تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی
یہ تحریر نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے دلخراش اور غمناک سانحہ کے چند دن بعد اس لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ اس سانحہ پر دنیا بھر میں مذمت کا اظہار بھی کیا گیا اور ساتھ ساتھ شہداء کے لواحقین سے ہمدردی اور یکجہتی سمیت تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دل جوئی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جس کے گھر سے کوئی سہارا چلا جائے اس پر کیا گزرتی ہے وہ تو ہی بتا سکتا ہے۔جیسے کہاوت مشہور ہے کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانے ہے۔
تا وقت تحریر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام نے دو مساجد میں گھس کر نہتے عبادت گزاروں کو جس بے رحمی سے قتل کیا اس کی منظر کشی دنیا کے کسی ذرائع ابلاغ کو دکھانے یا پیش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دہشتگرد قاتل نے یہ سارا منظر خود اپنے کیمرے میں ضبط کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا میں نشر کر دیا۔
کرائسٹ چرچ کا سانحہ ہوتے ہی جہاں ایک طرف پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب کے ساتھ غم وغصہ کی لہر پیدا ہونا فطری عمل تھا کیونکہ مسلمان دین الہیٰ اور پیغمبر گرامی قدر حضرت محمد مصطفی (ص) کی احادیث کی روشنی میں جسد واحد کی طرح ہیں اور جب جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
بہر حال ایک طرف نیوزی لینڈ میں پچا س سے زائد اسلام کے نام لیواؤں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تو دوسری جانب مغربی دنیا اس خطر ناک سانحہ کی پردہ پوشی کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈوں کو سامنے لانے میں بالکل سست نظر نہیں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر عام وخاص کی زبان پر ایک ہی بات دہرائی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یقیناًالہیٰ ادیان کا دہشتگردی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں اس بات کی تکرار کرنے کی ضرورت پیش آ رہی تھی ؟ دراصل اس نعرے کا پرچار کروانے والی مغربی نام نہاد تہذیب اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دہشت گردی کا مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل یا جو بھی کہہ لیجئے یقیناًموجو دہے او ر اس کے تانے بانے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا اصل مذہب ہی ’’صہیونزم‘‘ ہے۔لیکن کیونکہ صہیونیوں نے امریکی سیاست سمیت یورپی ممالک تک اپنے پنجہ گاڑھ رکھے ہیں تو کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں ہونیو الی دہشتگردی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں صہیونی ملوث ہیں ، حالانکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کا ذرائع ابلاغ بھی یقیناًاپنے کاروبار کی فکر میں رہتا ہے اور اس فکر میں پھر کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی، یا پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی ذرائع ابلاغ کی بدولت مغرب پرست یا مغرب سے اس قدر متاثر ہو چکا ہے کہ جو کچھ مغرب کہہ دے اسے بالکل تسلیم کر لیا جاتا ہے جبکہ خود اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی اور نہ جانے کیا کچھ کہہ کر رد کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔آج ہماری نسل نو کو مغربی تہذیب و تمدن اس طرح گھو ل گھول کر پلائی جا رہی ہے کہ ہم اپنی اصل سے ہی منحرف ہو رہے ہیں۔
یہ مغربی تہذیب سے متاثر ذرائع ابلاگ اور عناصر ہی ہیں کہ جنہوں نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی کو چند گھنٹوں میں ایک فرد کا عمل قرار دے کر پورے معاشرے سے ذمہ داری سلب کر لی۔جبکہ اگر پاکستان کی بات کریں تو ہم یہاں گذشتہ چالیس برس سے اسی ہی قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے ستر ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں کہ جن میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ملتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں کیونکہ مغرب کا ایجنڈا تھوڑا سا مختلف تھا تاہم انہوں نے پاکستان کو اور بالخصوص اسلام کو شدت پسند بنا کر پیش کیا۔
صرف بات یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ مغرب نے اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے نت نئے ناموں سے مقبوضہ علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کی پرورش کی اور انہیں پھر مختلف ممالک کی سرزمینوں پر اسلام کے جھنڈے کے ساتھ بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام ہی دنیا میں دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے ۔حقیقت میں ان دہشت گرد گروہوں کو پیدا کرنے سے مالی و مسلح معاونت دینے تک میں استعماری طاقتیں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اوریورپ خود ملوث تھے۔
