دنیا کے تما م اسلام اور حریت پسند اور انقلابی مسلمان ۴جو ن کو عالم اسلام کے عظیم رہنما اور مسئلہ فلسطین کو دنیا میں زندہ کرنے والی عظیم ہستی امام خمینی کی برسی مناتے ہیں
۔یہ وہ عظیم بطل جلیل اورفرزندِ اسلام ہے کہ جس نے دورِ حاضرمیں مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور اُسے عربوں کی قومیت سے نکال کر عالم اسلام اور مسلمانوں کے قبلہ اول کا بنیادی مسئلہ قرار دینے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔اُنہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایک ارب سے زیادہ تعداد رکھنے والے مسلمان اگر اپنے دست و بازو کی قوت کا یقین کر لیں تو دنیا کی کوئی بھی مادی طاقت و قدرت اُن کا سامنا نہیں کر سکتی۔امام خمینی نے مسلمانو ں کو عہد رفتہ کے شاندار ماضی اوراز دست رفتہ تہذیب و عروج کو دوبارہ حاصل کرنے نیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اسلا م کے آفاقی نظا م کی جانب لوٹایا۔ یہ امام خمینی ہی تھے کہ جنہوں نے دنیا کے تمام آزاد اور حریت پسندوں اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل پر اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالیں تو ان سب کی مدد سے اسرائیل صفحۂ ہستی سے نابود ہو جائے گا۔اِسی طرح اُنہوں نے ماہ رمضان المبار ک کے آخری جمعہ ’’جمعۃ الوداع‘‘کو قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اسرائیلی مظالم کا بر سر عالم اعلان کرنے اور فلسطینی قوم سے اظہار یکجہتی کیلئے ’’یوم القدس‘‘قراردے کر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے عملی اقدامات کیے۔ہم عالم اسلام کے اس عظیم رہنما کی برسی کے موقع پر دعا گو ہیں کہ امام خمینی کی دیرینہ آرزو جلد پوری ہو اور دنیا کے مسلمان جلدہی قبلہ اول بیت المقدس میں نماز اتحا د ووحدت ادا کریں اور سرائیل کا خاتمہ ہو۔آمین (ادارہ)
فلسطینی داستاں اور ہماری حالتِ زار
فلسطین کی داستاں ،ظلم و بربریت و سفاکیت کی داستاں ہے، یہ ایسے نشیب وفراز سے گزری ہے کہ جسے قرطاس و قلم بیاں کرنے سے عاجز ہے،مگر ہماری حالت توبقول اکبر الہ آبادی کے ایسی ہے کہ ’’وہ لیٹے لیٹے دعا کریں، جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں!‘‘ ہم میں تو اتنا دم خم کہاں تھا کہ اپنے زور بازو کے بل بوتے فلسطین کو آزاد کراتے ،دامے درھمے سخنے اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں کی امداد کرتے بلکہ یہاں تو الٹی گنگا ہی بہہ رہی ہے ، جو بھی حق و حقیقت کی بات کرتا ہے ہم اُس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتے ہیں،اسی پر کفر کے فتوے صادر کر کے اُسے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے،ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے خود کو غازی بنانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو تے ہوئے اُس کے خلاف جہاد کا الٹی میٹم دے کر اُس پر فتنہ و مفسد فی الارض کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے!
مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین سے لا تعلق کرنے کی سامراجی چالیں
چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جوجوش و جذبہ دیکھنے میں آیا وہ قابل دید تھا ، نوجوانوں کا جو ش وخروش ، حریت، جذبہ جہاد،ایک اسلامی سر زمین کی حفاظت کیلئے کیے گئے عہد کا خیال مسلمان اقوام میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب پورے عالم اسلام میں ایک ہلچل مچی تھی اور بچہ ،بوڑھا ،جوان اور زن ومرد سب ہی اسرائیل کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبے سے سر شار تھا۔سامراج نے اِس عوامی غم و غصے کو کم کرنے کیلئے بتدریج چالیں چلیں کہ جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
۔برطانیہ،امریکہ اور اسرائیل سمیت دوسرے ہمنواؤں کے ایکے و اتحاد اور اندرونی غداروں اور مسلمان منافق حکمرانوں کی سازشوں سے نہ صرف مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مصر سے وادئ سینا اورلبنان اور شام سے جولان کی پہاڑیو ں کے ہاتھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ سیاسی وعسکری میدان میں مسلمانوں کی شکست وہزیمت نیز ہمت و حوصلوں کی پسپائی ہمارا مقدر بنی ۔
۔دوسر ی جانب جب عرب حکمراں ہمت ہار بیٹھے اوروہ دولت و اقتدار کے نشے میں غرق ہو کر دنیا و مافیھا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے۔
۔تیسری جانب امریکہ اورمشرق وسطیٰ میں اُس کے گماشتے اسرائیل کی جانب سے غافل مسلماں حکمرانوں کواُن کے اقتدار کی ضمانت و حفاظت کیلئے اُنہیں دکھائے جانے والے سبز باغوں کی طویل فہرست نے اِن حکمرانوں کی آنکھوں کو خیر ہ کر دیا۔یہ سب تو فلسطین سے باہر کی کہانی ہے ا ب آئیے ذرا اندر کی داستاں بھی سن لیں۔
۴۔چوتھی جانب فلسطینی مزاحمت و جہادکا راستہ روکنے اور اسلامی حمیت و غیر ت کا جنازہ نکالنے جیسے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سیاست میں ’’مذاکرات‘‘ کی روش کو روشناس کرایا گیاتا کہ ’’ٹیبل ٹاک ،ٹالرینس اورتساہل و تسامح ‘‘کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے فلسطین کے اندر سمجھوتے او رمک مکا ؤکی سیاست کو فروغ دیاجائے۔ان تمام مقاصدکو عملی کرنے کیلئے اسرائیل کو یا سر عرفات اور اُس کے ہمنواؤں سے بہتر کوئی اور خدمت گزار ملنا مشکل تھا۔یہ وہ افراد ہیں کہ جنہوں نے فلسطین کی جہادی روح کا قتل عام کیا اور فلسطینی قوم کو اُس کے مقصد کے حصول میں کئی دہائیو ں پیچھے چھوڑ دیا۔
فلسطینی قوم پر مظالم کی ایک جھلک ۱۹۴۸ سے لے کر دو عشرو ں تک ذلت ورسوائی کی یہی صورت حال چھائی رہی ؛قومیں حسرت و یاس سے امت مسلمہ کا مٹتا وقار دیکھتی رہیں، مرتی رہیں،جیتی رہیں،تڑپتی رہیں، سلگتی رہیں،تختۂ دار پر لٹکتی رہیں۔جو فلسطین میں تھے اُن کے گھر اجڑتے رہے،اسکول ویران ہوتے رہے، ہسپتالوں کو مسما ر کیا جاتا رہا!اور……..زمینوں پر قبضہ ہوتا رہا۔
اِن فلسطینیوں کا قتل عام جا ری رہا ، خوں بہتا رہا، سڑکیں خوں میں نہاتی رہیں،جو پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے وہ سسکتے ، بلکتے، تڑپتے، مچلتے رہے ،جو صابرا و شتیلا کے کیمپوں میں قتل و غارت سے محفوظ رہے وہ زندان کی سلاخوں کے پیچھے اسیروں کی تعدادمیں اضافہ کرتے رہے۔
جوموت کے گھاٹ اترنے سے بچے انہیں پر ظلم و بربریت،تحقیر و اہانت اورتذلیل وسبکی کی تند و تیز آندھیوں سے ہلا کر رکھ دیا۔جو اسرائیلی اور صہیونی درندوں کے ہاتھوں ذبح اور مسلخ ہونے سے بچ گئے اُنہیں جلاوطن کر کے اپنے ہی ملک کی آزاد فضا میں سانس لینے سے محروم کر دیا۔جو فلسطین کے اندر اقتدار کے خدا بن کر نا سور بنے رہے وہ قوم کے سرخ لہو کی ندیاں بہتے دیکھتے رہے،مذاکرات کرتے رہے اوریہ وہی قوم فروش افرادہیں کہ جنہوں نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو مذاکرات میں فلسطینی قوم کی غیر ت وحمیت کا سودا کر کے ذلت رسوائی کو قوم کو ہدیہ کیا! زندہ ضمیر ، سرفروش و جہادی مجاہدین اورحقیقی اسلام کے علمبردارعلماء کی کوششیں یہ سلسلہ یونہی جار ی رہا………………..