USSR: کیسے ہو میرے مرنے کے بعد؟
USA: بہت برا حال ہے۔
USSR: کیوں کیا ہوا تمہارے ساتھ؟
USA: مسلمانوں کے بڑوں نے صحیح ہی کہا تھا!
USSR: کیا کہا تھا؟
USA: جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے پہلے خود اس میں گرتا ہے۔
USSR: اس کہاوت کا تمہارے حال سے کیا تعلق ہے؟
USA: جن قوتوں کو میں نے اپنا خون پلا کر تمہارے خلاف کھڑا کیا تھا اب وہ میرے در پے آزار ہیں۔
USSR: تو اب تم ان سے کس طرح نبرد آزما ہو؟
USA: میں نے انہیں دہشت گرد، دہشت گرد کا شور مچا کر بدنام تو کر ہی دیا ہے لیکن نہ معلوم وہ پھر بھی دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو کر میرا اور میرے حاشیہ برداروں کا دائرہ تنگ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
USSR: اس وقت تو وہ تمہیں بہت عزیز تھے، تم انہیں سرکاری پروٹوکول دیتے تھے، ہفتوں ان کی مہمان نوازیاں کرتے تھے، تمہاری قیادت ان کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بنوانے میں فخر محسوس کرتی تھی، دنیا بھر میں سفر کے لیے تم نے انہیں ہر طرح کی اجازت دے رکھی تھی اور تمہارا میڈیا اس وقت انہیں دنیا کے نجات دہندہ اور عالمی ہیرو بناکر پیش کرتا تھا تو اب ان سے کیوں پریشان ہو؟
USA: وہ میرا وجود ختم کرنا چاہتے ہیں، مجھے اس دنیا کے نقشے سے اسی طرح مٹا دینا چاہتے ہیں جس طرح انہوں نے تمہیں مٹا دیا۔
USSR: تمہارے پاس دولت کے انبار ہیں، انہیں بھاری قیمت دے کر خرید لو یا ان میں سے غدار تلاش کرلو اور ان کی قیمت ادا کرکے ان کے درمیان پھوٹ ڈلوا دو، تمہارے لیے کیا مشکل ہے، میرا وجود بھی تو تمہاری انہیں سازشوں کی بھینٹ چڑھا اور میں دنیا کے نقشے سے نابود ہوگیا اور دنیا میں کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جہاں تم نے ان شیطانی چکروں کا جال بچھا رکھا ہے۔
USA: کیا کروں دوست، اب دولت کے انبار بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں، معیشت کا ڈھانچہ بری طرح زمین بوس ہو رہا ہے، ہر ماہ دو تین بڑے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں کی تعداد میں بینک بند ہوچکے ہیں بے شمار لوگ بے روزگار ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
USSR: تمہاری کرنسی دنیا کی نمبر ایک کرنسی ہے، پوری دنیا کے وسائل تمہارے زیر نگیں ہیں تمہیں کیا پریشانی ہے؟
USA: یہ صورتحال تمہارے ہوتے ہوئے تھی، تمہاری آنکھیں بند ہوتے ہی سب سے پہلے میرے ساتھیوں نے ہی میرے خلاف بغاوت کی اور پورے یورپ نے اپنی ایک کرنسی کرلی اور اب دنیا کی نمبر ایک کرنسی وہی ہے، میری کرنسی دنیا بھر میں روز افزوں زوال کا شکار ہے، میرے ادارے اب دنیا بھر میں ناقابل اعتبار ہوتے چلے جارہے ہیں اور کیا کروں میرے وعدوں پر بھی اب کسی کو اعتبار نہیں رہا اور جو ممالک میرا دیا کھاتے ہیں وہی مجھ پر آنکھیں نکالنے لگے ہیں۔
USSR: تمہارے پاس بے پناہ فوجی قوت ہے انہیں کچل ڈالو اور ان کی ہڈی پسلی تک چبا ڈالو!