جب سنہ1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو ایک صہیونی جا کر نذر آتش کر دے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا اور اسی طرح جب سنہ2019ء میں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کر دیا جائے تب بھی دہشت گردی کے مذہب ومسلک اور جڑ صہیونزم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے یہی کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد ی کاکوئی مذہب نہیں اور اندھا دھند گولیاں چلا کر معصوم انسانوں کی جان لینے والا نفسیاتی مریض یا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔
یقیناً مغرب وصہیونزم کا دماغی توازن درست نہیں ہے ورنہ آج فلسطین سے کشمیر تک معصوم انسانی جانیں لہو لہان نہ ہوتیں ۔آج ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ دنیا میں اگر دہشت گردی کی کوئی جڑ موجود ہے تو وہ خود استعماری قوتیں جو اپنے من مانے ناپاک عزائم کو حاصل کرنے اور تکبر و گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا بھر میں قتل عام کرتی پھرتی ہیں ، دراصل دہشت گردی کی اصل ذمہ دار یہی استعماری قوتیں ہیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک شامل ہیں۔آج ہمیں مغربی زیر اثر ذرائع ابلاغ سے ایک ہی سبق پڑھایا جا رہاہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ۔ہم اس بات کو کیسے مان لیں کہ چالیس سال تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں قتل ہونیو الے ستر ہزار انسانوں کے قتل میں امریکن بدنام زمانہ سی آئی اے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور موساد سمیت خطے میں ان کے نمک خوار اس کے ذمہ دار نہ تھے ؟
ہم ا س بات کو کیسے تسلیم کرلیں کہ آج ستر برس سے فلسطین کی سرزمین پر جو صہیونیوں کی جانب سے دہشت گردی کی نت نئی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں اس کا تعلق صہیونزم سے نہیں ہے ؟کیا ہم افریقہ میں نسل پرستی اور اب فلسطین میں صہیونیوں کی نسل پرستی کو فراموش کر دیں اور کہہ دیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ؟ کیا صہیونیوں کے مذہب کے مطابق صہیونی دنیا کی سب سے اعلیٰ مخلوق نہیں کہلواتے ؟ کیا صہیونیوں کی مذہبی تعلیمات اورعقائد میں کسی انسان کو صہیونزم کے مفاد پر قتل کرنے کو ہم کس طرح سے دہشت گرد ی اور صہیونزم کو جدا کر سکتے ہیں؟کیا ہم کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کو بھول جائیں جس کے پس پردہ بھی صہیونیزم موجود ہے ؟کیا گذشتہ دنوں صہیونزم کی مدد سے بھارت نے پاکستان کیخلاف جو دہشت گردی انجام دی اس کو بھی فراموش کر دیں ؟ کیا ہم نیوزی لینڈ کے واقعہ کی طرح یہ کہہ دیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی انتظامیہ نفسیاتی مریض یا پاگل ہے ؟ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ نفسیاتی مریضوں اور پاگل عناصر کو پاگل خانوں اور اسپتالوں میں رکھا جائے نہ کہ انہیں انسانوں کے قتل عام پر مامور کیا جائے۔
سانحہ کرائسٹ چرچ پر مغرب نے اس بات کی مکمل کوشش کی ہے کہ مغرب کو دہشت گردی کا لیبل نہ دیاجائے حالانکہ اگر طول تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کی تہذیب دہشتگردی کی بے پناہ داستانوں سے بھری پڑی ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے مسلمانوں کی ہمدردی لینے کے لئے سرکاری ریڈیو اور دیگر مقامات پر اذان دلوا کر دنیا کے مسلمانوں کو خوش کر لیا ہے اور ساتھ ساتھ صہیونزم کی پردہ پوشی بھی کر گئی ہیں تا کہ دنیااصل حقائق نہ جان سکے ۔بے چارے مسلمان بھی کتنے سیدھے ہیں کہ ازانیں سن سن کر اس قدر خوش ہو رہے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ دہشت گردی کی ماں صہیونزم کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں روزانہ اذان پر پابندی عائد کی جاتی ہے لیکن پھر بھی کہا جاتا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو ، تحقیق اور مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ صہیونیزم دہشت گردی کے پیچھے کارفرما ہے ۔دنیا کا کائی حصہ ایسا نہیں جہاں دہشتگردی کے واقعات میں صہیونیزم کا ہاتھ شامل نہ رہاہو۔اس بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ دہشت گردی کا یقیناًالہیٰ ادیان سے کوئی تعلق نہیں البتہ صہیونزم ہی دہشت گردی کا اصل مذہب ومسلک اور رنگ و نسل بھی ہے۔