،لیکن چند زندہ ضمیر والے ، سرفروش ، جہادی ،حقیقی اسلام کے علمبردارعلما،سچے اور دردمند رہنما،نوجوان اور اسلامی امت کا دل کی گہرائیوں سے درد رکھنے والے افرا د گاہے بگاہے فلسطین اور فلسطین سے باہر عملی اقدامات کرتے رہے،شہادتیں دیتے رہے ،جہاد کرتے رہے ،لیکن یہ سب ایک خاص حد اور دائرے میں تھا اور اِس کے اثرات بھی محدود تھے۔دوسری جانب امریکہ نے اسرائیل کو ناجائز وجود عطا کر کے اس پورے خطے میں اُسے امن و امان فراہم کرنے کی خاطر خطے کے تمام اسلامی ممالک کو اپنے ساتھ ملانا شروع کردیا۔ خطے کے اکثر اورفلسطین کے اطراف کے تما م عرب و غیر عرب ممالک اسرائیل دوست بن کر فلسطینی قوم کی بے بسی ،ذلت ورسوائی ،بے چارگی او ر مظلومیت کے خاموش اور بے بس تماشائی بنے رہے۔
مردجری ‘امام خمینی کے شعار
ایسے میں مشرق وسطیٰ کے علاقے سے کہ جہاں اسرائیل نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے اور ملک و قوم اور تعمیری کردار اداکرنے والے طبقے کو سلا یا ہوا تھا، اچانک ایک مرد جری اٹھتا ہے اور ظلم و ظالم کی بساط الٹ کردین کا بو ل بالا کر دیتا ہے۔اِس مر دجری کوتاریخ میں ’’امام خمینی ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۱۹۶۳ میں امام خمینی نے اپنی اسلامی تحریک کا آغاز کیا اور آپ نے تین شعار بلند کیے؛ ۱۔شاہ یران کی حکومت غیر اسلامی ہے،۲۔ اسلام خطرے میں ہے ،۳۔ اسرائیل ایک ظالم حکومت ہے۔
امام خمینی نے اپنی تحریک کی ابتداہی سے علما اور عوام کے ساتھ مل کر ایک شہنشاہیت کی بنیاددوں پر قائم، غلط، فاسد اور غیر اسلامی نظام کے خلاف اپنی جدو جہد کا آغاز کیالیکن اُنہیں اس جرم کی پاداش میں جلا دطن کر دیا۔ آخر کار ۱۵سال کی جلاوطنی کے بعد امام خمینی یکم فروری کو دوبارہ ایران واپس پہنچے اور اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔اسلامی حکومت ونظام کی تشکیل کے بعد آپ نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک مرتبہ اور اتحاد کی جانب عملی قدم بڑھانے کی دعوت دی اور اِ س مقصد کیلئے سب سے پہلے خود قدم بڑھایا۔
امام خمینی کی دعوت
امام خمینی نے اپنی تحریک کی ابتدا ہی سے جہاں ایران میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں کیں وہیں آپ نے دنیا کے تمام اسلامی ممالک کو اسلام کی آغوش میں لوٹنے کی جانب دعوت دی۔ امام خمینی کی فکر، نظریہ اور دعوت تما م عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔آپ نے اپنی تحریک کی ابتداہی سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک متحد منسجم ،مضبوط اور متفق اسلامی دنیا کا تصور پیش کیا۔آپ نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ یہ قرآنی دعوت درحقیقت اُسی وقت قابل عمل ہو سکتی ہے کہ جب دنیا کے تمام مسلمان اپنے فقہی اور جزئی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک اللہ ، ایک دین ، ایک قبلہ ، ایک کتاب اور ایک خاتم المرسلین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں۔
اُمتِ واحدہ کا تصور‘ دشمن شناسی اور اُس کی چالوں کو سمجھے بغیر ممکن نہیں!
یہی وجہ ہے کہ اما م خمینی نے عالم اسلام کو دشمن شناسی کی جانب متوجہ کیا۔اُن کے مکتب میں امت واحدہ کا تصور’’ دشمن شناسی اور اُس کی چالوں کو سمجھے بغیر ‘‘ممکن نہیں۔امام خمینی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ نے عالم اسلام کو سب سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کے خطروں سے ہوشیا ر کیااور ساتھ ہی فلسطینی قوم کی مظلومیت اور اسرائیل کے ظالم وجود اور ظلم وستم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔اِنہی جرموں کی پاداش میں آپ کو جلا وطن کیا گیا لیکن آپ سیر ت رسول اکرم پر چلتے ہوئے اپنے مقدس اور نیک مقصد سے دستبردار نہیں ہوئے اورآپ جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے وہاں اسلام کی درد بھری داستاں سے سب کو آگاہ کیا اور لوگوں کو اسرائیل کے خطرے سے باخبر کیا۔.
