تحریر: سید اسد عباس
روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ :- گذشتہ دنوں ایک اسرائیلی صحافی اور کالم نویس ایڈین لیوی کی تقریباً پندرہ منٹ کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ ایڈین لیوی نے یہ تقریر امریکہ میں یہودی لابی AIPAC کے اجلاس میں کی۔ یہ تقریر سننے کے قابل ہے، جسے یوٹیوب پر سرچ کیا جاسکتا ہے۔ ایڈین لیوی نے یہ تقریر 29 دسمبر 2016ء میں کی۔ اپنی تقریر کے آغاز میں ہی ایڈین نے کہا کہ جب مجھے اس تقریر کی دعوت ملی تو میں بہت خوش ہوا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں واشنگٹن جاؤں گا اور یہودی لابی کو بتاؤں گا کہ آپ جیسے دوستوں کی موجودگی میں اسرائیل کو دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال میں ہم ایک بدعنوانی پر مبنی تعلق کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایڈین نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسرائیل لابی نہ ہوتی تو اسرائیل رہنے کے لیے ایک بہتر مقام ہوتا۔ یہ ایک منصفانہ جگہ ہوتی۔ اگر اسرائیل لابی نہ ہوتی تو امریکہ ایک زیادہ جمہوری مقام ہوتا۔
لیوی کا کہنا تھا کہ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ کیسے حکومتوں کے بعد حکومتیں اور انتظامی دفاتر تسلسل سے بہت سے موارد میں امریکی مفادات کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ کیسے عالمی قوانین اور انسانی حقوق سے متصادم روش اپنائی جا رہی ہے۔ ایڈین نے کہا کہ فرض کریں آپ کا ایک رشتہ دار منشیات کا عادی ہے، اس مریض سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ آپ اسے پیسہ دیں اور وہ جا کر منشیات خریدے۔ وہ آپ کا بہت شکر گزار ہوگا، وہ آپ کی بہت تعریف کرے گا، آپ کو بتائے گا کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے، آپ اس کے دوست ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس مریض کو بحالی مرکز میں بھیج دیا جائے، وہ آپ پر شدید غصہ کرے گا۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی محبت کیا ہے، حقیقی دوستی کیا ہے۔؟
ایڈین کا کہنا تھا کہ اس ہال میں کسی ایک کو ہلکا سا شائبہ بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کو قبضوں کی لت پڑ چکی ہے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں تبدیلی کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ اسرائیلی معاشرہ نے اپنے آپ کو محصور کر لیا ہے شیلڈز، دیواروں سے۔ یہ دیواریں فقط مادی نہیں ہیں بلکہ ذہنی بھی ہیں۔ واحد امید عالمی مداخلت ہے اقوام متحدہ کی جانب سے، امریکہ کی جانب سے، یورپی یونین کی جانب سے، کیونکہ اس وقت اسرائیلی معاشرہ مکمل طور برین واش ہوچکا ہے۔ اسرائیلی معاشرہ حقیقت سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل ہونا چاہیئے، کیونکہ ایسے لوگ جو حقیقت سے اپنا تعلق توڑ چکے ہیں، اپنے اور معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہیں۔
ایڈین نے مزید کہا کہ تین چیزیں ہیں، جس کے سبب ہم اس انتہائی بربریت پر مبنی حقیقت (اسرائیل ) کے ساتھ نہایت آسانی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم میں سے اکثر کا یقین ہے کہ یہودی منتخب شدہ قوم ہیں اور چونکہ ہم منتخب شدہ قوم ہیں، لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم جو چاہیں کریں۔ ثانیاً انسانی تاریخ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ہے کہ جہاں قابض نے اپنے آپ کو ایک متاثرہ قوم کے طور پر پیش کیا ہو، نہ فقط متاثرہ قوم بلکہ دنیا بھر میں واحد متاثرہ قوم۔ یہی وجوہات ہیں، جن کے سبب اسرائیلی سکون سے رہ رہے ہیں کہ چونکہ وہ متاثرین ہیں، تیسری قدر جو کہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، منظم انداز سے فلسطینیوں کو انسانیت سے خارج قرار دینا ہے، جس کے سبب ہم اسرائیلی امن سے زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ اگر فلسطینی ہماری طرح کے انسان نہیں ہیں تو پھر انسانی حقوق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایڈین نے سوال کیا کہ کیا یہ اسرائیل کے لیے ٹھیک ہے۔؟ نہیں! یہ بہت برا ہے، کیونکہ جب تک امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا رہے گا، اسرائیل تبدیلی کیوں چاہے گا۔؟ اسے کیا تکلیف ہے کہ وہ اپنی روش کو بدلے۔؟ ایڈین نے کہا کہ میں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اسرائیل اور امریکا دو ایسی ریاستیں ہیں، جن میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ ان دونوں ممالک میں ایسی رژیم برسر اقتدار ہے، جس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیوی کا کہنا تھا کہ اسی کی دہائی کے اختتام پر جب میں نے بطور صحافی سفر کرنا شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ موجودہ انسانیت کا سب سے بڑا ڈرامہ میرے گھر سے تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر وقوع پذیر ہو رہا ہے، ہم میں سے اکثر اسرائیلیوں کو ان جرائم کے بارے علم نہیں ہے، نہ ہی ہم میں سے کوئی اس بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ ہماری بلا سے۔
