(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) امریکی سرپرستی میں متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ’تاریخی‘ امن معاہدہ ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کئی سالوں بعد کسی عرب اکثریتی ملک کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا یہ پہلا اقدام ہے۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دہائیوں کی عداوت ختم کرنے پر ’امن معاہدے‘ میں شریک ملکوں کو بہت سے ’فوائد‘ ملنے والے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ پس پردہ دیرینہ تعلقات کو تاریخ کے اس اہم موڑ پر سامنے لانے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات ان دنوں فلسطینیوں سمیت چنددیگر ممالک کی کڑی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
اماراتی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش کے بقول ’اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرکے متمول خلیجی ریاست نے غرب اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اسرائیلی منصوبہ ناکام بنایا۔‘ نیز اسرائیل ۔ امارات امن معاہدے نے جاں بلب ’عرب امن منصوبہ‘ ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر ’جامع عرب امن منصوبہ‘ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے 2002 میں پیش کیا، تاہم اسرائیل اور امریکہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
قیام اسرائیل [1948] کی ابتدائی چند دہائیوں کے دوران عرب ممالک نے یکے بعد دیگرے صہیونی ریاست کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور پھر کئی برس کے خفیہ مذاکرات کے بعد مصر، اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ میں [1979] امن معاہدہ کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ اس معاہدے کی رو سے اسرائیلی قبضے [1967] میں جانے والا جزیرہ نما سینا کا علاقہ مصر کو واپس ملا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی پاداش میں عرب لیگ نے اس وقت مصر کی رکنیت معطل کر دی۔
کیمپ ڈیوڈ سے مصر کو کیا ملا؟
کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کے بعد قاہرہ ہر سال 1.3 ارب ڈالرز مالیت کی فوجی اور 250 ملین ڈالرز کی امریکی اقتصادی امداد حاصل کرتا ہے۔ کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق 1979 سے اب تک مصر، امریکہ سے 69 ارب ڈالرز وصول کرچکا ہے جبکہ امن معاہدے کے باوجود اسرائیل نے اتنی ہی مدت کے دوران 98 ارب ڈالرز واشنگٹن سے اینٹھ لیے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق مصر نے 2009 میں اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 02 فیصد 3.8]ارب ڈالرز] فوجی اخراجات پر صرف کیا جبکہ 1976 میں قاہرہ دفاعی اخراجات کی مد میں مجموعی قومی پیداوار کا 20 فیصد صرف کر رہا تھا۔ امن معاہدے کے بعد دفاعی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کے بعد قاہرہ کو اپنے وسائل ترقیاتی منصوبوں کے لیے مہیا ہونے لگے۔
اسرائیل ۔ مصر امن معاہدے کی ’برکت‘ سے امریکہ کو خطے میں ’پیس بروکر‘ کا فیصلہ کن سفارتی کردار ملا۔ تاہم روایتی اسرائیلی نوازی کی وجہ سے واشنگٹن اس کردار کو کما حقہ ادا نہیں کر پایا۔ اسرائیل سے تعلقات کی وجہ سے ہی مصر کا علاقائی قد کاٹھ بھی بڑھا۔ اسی وجہ سے وہ فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان مصالحت کی میز سجانے کے قابل ہوا۔
اسی معاہدے نے مصر اور امریکہ کے درمیان فوجی تعلقات کی راہیں استوار کیں۔ مصر کی مسلح افواج ان تعلقات پر فخر کرتی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سامان حرب سے لے کر مشترکہ فوجی مشقیں تادم تحریر جاری ہیں۔
عوامی حمایت سے عاری امن معاہدہ
اسرائیل ۔ فلسطین امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے عرب دنیا میں اسرائیل کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوتا رہا، حتیٰ کہ اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والے مصر اور اردن میں بھی یہ جذبات فروزاں دکھائی دیتے ہیں۔ مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور محدود تجارتی تعلقات ہیں، اس کے باوجود سرکاری ذرائع ابلاغ میں تل ابیب کے خلاف مخاصمانہ بیانہ زوروں پر ہے۔
کیا یہ اسرائیل اور مصر کے درمیان ڈرامائی بےاعتنائی کی نئی نشانی ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے! عوامی سطح پر رابطوں میں سرد مہری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کوئی مصری، راہ چلتے کسی اسرائیلی کا مسکرا کر جواب نہیں دے گا۔ اگر اس بات کا یقین نہ ہو تو کسی روز قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانےچلے جائیں۔
قاہرہ یونیورسٹی کی سمت جانے والی ایک مصروف شاہراہ عام پر ایک گمنام اپارٹمنٹ پر نیلی دھاریوں اور ستارے والا سفید پرچم لہراتا دکھائی دے گا۔ سڑک سے یہ پرچم خال خال ہی دکھائی دیتا ہے، آپ غور سے دو مرتبہ دیکھ کر ہی جان پائیں گے کہ ڈیوڈ سٹار سے مزین یہ پھیریرا، اسرائیلی پرچم ہے، جہاں متعین اسرائیلی سفرا ہائی سکیورٹی زون میں سفارتی اعزاز کے ساتھ مقید رہتے ہیں۔ شہر میں ہونے والی کسی بھی تقریب میں ایسے ’ہائی سکیورٹی رسک مہمانوں‘ کو دعوت دینے والے دس بار سوچتے ہیں۔
عرب ذرائع ابلاغ اسرائیل کے حوالے کم ہی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، تاہم مصری ذرائع ابلاغ میں حالیہ دنوں میں اسرائیل کے خلاف بے رحمانہ رویے میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے ’الاھرام‘ اخبار نے اسرائیلیوں کے انٹرویو کرنے والے اپنے کئی رپوٹروں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی چار دہائیوں بعد بھی مصری اخبار کے ایک ایڈیٹر اسرائیلی سفیر سے ملاقات کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
تمام تر فوائد کے باوجود مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ کچے دھاگے سے بندھا ایسا عہد وپیماں ہے کہ جو دو ملکوں کے عوام کی بجائے ان کی حکومتوں کو مختلف معاملات کا پابند بناتا ہے۔ اعتماد سے عاری ان امن معاہدوں میں دفاعی رویہ زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کا ثقافتی تبادلہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ قاہرہ اپنے شہریوں کو اسرائیل سفر کی وجہ سے بلیک لسٹ کر چکا ہے۔ مصر سمجھتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا فقدان ہی دراصل دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر تعلقات میں سرد مہری کی وجہ ہے۔
اردن: امن کا دوسرا شکار
اردن، 24 اکتوبر 1994 کو اسرائیل سے ’امن معاہدہ‘ کرنے والا خطے کا دوسرا ملک تھا۔ وادی عربہ کے مقام پر اسرائیل۔ اردن کے درمیان طے پانے والے ’امن معاہدے‘ سے عمان نے اسرائیل کے زیر قبضہ اپنا 380 مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ آزاد کرایا۔ معاہدے کے تحت اردن کے لیے دریائے اردن اور یرموک سے برابری کی سطح پر پانی کا حصول یقینی بنا۔ معاہدے کے ذریعے پہلی مرتبہ اردن کی مغربی سرحد کا تعین ممکن ہو سکا جس کے بعد صہیونیوں کی جانب سے ’اردن کو فلسطین‘ قرار دینے والا خطرناک منصوبہ اپنی موت آپ مر گیا۔
اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد امریکہ نے اردن کے 700 ملین ڈالر مالیت کے قرضے معاف کر دیے اور معطل کردہ فوجی امداد اضافے کے ساتھ دوبارہ جاری کر دی۔ اب اردن، امریکی امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں شامل ہے۔ عمان، اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ تجارت میں آزاد ہے اور انہیں اپنے ہاں آزادانہ آنے جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔
معیشت بمقابلہ عرب حمیت