امت مسلمہ اور ہفتہ وحدت
امام خمینی ا سلامی دنیا کی و ہ واحد ہستی ہیں کہ جنہوں نے دنیا کے مسلمانوں کیلئے اُن کی دنیا میں ترقی اور آخرت میں نجات کے حصول کیلئے خاتم النبیین کی یاد اور ذکربرپا کرنے اور اُن کی آفاقی تعلیمات کو یاد کرتے ہوئے اُس پر عمل پیرا ہونے کی جانب توجہ دلائی۔آپ نے اُمتِ مسلمہ کو ہفتہ وحدت منانے حکم دیا تا کہ شیعہ اور سنی مل کر جشن عید میلا دالنبی ؐ منا سکیں۔
دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہا ہے
اِن تمام امور کے ساتھ ساتھ آپ نے تمام مسلمانوں کواُن کے مشترکہ دشمن اور اُس کی چالو ں کی جانب متوجہ کیا۔امام خمینی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں دشمن کے اختلافات ، تفرقے ،کمزوری و ضعف نیز اِن سب مشکلات کے راہ حل کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ با ت میرے لیے ایک معما کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام اسلامی حکومتیں اور مسلمان اقوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ اُن کا درد کیا ہے اور و ہ اِس بات سے بھی اچھی طرح با خبر ہیں کہ یہ دشمن کا ہاتھ ہے جو اُن کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے اُنہیں ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے ۔اُن کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ مسلمانوں کے باہمی تفرقے سے نابودی اور کمزوری اُن کا مقدر بنی ہے۔اگر دنیا کے تمام مسلمان آپس میں متحد ہو جاتے اور اسرائیل پر ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالتے تو اسرائیل بہہ جاتالیکن اِس کے باوجود وہ اسرائیل کے سامنے ذلت کا شکار ہیں!اصل معمہ یہی ہے کہ وہ یہ سب جاننے کے باوجود اِس مشکل کے حقیقی راہ حل یعنی اتحاد و اتفاق کی جانب رجوع کیوں نہیں کرتے !اور استعمار کی جانب سے اُنہیں کمزور بنانے کی تمام سازشو ں کو ناکام کیوں نہیں بناتے؟!
‘‘
فلسطینی مجاہدین کی مدد ہمارا فریضہ ہے
!امام خمینی نے دوسرے رہنماؤں کی مانندصرف زبانی جمع خرچ کو ہی اپنا شعار نہیں بنایا بلکہ آپ نے فلسطینی مجاہدوں کی دامے درھمے سخنے امدا د کیلئے بھی مسلمانوں پر زور دیاکہ وہ اپنے دشمن اسرائیل سے مقابلے کیلئے خود کو تیا رکریں، آپ فرماتے ہیں: ’بعض اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اختلافِ نظر ،ایک ارب کے قریب تعداد رکھنے والے مسلمانوں کو اِس بات کا موقع فراہم نہیں کر رہا ہے کہ وہ اپنے معدنی ذخائر اور قدرتی منابع او رخدا کی عطا کر دہ دولت رکھنے کے باوجود استعمار اور صہیونیوں کا راستہ روک سکیں۔بعض عرب حکومتوں کی خود خواہی ،خود غرضی اور اسرائیل کے سامنے اُن کا تسلیم محض ہونا اِس بات میں رکاوٹ بنتا ہے کہ لاکھوں مسلمان‘ فلسطین کواسرائیلی قبضے اور غصب سے نجات دلائیں۔سب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ بڑی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو وجود عطا کرنے کے بعد بھی اُن کے مقاصد او ر اہداف ختم نہیں ہوں گے،اُن کا منصوبہ ہے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کو فلسطین کی مانند اپنا اسیرو قید ی بنا لیں۔آج ہم فلسطین کو آزادی دلانے کیلئے ایسے مجاہدوں کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے فلسطین کو آزادی دینے اور اُسے اسرائیل قبضے سے رہائی عطا کرنے کیلئے سروں پر کفن باندھ کر جہاد شرو ع کر دیا ہے!‘‘
مسلمان خود کو اسرائیل کے مقابلے کیلئے تیار کریں
امام خمینی کے نزدیک مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقد س کا احترام اور اُس کی آزادی حد درجہ اہمیت کی حامل ہے لہٰذا جب بھی وہ قبلہ اول کویہودی پنجوں میں قید دیکھتے تو اُن کادل خون کے آنسو روتا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے دو کروڑ کی عالمی فورس تیار کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔آپ فرماتے ہیں:
’’آج مسلمانوں کا قبلہ او ل ‘سرطانی غدے اسرائیل کے ہاتھوں میں گرفتار ہے ،وہ آج ہمارے فلسطینی بھائیوں کو تمام قدرت و طاقت کے ساتھ ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے اُنہیں اُن کے خون میں نہلا رہا ہے۔ یہ اسرائیل ہی ہے جو تمام شیطانی وسائل کو بروئے کار لا تے ہوئے تفرقہ انداز ی کر رہا ہے ۔ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خود کو اسرائیل سے مقابلے کیلئے تیار وآماد ہ کرے!‘‘
دشمن ہمیں لڑا کرہمارے قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے!
