(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطین ایک بار پھر لہو لہو ہے۔ 2005 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی دن میں جنین کے علاقے میں اسرائیلی قابض فوجی کمانڈوز نے 10 فلسطینیوں کو جان سے مار دیا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کی مخالفت میں اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ تیزی، یہ شدت اور یہ خونی گرم بازاری کیوں ہے؟ اسرائیل نے ’نارملائزیشن ‘کو فلسطینیوں کے قتل عام، فلسطین پر قبضے اور مقدسات کی بے حرمتی کا لائسنس تو نہیں سمجھ لیا؟
اس کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں ایک طرف اسرائیل میں اس وقت ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ شدت پسند جماعتوں کا اتحاد بر سر اقتدار ہے، جو کھلی نسل پرستی، انتہا پسندی، صہیونی غلبے پر یقین رکھتا ہے۔ دوسری جانب یہ جماعتیں فلسطینیوں کے مقدس مقامات کے بارے میں واضح طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور اوسلو معاہدے کی ضد پر مبنی موقف کی حامل ہیں۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ ابراہم معاہدے کے تحت ہونے والی ’نارملائزیشن‘ کے بعد اسرائیل، فلسطین مخالف کارروائیاں پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری سے کرنے لگا ہے۔
اسی جنونی ایجنڈے کے تحت بین گویر نے مسجد اقصیٰ پہنچ کر قبلہ اول کا تقدس پامال کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے۔ اس کے بعد مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق اور ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کا عندیہ سامنے آیا۔ اسی کے تحت فلسطینیوں پر پابندیوں اور ان کے وسائل کی ضبطگی کے فیصلے ممکن ہوئے۔
اب اسرائیل جنین پر ایک کمانڈو ایکشن کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پورے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی حملوں میں شدت آئی ہے۔ حتیٰ کہ مسیحیوں کی زمینوں پر قبضے اور مسیحی قبرستان کی بےحرمتی کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔
آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ شدت پسندی کے واقعات کا خدشہ ہے۔ نتن یاہو نے اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں یہی فیصلہ کیا ہے کہ ’فلسطینیوں کو زیادہ سرعت، زیادہ شدت اور بھرپور قوت کے ساتھ نشانہ بنایا جائے گا۔‘
اسرائیل یہ سب امریکی ومغربی آشیر باد کے بغیر نہیں کر رہا۔ اسرائیل کے دورے پر پہنچنے والے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی آمد اسی ماحول میں ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ دورہ اسرائیل کے لیے تھپکی کا باعث بنے گا۔
مسٹر بلنکن کی آمد سے پہلے امریکہ اور اسرائیل کی اہم ترین فوجی مشقیں حالیہ شدت پسند حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد شروع کی گئیں۔ امریکی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور کمانڈر سینٹ کام جنرل کوریلا بھی اسرائیل کے دورے کر چکے ہیں۔ ادھر امریکہ کے ساتھ جنگی مشقیں چل رہی تھیں اور جنین پر اسرائیلی فوج کے جنونی کمانڈوز ایکشن کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔
اب وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا اس خونی منظر نامے میں دورے پر آنا اس امر کی گواہی ہے کہ امریکہ انتہا پسند جماعتوں پر مشتمل اسرائیلی حکومت کو اس کی پالیسیوں اور اقدامات کی بنیاد پر بھی قطعاً نہیں دیکھتا۔ بس ایک بیان تھا جو بلنکن نے دے دیا۔ اس کا عملی اظہار اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف حالیہ منظور کردہ قرارداد کی امریکی مخالفت سے بھی ہو چکا ہے۔
یورپی یونین نے بھی جنین میں پیش آمدہ اسرائیلی خونی واردات پر محض رسمی بیان داغا ہے۔ بیان میں اسرائیل کی سکیورٹی کے مسائل کو سمجھنے کا کہتے ہوئے مہلک طاقت کا استعمال صرف آخری حربے کے طور پر قرار دیا گیا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ عرب اور مسلم دنیا اس تناظر میں کیا کر سکتی ہے؟ بلاشبہ فلسطینیوں کا خون عالم عرب کے لیے بیگانہ ہے نہ مسلم دنیا کے لیے اجنبی۔ امریکی خواہشوں اور دیگر مسئلوں کی وجہ سے ابراہم معاہدے کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا جواز بھی پیش کرنے والے پیش کر سکتے ہیں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کا خون بہانے اور مقدس مقامات کی بےحرمتی کرنے کے لیے اس ’نارملائزیشن‘ کو ’بلینک چیک‘ کیوں سمجھنے لگا ہے۔ کیا واقعی اسے کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ یقیناً اس کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہیں دے سکتا۔
تو پھر کیا کیا جائے کہ اسرائیل عربوں اور مسلم دنیا سے ’نارمل‘ رویے کی توقع کرنے کے ساتھ خود بھی ایک ’نارمل ریاست‘ کے طور طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہو۔ فلسطینیوں کے خون، سرزمین اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اتنا سستا سمجھے نہ عرب اور مسلم دنیا کو اس قدر ہلکا لے۔ کہ جب چاہے فلسطینی عربوں اور ان کے گھروں پر چڑھ دوڑے۔ جب چاہے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے، فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار اور ان کا خون بہا سکے۔