(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطین پر تازہ حملے ہوئے ہیں ،غزہ کی پٹی پر حملوں کا یہ سلسلہ پانچ اگست جمعہ کی شام کو شروع ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اسلامی جہاد کی عسکری شاخ’’سرایا القدس‘‘ کے عظیم کمانڈر تسیرالجعبر ی کو شہید کر دیا گیا۔
حالیہ صہیونی حملوں سے پندرہ بچوں سمیت 45فلسطینی شہید ہو گئے۔ ساڑھے تین سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے اسرائیلی حکومت کے اس تین روزہ ظالمانہ آپریشن کے جواب میں اسلامی جہاد نے اسرائیل کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کو نشانہ بنایا ۔پھر درمیان میں مصر آگیا۔ مصر کی ثالثی جنگ بندی کا سبب بنی۔اس دوران پاکستان، ایران، سعودی عرب، ترکی، اردن، الجزائر، تیونس، یمن، قطر اور کویت نے غاصب اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی۔
اوآئی سی اور یمن رائٹس واچ نے بھی مذمت کی۔ مذمت کے اس چکر میں عرب لیگ بھی شامل ہو گئی افغانستان کی طالبان حکومت بھی پیچھے نہ رہی اس نے بھی مذمت کرڈالی۔ایرانی وزارت خارجہ کا ایک ٹوئٹ نظر آیا جس میں درج تھا کہ ’’مشرقی غزہ کے شجاعیہ محلے میں رہنے والی پانچ سالہ بچی علاء قدوم، غزہ کے خلاف اسرائیلی نسل پرست حکومت کے حملوں میں شہید ہونے والے بچوں میں سے ایک ہے.
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار اپنے دفاع کے عنوان سے مقبوضہ ملک کے عوام کے خلاف قابض حکومت کے روز مرہ جرائم کی حمایت کرتے ہیں ‘‘۔تازہ ظلم کے خلاف ایرانی وزارت خارجہ نے عالمی تنظیموں کو خطوط بھی لکھے اس میں کوئی شک نہیں کہ منگل 9اگست کی شام ایرانیوں کی بڑی تعداد تہران کے فلسطین اسکوائر پر جمع ہوئی انہوں نے پرامن مظاہرہ کیا پاکستان میں تو اس دوران سیاست کا کاروبار چلتا رہا۔
ان تمام مذمتوں اور تشویشی خطوط کا جواب امریکہ نے اس طرح دیا کہ پھر سے اسرائیل کی حمایت کر دی بلکہ مقبوضہ علاقوں میں موجود امریکی سفیر نے کہا ’’جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے ہم اس سے آگاہ ہیں امریکہ غزہ کے خلاف جنگ میں صہیونی حکومت کی مکمل حمایت کرتا ہے ‘‘۔
ارض فلسطین پر قابض اسرائیلی حکومت کے وزیر دفاع بینی گانٹز جو ہمیشہ بڑھکیں مارتےرہتے تھے اس بار بوکھلا گئے کیونکہ اس بار غزہ کے مزاحمتی گروپوں نے راکٹ کی طاقت کو آزمایا، اسرائیلی حکومت کو شکست ہوئی ، غزہ کی تین روزہ جنگ میں اپنی شکست کو چھپانے کیلئے اسرائیلی وزیر دفاع نے دعویٰ کیا کہ ’’ ہم تہران سے خان یونس تک حفاظتی حملے کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘۔
اس صورتحال پر یورپی یونین نے بڑی مہارت سے بیان بازی کی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ اور اس کے آس پاس تازہ ترین صورتحال کا گہری تشویش کے ساتھ جائزہ لے رہے ہیں جہاں کشیدگی کے نتیجے میں پہلے ہی بہت جانی نقصان ہو چکا ہے ۔ لبنان کے مسلمان علماء نے اسرائیلی حکومت کے خلاف عمل پیرا مزاحمتی گروپوں کو سراہا ہے یہاں مقام فکر تو یہ ہے کہ مغرب اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے ممالک نے تو منافقت کرنا ہی تھی مگرخطہ عرب کی چندحکومتوں کے کردار پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی طرف سے حالیہ حملے ابراہیمی معاہدے کی ناکامی کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ معاہدہ کرتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین میں امن قائم ہو گا حالانکہ اس معاہدے کا امن سے کوئی تعلق ہی نہیں کیونکہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد صہیونی حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اسرائیلی فوج بڑی ڈھٹائی سے ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے ، مظلوم فلسطینیوں کی زمین پر آبادکاری کا سلسلہ رکا نہیں اور اس دوران عالمی برادری خاموش ہے۔
اسرائیلیوں کے وحشیانہ حملوں سے لگتا ہے کہ صہیونیوں کو جو زخم سیف القدس کی جنگ میں لگا تھا وہ ابھی تک بھرا نہیں۔غزہ سے یروشلم، مغربی کنارے اور 1948ء کے مقبوضہ علاقوں تک فلسطینی گروہوں اور قوم کا خیال ہے کہ سیف القدس کی جنگ میں ہی اہم ترین کامیابیاں ملی تھیں ۔
حالیہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح دشمنان اسلام، دنیا میں اسلامی ملکوں اور علاقوں پر حملے کرکے دہرا ظلم ڈھا رہے ہیں اور کس انداز میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کر رہے ہیں۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان ایک کلمے کے پرچم تلے جمع ہو کر ان کا مقابلہ کریں۔
مسلمانوں کو ایک ہو جاناچاہئے ورنہ یہ مذمتی بیانات کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اوآئی سی کو اپنے کردار کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے۔ آپ نے دیکھانہیں کہ اب بھی امریکہ اور یورپی ملکوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے ،اس حمایت سے صہیونی طاقت بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔
اگر اسرائیل کو بیرونی دنیا سے اقتصادی فوجی اور سفارتی حمایت نہ ملتی تو یقیناً وہ فلسطینیوں پر ظلم کرنے کے قابل نہ رہتا اس نے آج تک ظلم اس لئے جاری رکھا ہوا ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اس کی حمایت کرتی ہیں اور مسلمان دنیا خاموش رہتی ہے بقول اقبالؒ؎
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
اسرائیل کی مخالفت میں دو ملکوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے ان دو ملکوں کا نام ہے پاکستان اور ایران، جیسے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نے اسرائیل کو ناجائز قرار دیا تھا ، ویسے ہی انقلاب ایران کے بعد امام خمینیؒ نے اسرائیل کو نہ صرف ناجائز قرار دیا بلکہ ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان بھی کیا مسلمانوں کو سوچنا چاہئے برسوں قبل اقبالؒنے کہا تھا کہ
رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا
تحریر: مظہر برلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