(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مشرق وسطی میں صیہونیوں کے بڑھتے قدم روکنے کے لئے شیعہ اور سنی کی لکیر مٹ چکی ہے، فلسطین کے زخموں پرمرہم رکھنے اور ناجائز ریاست کے راستے میں ڈٹ جانے والوں نے نئے منظرنامے پر حکمت عملی کی تیاری شروع کردی ہے۔
انبیاء کی سرزمین پر نئے لشکر تشکیل پارہے ہیں، نئی صف بندی جاری ہے، نئے اتحاد وجود پارہے ہیں اور دشمنوں کی واضح تقسیم بھی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ پہلی جنگ خودامت کے وجود کے اندر برپا ہوچکی۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کا ٹکرائوزیادہ دور دکھائی نہیں دے رہا۔ لیکن شیعہ سنی وجود مل جانا گویا دو دھاری تلوار ہے، یہ قوت دانا قیادت کو میسر ہو تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ شیعہ سنی بازوئے شمشیر زن ملنے کا مطلب یہودی دشمن کی شکست یقینی ہونا ہے۔
بیروت سے آنے والی خبر سے پتہ چلا ہے کہ شیعہ شناخت رکھنے والی ’حزب اللہ‘ اور سنی العقیدہ فلسطینی حماس نے اسرائیل کو مشترک دشمن قرار دے دیا ہے۔ حزب اللہ کے لبنانی قائدین اور حماس کے رہنمائوں میں ملاقات ہوئی ہے جس میں انہوں نے صیہونی ریاست اور عرب ممالک میں سفارتی تعلقات کی بحالی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور وخوض کیا ہے۔ حماس کے سیاسی قائد اسماعیل ہانیۃنے کا ’عین الحلوہ‘ پہنچنے پر ہیرو کی طرح استقبال کیاگیا۔یہ ایک بہت اہم پیغام ہے۔
اسماعیل عبدالسلام احمد ھنیہ نے فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ 2006ء کے انتخابات میں حماس کی فتح پر وہ وزیراعظم بنے تھے۔ صدر محمود عباس نے 14 جون2007 کو انہیں برطرف کردیاتھا۔ یہ فتح اور حماس کی باہمی چپقلش کا افسوسناک شاخسانہ تھا۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر اسماعیل ہانیۃ نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں شہید فلسطین قرار دیا تھا۔ اسماعیل ہانیۃ شمالی غزہ کی پٹی میں قائم مخیم الشاطی کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ان کے والدین بھی مہاجر بننے پر مجبور ہوئے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے سکول میں تعلیم حاصل کی اور عربی ادب میں اسلامیہ یونیورسٹی غزہ سے گریجویشن کی۔ یونیورسٹی میں وہ حماس سے وابستہ ہوئے۔ 1985 سے 1986 کے دوران وہ اخوان المسلمون طلباء کونسل کے سربراہ بن گئے۔ فٹ بال ان کا پسندیدہ کھیل ہے اور وہ اسلامک ایسویسی ایشن فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی بھی رہے ہیں۔ وہ اسرائیل کی قید بھی کاٹ چکے ہیں۔ 1988 میں دوسری مرتبہ انہیں چھ ماہ اسرائیل قیدخانے میں گزارنے پڑے۔ 1989 میں تین سال زنداں کی سزا پائی۔ 1992 میں اسرائیل کی قید سے رہائی کے بعد انہیں لبنان ڈی پورٹ کردیاگیا۔ 1997 میں احمد یاسین کی اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد ھانیۃ کو ان کے دفتر کا سربراہ مقرر کیاگیا۔ احمد یاسین سے تعلق کی بناء پر حماس میں ان کی پزیرائی بڑھی۔
اسماعیل ہانیۃ کی حزب اللہ کے قائدین سے ملاقاتوں کے لئے آمد پر گرمجوشی دیدنی تھی۔ ’عین الحلوہ‘ کا مطلب ’میٹھے پانی کا قدرتی چشمہ ہے۔‘ یہ لبنان میں فلسطینیوں کا سب سے بڑی مہاجر پناہ گاہ ہے۔ 70 ہزار فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ بیس ہزار ہوئی۔ المیۃ ومیۃ کے نام سے جنوبی لبنان کا ایک گائوں ہے جس کے مغرب میں یہ مہاجر کیمپ قائم ہے۔
1948ئ میں ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے بے گھر ہونے والے مہاجرین کو لبنان کے تیسرے بڑے شہر صیدا میں لابسایا تھا۔ لبنانی مسلح افواج کو اس کیمپ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اسی وجہ سے لبنانی میڈیا اسے ’زون آف اَن۔لائن‘ کہتا ہے۔
حزب اللہ کے زیراثر سمجھے جانیوالے ٹیلی ویژن المنار کے مطابق حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ اور اسماعیل ہانیۃنے اسرائیل کے خلاف ’مزاحمت کے محور‘ کے ’استحکام‘ پر زور دیا ہے۔ دونوں رہنماوں نے فلسطین، لبنان اور خطے میں ہونے والی پیش ہائے رفت پر بات کی اور ’مسئلہ فلسطین کیلئے خطرات‘ پر غور کیا۔ اس میں اسرائیل کے ساتھ ’عرب کے تعلقات کی بحالی کے منصوبہ‘ پر بھی بات چیت ہوئی۔ دونوں رہنمائوں کی اس ملاقات کے مقام کے بارے میں کچھ نہیں بتایاگیا۔
