(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی مسلسل جارحیت اب چھٹے ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں بھی صیہونی جارحیت کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔ غزہ کے عوام بے حال ہو چکے ہیں۔ سترہ لاکھ لوگ اس وقت رفح کراسنگ پر بے یار ومدد گار ہیں۔ امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
امداد کے سرگرمیوں پر بھی غاصب اسرائیلی افواج بمباری کر رہی ہیں۔ کچھ امدادی ادارے بشمول ایران کی جمعیت ہلال احمر بھی غزہ میں امدادی سرگرمیوں کا کیمپ قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے اور غزہ کے بے حال لوگوں کی مدد کا کچھ معمولی سلسلہ بھی جاری ہے۔ رفح کراسنگ پر مصر کے راستے آنے والی سیکڑوں ٹرک کی امداد داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
گذشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ بچے اب بھوک سے مرنا شروع ہو چکے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو پہلے صیہونی جارحیت میں قتل ہوتے دیکھ رہی تھیں اور اب بھوک اور قحط سے مرتا دیکھ رہی ہیں۔ ایک آٹے کی تھیلے کی قیمت پاکستانی روپوں کے حساب سے 14ہزار سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ روٹی نایاب ہے۔پانی کی بوند بوند کو ترستے غزہ کے نہتے شہری اپنی قسمت کا فیصلہ ہوتے ہوئے پیرس میں دیکھ رہے ہیں۔
فرانس کے شہر پیرس میں ایک معاہدے کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ کئی ہفتوں سے اس معاہدے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔لیکن ا س معاہدے میں امریکہ اور اسرائیل مشترکہ طور پر ایسی شرائط لاگو کر نا چاہتے ہیں جو فلسطینیوں کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ جبکہ فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حما س نے ان مذاکرات اور معاہدے میں واضح پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ سے غاصب صیہونی فوجوں کا مکمل انخلاء بھی یقینی بنایا جائے اور اسی طرح صیہونی غاصب حکومت کی جیلوں میں قید آٹھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بھی رہا کیا جائے۔بدلے میں حما س نے اسرائیل کے تمام گرفتار فوجی اور اعلی سیکورٹی ادارو ں کے اہلکارو ں کو رہا کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
دوسری طرف غزہ پر جارحیت کی مرتکب غاصب صیہونی حکومت اسرائیل بھی شدید مشکلات میں ہے۔ جن مقاصد کے تحت غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا تھا آج ایک سو ستر دن گذر جانے کے باوجود بھی ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجیوں کا جانی نقصان ہو چکا ہے۔ اربوں ڈالر کا جنگی مالیت کا نقصان بھی ان ایک سو ستر دنوں میں ہوا ہے۔ اسرائیل کی اپنی اسٹاک ایکسچینج مسلسل گراوٹ کا شکار ہے جو اب تک سنبھل نہیں پائی ہے۔ شیکل بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ صیہونی سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ نکال کر یورپ اور امریکہ میں منتقل کر لیا ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کے اندر سیاسی اور مذہبی خلفشار بھی شدت اختیار کرتا چلا جا رہاہے۔ایک طرف حماس کی قید میں موجود صیہونی فوجیوں کے اہل خانہ ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر سخت احتجاج کر رہے ہیں اور نیتن یاہو کو غزہ پر جنگ مسلط کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس جنگ کو صیہونیوں ک لئے ایک وبال اور مصیبت قرار دے رہے ہیں۔
دوسری طرف خود نیتن یاہو کی اپنی جماعت کے عہدیداروں نے گذشتہ دنوں امریکہ میں جا کر امریکی صدر اور سی آئی اے کے چیف کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں جبکہ ان ملاقاتوں کے بارے میں نیتن یاہو کو بھی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ان حالات اور واقعات کے بعد عرب دنیا اور خود غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے تجزیہ نگار یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ صیہونی حکومت کے اندرونی اختلافات انتہائی شدت اختیا ر کر چکے ہیں اور جیسے ہی غزہ کی جنگ کا خاتمہ ہو گا یقینی طور پر نیتن یاہو کی حکومت اور اسرائیل کے مستقبل کا بھی خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔
ایک اور اہم مسئلہ جو جنگ کے چھٹے ماہ میں سامنے آ یا ہے وہ غاصب اسرائیل میں بسنے والا یہودی آباد کاروں کا مذہبی گروہوں ”حریڈم“ ہے جو صرف تورات کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت نے اس مذہبی گروہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کے حالات میں وہ اپنے جوانوں کو فوج کی مدد کے لئے جنگ میں اتاریں۔اس مطالبہ کے جواب میں صیہونی شدت پسند مذہبی گروہ نے نیتن یاہو کو واضح جواب دیا ہے کہ اگر ان پر زور زبردستی کی گئی تو وہ اسرائیل چھوڑ کر یورپ یا کسی مغربی ملک میں چلے جائیں گے لیکن اسرائیل کی فوج کے لئے اس جنگ میں لڑنے کے لئے شامل نہیں ہوں گے۔
یہی صورت حال کم و بیش دیگر صیہونی آباد کاروں کی بھی ہے جو پہلے ہی بڑی تعداد میں جنگ کے آغاز سے ہی واپس یورپ چلے گئے تھے تاہم جنگ کے طول پکڑنے سے اب مسلسل صیہونی آباد کاروں نے اسرائیل سے نکل جانے کو ہی عافیت سمجھ رکھا ہے۔ یہ بات خود اسرائیل کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ بنتی چلی جا رہی ہے۔
بہر حال غزہ پر صیہونی جارحیت کو چھٹا مہینہ جاری ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی حکومتیں غاصب اسرائیل کی مکمل پشت پناہی بھی کر رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ خود امریکی حکومت بھی چاہتی ہے کہ جتنا زیادہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جائے گی اس قدر زیادہ اسرائیل کی حکومت کے لئے مشکلات بڑھیں گی اور شاید اس ساری صورتحال میں امریکہ اپنے کسی ناپاک عزائم کی تکمیل کا منصوبہ بھی بنا رہاہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں غزہ پر جاری جارحیت پر خاموشی ہے۔ مسلم دنیا کے کسی ملک میں بھی فلسطینی عوام کے لئے اس طرح احتجاج نہیں ہو رہا ہے جس طرح یورپ کے ممالک میں عوامی احتجاج ہو رہے ہیں۔ البتہ یہاں پر یمن کی صورتحال مختلف ہے کہ جہاں ہر جمعہ کے دن لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کم سے کم آواز تو بلند کریں اور احتجاج کریں۔
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان