۔قاضی حسین احمد کی ماہناماوائس آف فلسطین سے خصوصی گفتگو
ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سابق رکن قومی اسمبلی اور تمام بڑی دینی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس عمل کے سربراہ رہے ہیں۔
آپ کا شمار پاکستان کے ان بزرگ سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا کردار ملک میں ہمیشہ مثبت رہا ہے، خاص طور پر مذہبی جماعتوں کو قریب لانے اور ملک میں عالمی استعماری قوتوں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے میںآپ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی حسین احمد کی کاوشوں کی بدولت ملی یکجہتی کونسل ایک بار پھر فعال ہوگئی ہے اور تمام مکاتب فکر کے جید علماءکرام دوبارہ اس پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ہیں۔فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان کے وفد نے حال ہی میں ان سے ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس کے دوران ملاقات کی اس موقع پر قاضی حسین احمد نے مسئلہ فلسطین پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی میں ہے۔قاضی حسین احمد صاحب کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
:گفتگو کا متن
صیہونیوں نے جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں ہونے والی جنگوں میں اپنے آپ کو مظلوم بنا کر اور اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے ہٹلر نے یہودیوں کی نسلیں تباہ کر دی ہوںیعنی ان مظالم کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور پھر عالمی استعماری قوتوں بالخصوص برطانوی سامراج کی سر پرستی میں مظلوم بن کر ظلم کی ابتداءکر دی،یعنی فلسطینیوں کو ان کے آباﺅ اجداد کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کر دیا اور ان کی سر زمین پر قابض ہو گئے اور واویلا کیا کہ یہودیوں کی ہوم لینڈ(Homeland)کی ضرورت ہے اور بالآخر سنہ 1948ءمیں انبیاءؑ کی سرزمین فلسطین پر غاصب قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔
سر زمین فلسطین پر قابض ہونے کے بعد ایک حکومت قائم کی گئی جسے پوری دنیا کی استعماری طاقتوں اور خصوصاً امریکہ او ر برطانیہ کی پوری حمایت حاصل تھی اور اس غاصبانہ قبضہ کے نتیجہ میں فلسطینیوں کو در بہ در خاک بسر کر دیا گیا۔اور مظلوم فلسطینی آج بھی دنیا بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں ،فلسطینی اپنے ملک،علاقے اور انے گھروں میں واپس جانے سے آج تک محروم ہیںاور ان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے گھروں میں واپس چلے جائیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے اور آج بھی اگر فلسطینی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں تو دنیا بھر کے 80ممالک سے لا کر بسائے جانے والے یہودیوں کی تمام تعداد سے بھی فلسطینیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ایک جمہوری ملک میں اسرائیل یہودیوں کا وطن نہیں بن سکتابلکہ فلسطینیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جبکہ فلسطین کے چاروں اطراف عرب مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کے نتیجے میں عرب مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کے بیچ و بیچ ایک مصنوعی ریاست قائم کر دی گئی ہے جو عالم اسلام کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔
پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جب لاہور میں سنہ 1940ءکو قرارداد پاکستان پیش کی تو اس میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ جو ایک دوسرے مسئلے کا ذکر کیا گیا وہ فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ تھااور اپنی تقریر میں انہوںنے اقرار کیا تھا کہ اگر فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکالا گیا اور یہاں پر ایک صیہونی ریاست قائم کر دی گئی تو پوری دنیا کو کبھی امن نہیں مل سکے گا اور وہی بات آج حقیقت بن چکی ہے۔
جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا اور وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں چلے جاتے اور جب تک غاصب صیہونی (مصنوعی ریاست) بالکل استعماری سرپرستی کے نتیجے میں عالم اسلام کے قلب میں خنجر گھونپا گیا ہے جب تک عدل کی بنیادوں پر اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک دنیا کو امن نہیںمل سکتا نہ مشرق وسطیٰ کو اور نہ ہی پوری دنیا کو۔
دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی ہے۔