مجھے یہ سمجھنے میں کئی برس لگے کہ ایک ایسا معاشرہ جس کے پچھلے دالان میں اتنا کربناک ڈرامہ ہو رہا ہے، ہم کیسے انتہائی اطمینان سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم کو اس حوالے سے کوئی شرمندگی کیوں نہیں ہے۔؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اکثر اسرائیلیوں کو اس بات کا یقین ہے کہ IDF دنیا کی سب سے زیادہ بااخلاق فوج ہے۔؟ آپ کسی اسرائیلی کو یہ بتانے کی کوشش کریں اور میں نے یہ کوشش کی بھی ہے کہ ممکن ہے کہ اسرائیلی فوج اخلاقی لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہو۔ اسرائیلی اس بات پر شدید غصہ ہو جائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حقیقت ہمارے اتنے قریب وقوع پذیر ہو رہی ہے اور ہم یوں اطمینان سے رہ رہے ہیں، جیسے ہمارے اردگرد کوئی مزاحمت نہیں ہے۔
ایڈین نے دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی معاشرے کا حقیقت سے ربط ٹوٹ چکا ہے، ہمیں اپنے اردگرد کی حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہے، ہمیں عالمی ماحول سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہودی دنیا کے 6 بلین انسانوں سے بہتر مخلوق ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ عالمی قوانین اور عالمی اداروں کی پرواہ کیے بغیر ہم امریکہ، چیک ریپبلک اور کینیڈا پر انحصار کرتے ہوئے زندہ رہ سکتے ہیں۔ ایڈین نے کہا کہ مجھے تبدیلی کی توقع امریکا سے ہے، جب اوباما صدر بنا تو مجھے امید تھی کہ تبدیلی آئے گی، لیکن نہیں آئی۔ ایڈین نے کہا کہ اسرائیل سے آپ تبدیلی کی توقع نہ رکھیں، وہ ہاری ہوئی ریاست ہے۔
بنجمن نیتن یاہو ایک جانب کہتا ہے کہ تمام یہودی اسرائیل آجائیں، یہ یہودیوں کے لیے پناہ گاہ ہے، جو کہ غلط ہے، کیونکہ اسرائیل اس وقت خطرناک ترین جگہ ہے، چوبیس گھنٹے کے بعد نیتن یاہو بیان دیتا ہے کہ اسرائیل کو ہمیشہ ایرانی بمبوں سے خطرہ ہے۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ جب ہمیں ایرانیوں کے بمبوں کا خطرہ ہے تو تم کیسے یہودیوں کو دعوت دے رہے ہو کہ اس محفوظ پناہ گاہ میں آجاو۔؟ ایڈین نے کہا کہ میں نے اس وقت کے صدارتی امیدوار ایہود باراک سے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ جناب صدر اگر آپ فلسطینی پیدا ہوتے تو کیا کرتے، تو اس کے جواب میں ایہود باراک نے مجھے جواب دیا کہ میں کسی دہشت گرد تنظیم کا حصہ ہوتا، یہ بات سکینڈل بن گئی کہ تم نے کیسے باراک کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر تم فلسطینی ہوتے تو کیا کرتے۔ ایڈین نے کہا کہ ہمارا یہ یقین کہ فلسطینی ہمارے جیسے انسان نہیں ہیں، سالوں سے جاری فلسطینی کے خلاف مظالم کے باوجود ہمیں پرامن اور مطمئن رکھے ہوئے ہے۔
ہم انسانیت، انسانی اقدار اور عالمی اقدار کو کھو چکے ہیں، اسرائیلیوں کے لیے عالمی قانون اہم ہے، لیکن اسرائیل ایک خصوصی کیس ہے۔ اسرائیل خصوصی کیس کیوں ہے۔؟ اسرائیل کس جانب بڑھ رہا ہے۔؟ حالات بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔ مجھے اسرائیل سے تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ غزہ پر حملہ ہو رہا تھا اور اسرائیلی اخبارات اور میڈیا نے غزہ کے بارے میں ایک بھی خبر نہ دی، ہمارے ساحل لوگوں سے بھرے ہوئے تھے، جو غزہ پر حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹروں کو دیکھتے تھے۔ ایڈین نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ ہم اسرائیل سے امید چھوڑ چکے ہیں، ہماری امید امریکہ اور یورپ سے ہے۔
میرے خیال میں کوئی بھی شخص اس سے بہتر اسرائیلی معاشرے کی عکاسی نہیں کرسکتا ہے۔ ایڈین لیوی نے اپنے صحافیانہ تجربات اور تجزیاتی ذہن سے اس پندرہ منٹ کی تقریر میں اسرائیل کے مسئلہ کو کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا، نیز اس نے دنیا کو اس مسئلہ کے حل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ یہ تقریر ایڈین لیوی نے 2016ء میں کی، تاہم یہودی لابی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ایڈین کی تقریر کو ان سنا کر دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد قبضے کی لت میں مبتلا اسرائیلی مریض کو مزید چھوٹ اور ڈھیل دی گئی۔ ایڈین کی یہ تقریر مسلمانوں اور مزاحمتی گروہوں کے لیے بھی اہم ہے، تاکہ ان کو بھی اندازہ ہو کہ اسرائیل کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انہیں مزید کیا اقدامات کرنے ہیں۔ ایڈین نے یہودی لابی اور امریکہ کو جگانے کی بھی کوشش کی، تاہم وہ اس میں بری طرح ناکام ہوا، تاہم اس کی حق گوئی کی داد دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