مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں بھی ہزاروں فلسطینیوں نے صیہونیت مخالف نعرے لگائے اور صیہونی حکومت کے خلاف تحریک انتفاضہ کو جاری رکھنے پر تاکید کی۔
سنہ دو ہزار پندرہ کے اکتوبر کے مہینے کے اوائل سے اب تک فلسطین کے مختلف علاقوں میں صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں اور مسجد الاقصی کی زمانی اور مکانی تقسیم اور بیت المقدس کا تشخص بگاڑنے کی سازش کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔
سنہ دو ہزار پندرہ کے اکتوبر کے مہینے کے اوائل میں انتفاضہ قدس میں شدت آنے کے بعد سے اب تک ایک سو پچاسی سے زیادہ فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
مسجد الاقصی ایک مقدس اسلامی مقام اور مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ مسلمانوں خصوصا فلسطینیوں کے ہاں اس کا ایک خاص مقام ہے ۔ فلسطینی اور دنیا بھر کے مسلمان اس سے متعلق مسائل کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان مسائل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بیت المقدس میں صیہونی حکومت کے تسلط پسندانہ اقدامات اور مسجدالاقصی کے سلسلے میں اس حکومت کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف فسطینیوں کے ردعمل سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ فلسطینی، قدس کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور اس مقدس مقام کے تحفظ کی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔
سنہ انیس سو ستاسی میں فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ کا آغاز ہوا تھا اور انتفاضہ قدس اسی کا اگلا مرحلہ شمار ہوتا ہے۔ انتفاضہ قدس کا آغاز سنہ دو ہزار میں ہوا اور اس کا ایک پہلو فلسطینی انتفاضہ کو بین الاقوامی پہلو سے ہمکنار کرنا تھا۔ انتفاضہ قدس کی وجہ سے صیہونی حکومت ماضی کی نسبت اب زیادہ بوکھلاہٹ اور ناتوانی کا شکار ہوچکی ہے اور یہ حکومت بہت ہی متزلزل ہو گئی ہے۔
فلسطینی سرزمین پر صیہونی حکومت کے قبضے کے آغاز سے ہی فلسطینی عوام نے استقامت کا آغاز کر دیا تھا۔ صیہونی حکومت فلسطینی عوام کی سرکوبی میں تشدد پیدا کرنے کے ذریعے تحریک انتفاضہ کے مقابلے میں اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے علاوہ فلسطینی عوام کو استقامت سے روکنے، فلسطین میں اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے ، بیت المقدس پر اپنا مکمل تسلط جمانے اور مسجد الاقصی کو منہدم کرنے کا راستہ ہموار کرنے کے درپے ہے۔
لیکن فلسطینی عوام نے ہمیشہ یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ بیت المقدس سمیت فلسطینی علاقوں پر تسلط پر مبنی صیہونی حکومت کی پالیسیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ سنہ دو ہزار میں انتفاضہ قدس کا آغاز اسی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتفاضہ قدس کا آغاز مسجد الاقصی کی بے حرمتی پر مبنی صیہونی حکومت کے اقدامات کے ردعمل کے طور ہوا تھا۔
بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف انتفاضہ کا جاری رہنا اس امر کا غماز ہے کہ فلسطینی عوام اسلامی مقدسات کی حمایت اور بیت المقدس کے دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔ فلسطین کے حالات سے عملی طور پر یہ بات نمایاں ہو چکی ہے کہ مشرق وسطی میں ساز باز مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ ساز باز مذاکرات صیہونی حکومت کے مظالم اور توسیع پسندی کی روک تھام کا موجب نہیں بنیں گے۔ یورپی حکومتوں کی جانب سے سنہ انیس سو نوے کے عشرے کے اوائل میں سازباز کی تجویز پیش کئے جانے کا اصل مقصد فلسطینی عوام کی انتفاضہ تحریک کو روکنا اور لوگوں کو انتفاضہ تحریک سے الگ کردینا تھا۔
یورپی حکومتوں نے مشرق وسطی ساز باز مذاکرات کا مسئلہ اٹھا کر فلسطینی استقامت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی ناکامیوں کی روک تھام اور فلسطینی عوام کے حقوق کی مکمل پامالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔
لیکن استقامت جاری رکھنے پر مبنی فلسطینیوں کی پالیسی درحقیقت ان یورپی حکومتوں خصوصا امریکہ اور فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کے جدید اقدامات کا جواب ہے۔ یہ حکومتیں سازباز مذاکرات کے احیا کے درپے ہیں حالانکہ اس ساز باز کا نتیجہ خطے میں صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور قبضے کے سوا کچھ اور برآمد نہیں ہوا ہے۔