فلسطین(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)ان تمام اقدامات کے بعد اور کونسا ایسا عمل ہونا باقی ہے جو امریکی شہریوں کو غفلت اور بے اعتنائی کی اس گہری نیند سے جگا دے؟ اگر بےگناہ بچوں کو پنجروں میں بند کرنے کا عمل امریکیوں کو نہ جگا سکا ہو تو میں کم از کم یہ تصویر کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد اور کونسا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو امریکی عوام کو بیدار کرے؟
امریکی حکام اور پریزیڈنٹ ٹرمپ کے جنونی عاشقوں کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ نہ اس وقت اور نہ ہی ماضی کے کسی مرحلے میں، “سرزمین آزادی اور سورماؤں کا گھر” ہے اور نہ تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۲۴۳ سال کی تاریخ میں انجام پانے والے شرمناک ترین امریکی اقدامات کا تعارف کروایا جاسکے۔ کیونکہ ہمیں شرمناک اعمال اور افسوسناک رویوں سے مالامال تاریخ کا سامنا ہے چنانچہ ہمیں مجبورا ایک فہرست میں سے کچھ اقدامات کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
امن پسند لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن رابرٹ فینٹنیا (Robert Fantina) نے دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک کے شرمناک ترین اور قبیح ترین امریکی اقدامات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ متبادل موضوعات لامتناہی نظر آرہے ہیں، لیکن ان اقدامات میں سے بعض کچھ یوں ہیں: جوزف مک کارتھی کی جادوگر کُشی یا کمیونسٹ کُشی کا دور [اس دور میں بےشمار امریکیوں پر جادوگری یا کمیونزم کا الزام لگا کر تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا]، کوریا کی جنگ، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ امریکی پولیس کی سنگ دلانہ کاروائیاں، ویت نام کی جنگ، ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں، ڈومینیکن جمہوریہ، انگولا، کمبوڈیا، نکاراگوا، لاوس، لبنان، گریناڈا، عراق (دو مرتبہ)، افغانستان، لیبیا، شام، یمن پر الگ الگ حملے۔
ذیل کے تمام واقعات میں امریکہ نے کمیونزم مخالف مداخلتوں میں رابطہ کار (coordinator) کے ظاہری عنوان سے، جمہوری انداز سے منتخب حکومتوں کی کایا پلٹ اور استبدادی خونخواروں کی حمایت کے سلسلے میں اقدامات کئے ہیں:
گھانا، انڈونیشیا، کانگو جمہوریہ، جمہوریہ برازیل، چلی، ارجنٹائن، ال سلواڈور، یوگوسلاویا، کولمبیا۔
ان فہرستوں کو پھر بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور مزید ممالک اور علاقوں کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج میری توجہ ایک نئی، خاص ہلا دینے والی غیر انسانی اور بےرحمانہ پالیسی پر مرکوز ہے جو اس وقت نافذ کی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ امریکی عوام یا تو اس پالیسی سے بےخبر ہیں یا اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ میرا مطلب امریکہ ـ میکسیکو سرحد پر بچوں کی ان کے اہل خانہ سے جدائی اور بچوں کو پنجروں میں بند رکھنے کی پالیسی ہے۔
کیا یہ امریکی رویہ کسی بھی انسان کے جذبات کو مجروح نہيں کررہا ہے؟ گھرانے شکست و ریخت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، شیرخوار بچوں سمیت ان افراد کو ماؤں کی آغوش سے الگ کیا جارہا ہے جو بچپن کے ایام سے گذر رہے ہیں اور انہیں پنجروں میں بند کیا جارہا ہے۔ امریکیوں کے حراست کے دوران ان بچوں میں سے متعدد بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا عنوان “پنجروں میں بند بچے” کسی کو بھی متاثر نہيں کررہا ہے؟