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عمان خلیج میں ہونے والی جنگ [1991] کے باعث خطے میں تنہائی اور معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ عراق پر عائد کردہ پابندیوں سے اردن بڑے تجارتی شریک اور رعایتی نرخوں پر تیل فراہم کرنے والے ہمسائے سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اردن چاہتا تھا کہ عراق پر امریکی قیادت میں لشکر کشی کی بجائے عرب لیگ تنازع کے حل میں معاونت کرے۔ عالمی طاقت اور خطے کے دوسرے ملکوں نے اس موقف کو عراقی حمایت پر محمول کر لیا۔
اس کے نتیجے میں خلیجی ممالک سے عمان کو کئی سو ملین ڈالرز کی سالانہ امداد بند ہو گئی اور وہاں کام کرنے والے اردنی تارکین وطن کو بیدخل کر دیا گیا۔ عمان پر ان ملکوں کی منافع بخش مارکیٹ کے دروازے اور وہاں سے اربوں ڈالرز زرمبادلہ آنا بند ہو گیا۔ بیرون ملک خدمات سرانجام دینے والےاردنی، جو ایک وقت میں ملک کو غیرملکی کرنسی لا کر دینے والے اہم چینل تھے، وطن واپسی پر وہ اردن کی معیشت کے لیے بوجھ بن گئے۔ نیز عراقی اور دوسرے پناہ گزینوں کی اردن آمد معاشی ابتری میں سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔
اگلی باری کس کی ۔۔۔؟
اسلامی ملکوں میں سے ترکی نے 1949 میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد یہ ایران کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو تہران میں خود ساختہ ملائی انقلاب کے بعد ختم ہو گئے۔ ترکی اور اسرائیل نے باہمی تعلقات کے ’سنہری دور‘ میں فوجی، سٹرٹیجک اور سفارتی تعاون کو ترجیح بنائے رکھا۔
غزہ پر اسرائیلی جنگ اور ترکی سے محصورین غزہ کے لیے امداد لے کر جانے والے فریڈم فوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گیے۔ اسرائیل کی طرف سے فوٹیلا پر حملے کی معذرت اور فوجی کارروائی میں جان کی بازی ہارنے والوں کا خون بہا ادا کرنے کے بعد ترکی نے سفارتی تعلقات بحال کیے۔
ترک۔اسرائیل بزنس کونسل کے سربراہ ابراہیم سانن نے خوشخبری سنائی ہے کہ کووڈ۔۱۹ کے بعد دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں بہتری آئے گی جس سے باہمی تجارتی حجم میں اضافہ ہو گا کیونکہ عالمی وبا کے بعد اسرائیلی امپورٹرز دوسرے متبادل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی وبا کے دنوں میں اسرائیل کے لئے ترکی سے تمباکو، مشروبات کی برآمدات میں 31 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ ترکی سے اسرائیل درآمد کیے جانے والے پلاسٹر، سیمنٹ اور شیشے کی مصنوعات کے حجم میں 21 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اسلامی ملکوں میں موریتانیہ کے بھی اسرائیل سے تاریخی تعلقات رہے ہیں، جنہیں دونوں ملکوں نے 1999 کو باقاعدہ سفارتی شکل دی۔ تاہم 2008-2009 کی غزہ پر اسرائیلی جنگ کے بعد موریتانیہ اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات منجمد چلے آ رہے ہیں۔
ادھر سوڈان، سلطنت آف عمان اور بحرین جیسی خلیج عرب کی ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اشارے دے رہی ہیں۔ منامہ میں مڈل ایسٹ امن سمٹ کا انعقاد بحرین کی تسلیم ورضا کا ثبوت تھا جس میں کئی اسرائیلی صحافی بھی شریک ہوئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جن فلسطینیوں کے معاشی مسائل دور کرنے کے لیے یہ میلہ سجایا گیا، انہوں نے اس کے بائیکاٹ ہی میں عافیت جانی۔
دنیا، بالخصوص عالم اسلام کی نظریں اس وقت سعودی عرب پر مرکوز ہیں۔ مملکت نے اسرائیل اور امارات سفارتی معاہدے پر براہ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب 2002 میں پیش کردہ جامع امن عرب منصوبے کی روشنی میں اپنی سفارتی حکمت عملی ترتیب دے گا۔ تاہم اس کے لیے القدس دارالحکومت کے ساتھ 1967 کی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام امن کی اولین شرط ہے۔‘
تحریر منصور جعفر
بشکریہ انڈیپینڈیٹ اردو