2006 سے حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد سے حسن نصراللہ کی نقل وحرکت خفیہ رکھی جاتی ہے۔ 2014 میں حسن نصراللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عام طورپر اپنی رہائش تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
حزب اللہ کا مطلب ’اللہ تعالی کی جماعت یا دھڑا‘ ہے۔ یہ شیعہ اسلامی سیاسی جماعت اور عسکری گروہ ہے جو اسرائیل کے ہمسایہ لبنان میں قائم ہے۔ حزب اللہ بنیادی طورپر جہاد کونسل کی شاخ ہے۔ یہ لبنانی پارلیمان میں مزاحمتی دھڑے کی سیاسی شاخ ہے۔ 1992 میں عباس الموسوی کی وفات کے بعد سے حسن نصراللہ نے سیکریٹری جنرل کے طورپر قیادت سنبھالی۔عباس الموسوی کو 1992 میں اسرائیلی فوج نے شہید کردیا تھا۔حزب اللہ کو نہ صرف یورپی یونین بلکہ عرب لیگ بھی دہشت گرد قرار دیتی ہے۔
حزب اللہ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ لبنان کے ان شیعہ علماء کے ذہن کی تخلیق ہے جنہوں نے نجف سے تعلیم پائی۔ اس کی تشکیل آیت اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب کی طرز پر کی گئی ہے۔ 1985ء میں حزب اللہ کے منشور میں بیان کردہ اہداف میں لبنان کی سرزمین سے امریکہ وفرانس اوران کے اتحادیوں کو نکال باہر کرنا اور نوآبادیات سے ارض لبنان کو پاک کرنا ہے۔ حزب اللہ کے رضاکاروں کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بوسنیا کی جنگ میں بھی حصہ لیاتھا۔ اس ملاقات نے یقینا کئی ’اَبرو‘ اونچے کئے ہوں گے لیکن اسلام پسندوں اور مظلوم فلسطینیوں کے حامیوں کے لئے یہ اچھی خبر ہے کہ اسلام کے دو طاقت ور بازو ایک ہی سمت یکجا ہوگئے ہیں۔
خطوں، ممالک اور مفادات کی نئی صف بندی جاری ہے۔ مشرق وسطی میں نئی کروٹ نے اس خطہ قدیم وجدید کی درون خانہ بے چینیوں کو منکشف کردیا ہے۔ صیہونی بڑھتے قدم ردعمل کا لاوا پکا چکے جو پھٹا ہی چاہتا ہے۔ حماس جسے عربی میں ’حاکۃ المقاومۃ الاسلامیہ‘ یا اسلامی مزاحمتی تحریک کہا جاتا ہے، فلسطین کے سنی بنیاد پرست کہلاتے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسکی دعوت وتبلیغ کے شعبہ جات بھی قائم ہیں لیکن اسکی اصل شناخت اس کا عسکری شعبہ ہے۔ ’کتائب الشہید عز الدین القسام‘ سے معروف حماس کی یہ شاخ شہید عز الدین القسام کے نام پر ہے جسے مختصر القاسم بریگیڈ کہاجاتا ہے۔ 1991 میں یہ شعبہ اس وقت قائم ہوا جب اوسلو معاہدے کیلئے مذاکرات میں تعطل آیا تھا۔ القاسم بریگیڈ نے صیہونیوں کیخلاف متعدد حملے کئے تھے۔ دوسری مزاحمتی لہر کے بعد اسرائیل کا بنیادی نشانہ یہی القاسم بریگیڈ تھا جو مغربی کنارے میں اپنے ٹھکانوں سے منصوبہ بندی اور کارروائیاں کرتا تھا۔
صیہونیوں کی تمام تر کارروائیوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اسکی موجودگی نے دشمن کو پریشان کئے رکھا اور اس علاقے کو چھاپہ ماروں کے مضبوط گڑھ کی مرکزی حیثیت حاصل رہی۔مروان عیسی حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ ہیں جنہوں نے 2012 میں احمد الجعبری المعروف ابو محمد کی شہادت کے بعد یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ ابومحمد نے غزہ پٹی کے ’ٹیک اوور‘ کی وجہ سے شہرت پائی۔ انکی کارروائیوں کی وجہ سے صیہونیوں کے قدم وہاں ٹک نہیں پائے۔ 2006 میں ایسی ہی کارروائی میں اسرائیلی فوجی گیلاد شیلٹ پکڑا گیا تھا۔ ابو محمد کے دور میں انہوں نے ہتھیاروں کی تیاری میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
کون کس کے ساتھ ہے؟ کس لئے ہے؟ اور کیا مقاصد ہیں، اس میں شک نہیں رہا۔ مفادات اور متعلقہ کردار پوری ملت کے سامنے عیاں ہوچکے ہیں۔ شیعہ سنی قوت کو باہمی ٹکراو سے جو مقاصد اب تک حاصل کئے گئے، ان کا مجموعی حساب لگایا جائے تو اسلامی دنیا کیلئے نقصان ناقابل تلافی ہے لیکن آج اس قوت کا یکجا ہونا نہ صرف امت اسلامیہ کیلئے نیک فال ہے بلکہ یہ پاکستان جیسے ملک کیلئے بھی ایک سبق ہے۔ شیعہ اور سنی ملت کے وجود کے دو بازو بن کر ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے اگر اتحاد سے رہیں تو یہ دشمن کے خلاف بذات خود ایک خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ اتحاد آج کے عہد ستم کی ایک ناگزیر ضرورت ہے ورنہ وجودامت کا حال بھی خاشقجی جیسا ہوگا۔
تحریر: چودھری اسلم خان
بشکریہ نوائے وقت