بعض اوقات خاندانوں کے بارے میں کچھ جذباتی رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پنجروں میں رکھا ہوا ہے۔ بعض اوقات رپورٹیں صرف اس وقت شائع ہوتی ہیں جب کوئی بچہ ان پنجروں میں مر جاتا ہے۔ کچھ مرتکبین کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اور سب ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں؛ بعدازآں ایسے کچھ بچوں کو یتیم خانوں اور نرسریوں کے سپرد کیا جاتا ہے جو ان دہشتناک حالات سے گذرے ہوتے ہیں، اس امید سے کہ وہاں ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھا جائے گا۔
بایں حال، جب یہ سلوک امریکی حکومت انجام دیتی ہے، تو پھر یہ اقدامات بالکل قابل قبول ہیں۔ اطفال کو بچوں کی آغوش سے جدا کرنا، والدین کو بچوں کی نگہداشت کی جگہ سے بےخبر رکھنا اور انہیں پنجروں میں بند کرنا۔ اگر یہ بچے مر جائیں تو یہ بہت بری بات ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟
اس طرح کے واقعات امریکہ میں اور بعض دوسرے ممالک میں معمول کے عین مطابق ہیں۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ دل دہلا دینے والے جرم شمار کیا جاتا ہے لیکن اسی جرم کا ارتکاب کوئی حکومت کرے تو بالکل قانونی اور قابل قبول ہوگا۔ آیئے ذرا قتل کے مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ امریکہ میں قتل کی شرح بہت زیادہ ہے؛ لیکن قتل کے یہ واقعات اس کشت و خون کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا ارتکاب امریکی حکومت کرتی ہے۔ جب تک کہ ایک شخص یونیفارم میں ملبوس ہوتا ہے اور اس کے ہاتھوں جان گنوانے والا شخص کوئی امریکی شہری نہ ہو (اگرچہ اس عجیب قاعدے سے کچھ متعینہ استثنائات بھی ہیں) ایک شخص کا قتل نہ صرف جرم نہیں ہے بلکہ قاتل سورما اور وطن پرست کہلاتا ہے۔
کچھ تخمینوں کے مطابق امریکی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں دو کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل کیا ہے۔ جب اغواکاروں نے طیارے اغوا کرکے مشرقی امریکہ کے تین مقامات کو نشانہ بنایا اور ۳۰۰۰ افراد مارے گئے تو امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے دو جنگوں کا آغاز کیا۔ ان دو جنگوں میں آج تک مارے جانے والے افراد کی تعداد ۱۱ ستمبر کے مقتولین سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ امریکی عوام اس حقیقت کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
سنہ ۱۹۹۵ع میں ٹیموتھی میک ویئی (Timothy James McVeigh) نے اوکلاہوما شہر (Oklahoma City) کی ایلفریڈ پی مورہ وفاقی عمارت بم دھماکہ کرکے ۲۰۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ عمل بھیانک اور ناقابل دفاع تھا جو مک ویئی کی پھانسی پر منتج ہوا؛ تاہم جب امریکی حکومت دنیا کے گوشے گوشے میں عمارتوں پر بمباری کرتی ہے یا پھر شام، فلسطین، عراق، افغانستان اور کئی دوسرے ممالک میں رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پنا گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کرنے والی قوتوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی ہے، کسی کو بھی دہشت گردی یا قتل کے الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میک ویئی کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد امریکی حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن، آیئے امریکہ میں پنجروں میں بند کئے جانے والے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ انسانوں کی پنجروں میں بندش امریکی حکمرانوں کے ہاں کوئی نیا رویہ نہیں ہے۔ دوسری جنگ کے دوران ہزار ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کو پنجروں میں بند رکھا گیا۔ وہ میکسیکن بچوں کی طرح بنی نوع انسان سے پست نوعیت کے موجودات سمجھے جاتے تھے چنانچہ انہیں پاگل کتوں کی طرح پنجروں میں بند کرنا قابل قبول عمل سمجھا جاتا تھا۔
کہاں ہے اس اقدام سے انسانوں کا غیظ و غضب اور نفرت کا اظہار؟ اپنے اپ سے پوچھنا چاہئے کہ “میں امریکہ کی اس پالیسی کے خلاف ـ جس کے تحت وہ بےگناہ بچوں کو والدین سے جدا کرتا ہے اور انہیں پنجروں میں بند کرتا ہے ـ سڑکوں پر مظاہرہ نہيں کرتا؟ میں کیوں راضی ہوجاتا ہوں کہ ان مسائل سے آنکھیں چرا لوں جبکہ یہ بچے اپنے پنجروں میں بدترین بدسلوکیوں کا شکار ہو رہے ہیں؟ مجھ پر کیا آپڑی ہے کہ اپنی خاموشی سے اس صورت حال سے چشم پوشی کررہا ہوں؟
یہ وہ روش سے جس کے ذریعے “ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں”۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو ان کے نادان، احمق، نسل پرست، زن بیزار اور اسلامو فوبیا پر یقین رکھنے والا ووٹ بینک کی مدد سے انجام پارہے ہیں۔
اس طریقے سے ہی امریکی حکومت ایک بار پھر فسطائیت (fascism) کو روزمرہ کے فیشن میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور کم پڑھے لکھے یورپی نژاد سفید فام امریکی باشندوں ـ جو امریکہ میں صحتمند شہری سمجھے جاتے ہیں ـ کو دوسرے شہریوں کے مد مقابل لا کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنا پر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ کو ـ خواہ اچھے خواہ برے (اور بطور معمول بدترین) مقاصد کے لئے ـ عالمی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے اور امریکی صدر کی منظور کردہ نسل پرستی ہر جگہ ـ کسی طرح ـ قانونی حیثیت حاصل کررہی ہے۔
لیکن یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ یہ اقدامات یہاں اس نام نہاد “سرزمین آزادی اور سورماؤں کے گہوارے” میں ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں حکومت باضابطہ اور سرکاری طور پر میکسیکن بچوں کو پنجروں میں بند کرتی ہے اور ایک کیل کانٹے سے مسلح اسرائیلی فوجی کی طرف پتھر پھینکنے والے فلسطینی بچوں کے لئے ۱۵ سال قید کی سزا کے اخراجات بھی ادا کرتی ہے۔ یہ امریکہ ہے جو یمن میں اسکول کے بچوں کے ذبح ہونے سے چشم پوشی کرتا ہے اور اس بچوں کے اس قتل کے اخراجات بھی ادا کرتا ہے؛ بچوں کے ذبح کا یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل اس وقت پیش آیا جب سعودیوں کے امریکی ساختہ طیارے نے اسکول بس کو ـ جو اسکول کے طالبعلموں سے بھری ہوئی تھی ـ امریکی ساختہ بم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ۴۰ بچے قتل ہوئے اور چند ہفتے قبل ایک دوسرے واقعے میں اسکول کی بچیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ۱۳ بچیاں زندگی کی بازی ہار گئیں اور یمن میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ کے بہی خواہ ـ شہریوں کے بیچ بھی اور کانگریس میں بھی ـ جب ٹرمپ کو امریکی پرچم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں کو پرنم کردیتے ہیں؛ اور جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر بےفائدہ دیوار تعمیر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا بجٹ منظور کروانے کے لئے امریکی کانگریس کو مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
وہ اس کی حمایت کرتے ہیں جب وہ سفیدفام نسل پرستوں اور نسل پرستی کے مخالفین کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں کہہ دیتے ہیں کہ “اچھے لوگ دونوں فریقوں میں موجود ہیں”۔
ان تمام اقدامات کے بعد اور کونسا ایسا عمل ہونا باقی ہے جو امریکی شہریوں کو غفلت اور بے اعتنائی کی اس گہری نیند سے جگا دے؟ اگر بےگناہ بچوں کو پنجروں میں بند کرنے کا عمل امریکیوں کو نہ جگا سکا ہو تو میں کم از کم یہ تصویر کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد اور کونسا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو امریکی عوام کو بیدار کرے؟