USA: یہ تو کر رہاہوں، لیکن سچ پوچھو تو میری فوجی قوت کا غبارہ بھی پھٹنے والا ہے، جہاں جہاں ہم سوچتے تھے کہ ہفتہ یا عشرہ میں قابو پالیں گے وہاں سالوں گزرتے جا رہے ہیں اور کامیابی تو دور کی بات ہے وہاں استحکام ہی ابھی میسر نہیں آیا۔ آخر کب تک میں فوجیوں کی لاشوں کے تابوت اپنی قوم سے چھپاتا رہوں گا اور وہ بھی سینکڑوں فوجیوں کی لاشوں کے تابوت روزانہ کے حساب سے۔
USSR: تم کرائے کے فوجی لے لو اور دوسری قوموں کی فوجوں کو مروا کر اپنے مقاصد حاصل کرو، میرے زمانے میں بھی تم نے افریقہ میں اسی طرح اپنے پھنسے ہوئے فوجیوں کو نکلوایا تھا۔
USA: یہ تجربہ بھی کرچکا ہوں، تمہیں کیا بتاو¿ں پوری دنیا میں میرے خلاف نفرت سی جاگ اٹھی ہے، جس ملک کی حکومت کو کہتا ہوں کہ اپنی افواج میری مدد کو بھیجو انہیں بھاری معاوضے کی بھی پیش کش کرتا ہوں وہ مان بھی جاتے ہیں لیکن کیا کروں ان کے عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایسا شدید دباو¿ ڈالتے ہیں اول تو وہ حکومتیں اپنی فوجیں بھیجتی ہی نہیں اور بھیج بھی دیں تو کچھ ہی عرصے بعد واپس بلوا لیتی ہیں۔
USSR: تمہارے پاس میڈیا کی بھی تو بہت بڑی طاقت ہے، خوب خوب جھوٹ بول کر، آنکھوں میں دھول جھونک کر، جھوٹے اعداد و شمار دکھا کر، فرضی کہانیاں بناکر اور جھوٹے مفروضوں پر مبنی مستقبل کا خوف دلا کر تم دنیا کے لوگوں کی رائے اپنے حق میں کرلو۔
USA: یہ سب کچھ بھی تمہارے زمانے میں تھا، اب گلی گلی ٹیلی ویڑن کے چینل کھل چکے ہیں، میں ایک جھوٹ بولتا ہوں وہ ایک سو سچ دکھا کر میرا سر شرمندگی سے جھکا دیتے ہیں، میں جھوٹے اعداد و شمار اور فرضی کہانیاں پیش کرتا ہوں وہ دن نہیں چند گھنٹوں سے نہ معلوم کہاں کہاں سے ان کا توڑ لاکر دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور وہ اس قدر حقیقت پر مبنی ہوتا ہے کہ بس۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ کیا بتاو¿ں۔
USSR: بتاو¿، بتاو¿؟ میرے سے چھپاو¿ نہیں۔
USA: بس شرمندگی کی حد ہوگئی ہے، اب تو بھری پریس کانفرنسوں میں پورے میڈیا کے سامنے مجھ پر جوتے پڑتے ہیں اور پوری دنیا دیکھتی ہے، آخر لوگ کب تک جھوٹ کو برداشت کریں۔
USSR: تم UNO کو اپنے ٹول کے طور پر استعمال کرو، میرے خلاف بھی تو تم نے یہی کیا تھا وہاں سے قراردادیں پاس کراو¿ اور پھر دبا کر اور ٹکا کر بدمعاشی کرو کہ کوئی تمہیں پوچھنے والا نہ ہو۔
USA: اب وہ زمانہ بھی بیت گیا، پہلے جہاں ایک کیمرہ ہوتا تھا جسے لالچ یا خوف سے دبا لیتے تھے اب وہاں سینکڑوں کیمرے ہوتے ہیں، یہ آزادی فکر تو میرے گلے ہی نہیں میرے پاو¿ں کی بیڑیاں ہی بن گئیں ہیں، صحافی ایسے ایسے سوال کرتے ہیں تو سچ پوچھو تو اب تو میں اسرائیل کے دفاع کے قابل بھی نہیں رہا لیکن کیا کروں اس کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔ بس۔
USSR: تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ تم خود حالات سے بہت دلبرداشتہ ہوچکے ہو!
USA: تم ہی کوئی حل بتاو¿؟
USSR: میں کیا بتاو¿ں، مجھے اپنی موت کے بعد آسمانوں پر آکر یقین ہوا کہ مسلمانوں کی باتیں سچی تھیں کہ کفر سے تو حکومت رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں۔ اچھا ہوا تم سے ملاقات ہوگئی، تم نے جو زمین پر ظلم کی حد کی ہوئی ہے، دریاو¿ں میں پانی کی بجائے انسانوں کا خون بہا رہے ہو، اپنے جہازوں سے انسانی آبادیوں پر آگ اور بارود کی بارش کرتے ہو، پوری دنیا پر زیادتی و زور آوری کی سیاہ رات مسلط کی ہوئی ہے اور جھوٹ، نفاق، بدنیتی اور بدکماشی کا بازار گرم کر رکھا ہے ان حالات میں تمہاری سیادت کیسے باقی رہ سکتی ہے؟
USA: یہ سب باتیں چھوڑ دوں تو میرا وجود باقی رہ سکتا ہے؟
USSR: اب پانی سر سے اونچا ہوچکا، قاضی تقدیر نے اپنا فیصلہ لکھ دیا ہے، جب پلٹنے کا وقت تھا اس وقت تو پلٹے نہیں، اب بس فیصلہ نافذ ہونے کا انتظار کرو۔ میں آسمانوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ بہت جلد تم اب مجھ سے آن ملنے والے ہو۔ اس زمین کا مقدر آخری نبی کی امت سے وابستہ کردیا گیا ہے، اٹھارویں صدی اس امت پر غلامی کی صدی تھی، انیسویں صدی میں اس امت میں بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں، بیسویں صدی میں مسلمانوں نے آزادیاں حاصل کیں لیکن تمہاری معاشی، سیاسی اور تہذیبی بیڑیاں ان کے دامن گیر رہیں، اب بہت جلد یہ امت تمہاری مسلط کی ہوئی مصنوعی قیادت سے چھٹکارا پانے والی ہے اور اس کرہ ارض سے تمہارا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ میں شدت سے تمہارا انتظار کرہا ہوں، آو¿ کہ مل کہ کریں آہ و زاریاں۔