امام خمینی مسلمانوں کو اُن کے اتحاد اور اُن کے ممالک کے قدرتی ذخائر کی دولت،اُن کی قدر وقیمت اوراُسے لوٹنے کیلئے
دشمن کی سازشوں کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’اگر ایک ارب سے زیادہ مسلمان اسرائیل کے خلاف قیام کریں تو اسرائیل اُن کا کچھ نہیں کر سکتا،اگر یہی مسلمان یوم القدس کے دن باہر آکر مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے فلک شگاف نعرے لگائیں تویہ نعرے اُن کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوں گے۔ اِن مسلمانوں کی تعداد بھی ایک ارب سے زیادہ اور اِن کے پاس بیش بہا قیمتی قدرتی ذخائر بھی موجود ہیں اور یہ تمام حکومتیں ان تمام ذخائر کی محتاج ہیں۔لیکن اِن سب کے باوجود وہ مسلمانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ آپ اختلاف اور تفرقے کا شکاررہیں اور وہ آپ کے اختلاف وانتشار سے فائدہ اٹھا کر آپ کی دولت کو لوٹ لیں اور کوئی بھی کچھ نہیں بولے!‘‘
امام خمینی اور۱۹۵۰ سے صہیونی خطرے کا مسلسل بیان
امام خمینی نے اپنی تحریک کی ابتداء سے قبل ہی عالم اسلام کیلئے اسرائیل کے خطر ے کو بھانپ لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد آپ نے اسرائیل کے ناپاک وجود کے پس پردہ عوامل او ر سازشوں کو سمجھتے ہوئے اسرائیلی منصوبوں کو بے نقاب کرنا شروع دیا تھا،آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قائم ہونے کے کچھ ہی مدت بعد یعنی ۱۹۸۰میں فرمایا: ’’میں تقریباً بیس سال قبل سے یعنی ۱۹۵۰ سے ہی بین الاقومی سطح پر چھائی ہوئی صہیونیت کے خطرے سے مسلسل آگاہ کر رہاہوں اور آج بھی میں اُس کے خطرے کو دنیا کے تما م آزادی بخش انقلابوں خصوصا اسلامی انقلاب کیلئے ماضی سے کم تر تصور نہیں کرتا ہوں اور حقیقت یہ ہے اِن خونخوار جونکوں نے دنیا کے مستضعف افراد کوشکست دینے کیلئے ایکا کر لیا ہے ۔‘‘
اگر حقیقت بین نگاہوں سے دیکھا جائے توآج اما م خمینی کی بصیرت افرو ز تقاریر اور فہم وفراست اوردوراندیشی مکمل طور پر کھل کر سامنے آگئی ہے ۔یقیناًامام خمینی کی پیشن گوئی اور آپ کا ۱۹۵۰ میں امریکہ کو ’’بڑا شیطان ‘‘کہنااور اسرائیل کے مذموم مقاصد سے آگاہی سب واضح ہو چکی ہے ۔اگر آج بھی مسلمان حکمراں ہوش کے ناخن لیں اور اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو ان کی کامیابی اوراسلام کی سر بلندی کے ساتھ عالم کفر و نفاق کی نابودی یقینی ہو جائے گی۔ضروری ہے کہ اہل پاکستان بھی با ہم شیر و شکر ہو کر فقہی اور جزئی اختلافا ت کو بالائے طاق رکھ کر امت مسلمہ کے اتحاد و وحد ت کیلئے عملی اقدامات کریں۔تمام مکاتب فکر کے علما، دانشور اور سنجیدہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو امت واحدہ کے حقیقی تصور کیلئے سوچنے،سمجھنے اور عملی اقدامات کرنے کی جانب شو ق و رغبت دلائیں۔امیدکہ جلد ہی وہ وقت آئے کہ سب مسلمان قبلہ اول میں نماز وحدت ادا کریں۔