کا نظام،صیہونیوں کے ہاتھ میںہے۔ہنری فورڈ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ،
”دنیا بھر کے تھیٹر،سینما،چینی کی پوری تجارت،گندم،تمباکو،کاٹن،فولاد اور گوشت کا 50فیصد تجارت،40فیصد سے زیادہ جوتوں کی تجارت،زیادہ تر موسیقی کے آلات،جواہرات،الکوحلی مشروبات،بنک لاکرز،بچت کے مختلف صندوق،صیہونی چلا رہے ہیں“۔
یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ملتِ امریکہ،صیہونی بازار تجارت کا اپنے ملک میں ارتکاز سے کبھی راضی نہیں ہوئی کیونکہ انہیں اس بات کا پتہ ہے کہ ہر اس ملک میں جس میں صیہونیوں نے فعال کردار ادا کیا،تاریخ کی گواہی موجود ہے کہ وہاں پر کرپشن اپنے آخری حدود کو چھو لیتی ہے۔جس کے نتیجہ میں دیگر اقوام اس قوم سے بد ظن ہوتی ہیں۔
جس کی واضح مثال اسپین،جرمنی اور انگلستان جیسے ممالک ہیں،اس وقت امریکہ کچھ ایسی ہی تکلیف میں گرفتار ہے ،یعنی ہر وہ غلط کام جو صیہونی انجام دیتے ہیں ملت امریکہ کے نام سے تکمیل کو پہنچ چکا ہوتا ہے ۔حالانکہ ملت امریکہ ان تمام وارداتوں سے بے خبر ہے،صیہونیوں نے امریکہ کے ہر گوشہ و کنار میں اثر و رسوخ پیدا کیا ہوا ہے۔یہاں تک کہ جو بھی کلیسا امریکہ میں فعال کردار ادا کر رہا ہے صیہونیوں کی نگرانی میں فعالیت جاری ہے۔
در حقیقت چرچ کے جتنے بھی ٹریبیون ،مشغول تبلیغ ہیں ،صیہونی تبلیغی ساز و سامان میں سے ہیں۔
میرے خیال میں اگر چرچ کے پادری اور کارڈینل،اپنی گفتگوﺅں پر ذرا سی دقت کریں،غور و فکر کریں تو پتہ چل جائے گا کہ اُن کے 90فیصد تقریری مواد کی جڑیں صیہونیوں کی فکر سے مربوط ہیں۔یعنی دنیا بھر میں امریکی گرجا گھروں سے بہتر جگہ یا مراکز وجود نہیں رکھتی جو صیہونی افکار کی آبیاری کر سکیں۔
جب یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ صیہونیوں نے گرجا ﺅں کے مرکز تک رسائی حاصل کی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان کے نفوذ سے امریکی یونیورسٹیاں محفوظ رہ گئی ہوں؟
جی ہاں! آج امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ ،اساتذہ،انتظامیہ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک،صیہونی عقائد،افکار اور نظریات کے نفوذ کی وجہ سے ہی ،یہ علمی معاشرے انتہائی درد ناک تکلیف میں مبتلا ہیں۔
امریکہ میں دو صیہونی ”یہودی“ تنظیمیں فعال کردار ادا کر تی ہیں۔
۔کہیلا
۔امریکی یہودی کابینہ
یہودیوں کی نیو یارک کی طرف منظم ہجرتوں کا بنیادی محرک ان کی تنظیم کہیلا کی موجودگی ہے۔کیونکہ یہ تنظیم،یہودیوں کے لئے،مسیحی روم کا درجہ رکھتی ہے۔یا مسلمانوں کے لئے مکہ کا حکم ہے،بالکل ویسے ہی ہر وہ یہودی جو امریکہ میںرہتا ہے ،کم ازکم ایک خفیہ تنظیم کے رجسٹرمیں اس کا نام درج شدہ ہے۔
آج کل یہودی تنظیم کہیلا نے اپنا نام بدل کر ”عالمی یہودی کانفرنس“ رکھ دیا ہے۔
امریکی صدر کا تعین اور انتخاب صرف امریکی صیہونیوں کی اجازت سے ہوتا ہے۔جبکہ ملت امریکہ اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ اپنے صدر کو منتخب کرتی ہے۔اگر انتخابات کے بعد امریکی صدر کا یہودیوں سے سلوک اچھے انداز کا اور مناسب نہ ہو،تو ایسے فنی انداز سے اس کی کوئی چوری منکشف ہو گی،کہ چاہے نہ چاہے اسے تسلیم کیا جائے۔اور اسی کے زیر اثر سیاسی میدان سے باہر نکلنا پڑ جائے۔
حال حاضر میں صیہونیت اپنے قدیم طور سیاست کے ساتھ تمام میدانوں میں فعالیت انجام دے رہی ہے۔اس قدیم سیاست کے مطابق صیہونی کو صف اولی میں کھڑا نہیں ہونا چاہئیے۔بلکہ پس پردہ رہ کر میدان سیاست کا انتظام اپنے ہاتھ سے چلانا چاہئیے،ایسا ہی طریقہ کار ان کے لئے کار آمد ہوتا ہے تا کہ یہ طریقہ انہیں جلد اور بہتر سے بہتر انداز میں اھداف تک پہنچائے۔کیونکہ اگر صیہونی معاملات میں سب سے اونچے مقام پر ہوں اور کھل کر صیہونزم کی مدد کریں تو اس سے صیہونزم لوگوں کی نظروں میں متہم ہو گی اور لوگ صیہونیوں کو اپنی نفرتوں کا شکار کریں گے۔جبکہ مخفیانہ اور پس پردہ رہ کر کام کرنے سے کسی بھی جگہ پر صیہونیوں پر الزام نہیں آتا۔اور جتنا مثبت منفی تنقید سے بچاﺅ ممکن ہے اسی طرح سے صیہونی اپنے مقاصد تک پہنچ جاتے ہیں
ایک دوسری صیہونی تنظیم بھی امریکہ مین انتہائی فعالیت کے ساتھ اپنے امور انجام دیتی ہے جس کا نام ”تا مالی“ ہے ۔بظاہر یہ تنظیم سیاسی میدان سے باہر نکلی ہوئی ہے۔لیکن حقیقتاً کمزور بھی نہیں ہوئی ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ با اثر اور طاقتور ہو کر کام انجام دے رہی ہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس تنظیم کا سرمایہ کار اور آمدنی ،خواتین کی پردہ فروشی،جنسی تجارت،لڑکیوں کا کاروبار اور نشہ ااور اشیاءکی خرید و فروخت سے وجود میں آتا ہے۔یہ ہے یہودیوں کی دنیا بھر کی سیاسی میدانی حکمت عملی۔۔۔ دیکھے کوئی جو دیدہ¿ عبرت نگاہ ہو۔
بشکریہ السموات،شیراز