16سمتبر 1982ء سے 18ستمبر 1982ء تک گذرنے والے تین روز میں صبرا اور شتیلا کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والے فلسطینی مہاجرین پر اسرائیلی بربریت کی وہ تاریخ رقم ہوئی
کہ جس کے بارے میں سوچ کر ہی انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے ۔انسانیت کا بے دردی سے ہونے والا قتل عام کہ جس میں ہزاروں مرد و خواتین اور معصوم بچے لقمہ اجل بن گئے ۔اس سانحہ کو گذرے آج 30برس مکمل ہو چکے ہیں اور دنیا میں ایسے چند لوگ آج بھی ضرور موجود ہیں کہ جنہوں نے صبرا و شتیلا کے کیمپوں پر ڈھائی جانے والی اسرائیلی قیامت کی مذمت اور اس قیامت صغریٰ کے نتیجہ میں شہید ہونے والے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو یاد رکھا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حریت پسندوں نے آج اس سانحہ کو 30سال گزر جانے کے با وجود بھی اپنے دلوں سے نکلنے نہیں دیا،اور حریت پسندوں کے دل سے نکلے گا بھی کیسے؟
ایک انسان کیسے بھول سکتا ہے کہ نہتے اور معصوم لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں ایک ہی روز لقمہ اجل بنے ،آخر کیسے کوئی با ضمیر شخص اس بات کو بھول سکتا ہے کہ معصوم بچے بلکتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کیسے بھلایا جا سکتا ہے اس بات کوکہ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر نو حہ کناں تھی تو کوئی بیوہ اپنے شوہر کی لاش پر ،تو کہیں پر کوئی بہن اپنے بھائی اور پیاروں کو ڈھونڈ رہی تھی مگر ان کے جسموں کا کوئی پتہ نہ تھا،آخر کیسے وہ مناظر بھلائے جا سکتے ہیں کہ صبر ا و شتیلا کی قیامت صغریٰ میں قسمت سے بچ جانے والے معصوم بچے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ ان بچوں کے ماں باپ آخر کہاں ہیں؟آخر کیسے یہ سب باتیں اور اس سے بھی بڑھ کر وہ اسرائیلی مظالم جو ان فلسطینیوں پر ڈھائے گئے کس طرح بھلائے جا سکتے ہیں؟ میرا تو خیال یہ ہے کہ یہ نا ممکن سی بات ہے کہ کسی انسان کے سینہ میں دل ہو اور وہ اس سانحہ کو بھول جائے،جی ہاں ! یہ نا ممکن ہے۔
:ایک 13سالہ فلسطینی بچہ کی یاد داشت
حسن خیطی جس کی عمر صبرا و شتیلا پر اسرائیلی حملہ کے وقت 13سال تھی ،اس بچے نے اس وقت کے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔
تین ماہ کی جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود صبرا و شتیلا میں زندگی کی رونقیں بحال تھیں،لوگ سلامتی کا جھوٹا احساس لئیے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے سب یہ سمجھ رہے تھے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔اس عالم میں صدر بشیر جمائیل کے قتل کی خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔بعض لوگوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ کی۔
اگلے دن اسرائیلی جنگی جہاز لبنان کے دارالحکومت بیروت کی فضاؤں میں دندنانے لگے ،اس کے بعد خون ،لاشوں اور اغوا کی خبریں آنے لگیں،بعض لوگوں کے مطابق وہ خون کا دریا عبور کرتے ہوئے صبرا (فلسطینی مہاجرین کا کیمپ) سے گزرے۔یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی بلکہ لوگوں نے ان جہازوں پر ستارہ داؤدی(David Star)اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔صبرا کے مکین پھر بھی مطمئن تھے کہ اسرائیلی افواج ابھی بیروت میں مصروف ہیں اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ شتیلا کیمپ میں گیس سلنڈر کے دھماکے ہوئے ہیں ۔
اس وقت تک وہاں رہنے والوں نے کبھی بھی صبرا کے لئے کیمپ کی اصطلاح استعمال ہوتے ہوئے نہیں سنی تھی،وہاں رہنے والوں کے لئے صبرا ایک شاہراہ کا نام تھا جوطریق الجدیدہ میں الدانہ پٹرول اسٹیشن سے شروع ہو کر صبرا اسکوائر سے گزر کر شتیلا کیمپ کے آغاز پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔وہاں رہنے والے سمجھ رہے تھے کہ مقبوضہ یروشلم اور مقبوضہ حیفہ کی طرح بیروت کے لئے بھی لفظ مقبوضہ استعمال کیا جانے لگے گالیکن تھوڑی ہی دیر بعد جب ریڈیو سے صورتحال کی خبر نشر ہوئی تو سب کے چہرے لٹکنے لگے،سب نے یہ فیصلہ کیا کہ بیروت کے مرکز سے دور جایا جائے۔
مسلح افراد اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم کی جانب لوگوں کو اسلحہ کے زور پر لے جا رہے تھے کہ ایک بارودی سرنگ کے پھٹنے سے بعض لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے پھر ایک خاندان پڑوسیوں کے ٹرک میں سوار ہوا اور شہر کی طرف جانے لگا۔میونسپل اسٹیڈیم سے گذرتے ہوئے ٹرک کولہ پل پر پہنچا ،سڑک بالکل خالی ہو چکی تھی،لوگ ٹرک سے اترے اور ویران سڑک پر چلنے لگے،لوگوں کی پریشانی بڑھنے لگی کیونکہ ان گلیوں میں کوئی شخص گھر سے باہر نظر نہیںآیا جبکہ عام دنوں میں یہاں لوگوں کا ہجوم نظر آیاکرتا تھا۔
یہ لوگ فاخانی اور عرب یونیورسٹی کے قریب سے گزرے وہاں انہیں بھوتوں اور روحوں کی طرح کی حرکت نظر آئی ،ایک عورت نے اپنے بچے سے کہا کہ سپاہیوں کی طرف گھور کر نہ دیکھواور تیزی سے چلو،پھر یہ لوگ بوڑھے لوگوں کے ایک مرکز پہنچے اس وقت تک قتل عام رک چکا تھا لیکن بیروت میں لڑائیاں جاری تھیں۔ریڈیو پر خبر نشر ہوئی کہ بعض علاقوں میں مزاحمت ابھی تک جاری ہے اور پھر کچھ دیر بعد ریڈیو خاموش ہو گیاجو کہ شکست کی علامت تھا۔
اس کے بعد ایک رات کورنش المزرع میں ایک آپریشن ہوا ،گولیوں اور شیل کی آواز نے پھر ہمیں فخر کا احساس دلایا،بی بی سی نے صبرا میں ہونے والے قتل عام کو قیامت کا منظر کے طور پرپیش کیا تھالیکن جب ایک عورت نے 13سالہ بچے سے پوچھا کہ کیاقتل عام کی خبر سچ ہے؟ تو اس نے انکار میں جواب دیااور کہا کہ یہ لوگ انجانی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ایسا اس نے اِس لئے کہا کہ اس عورت کے سوال اسے چبھتے ہوئے لگے تھے۔گو کہ ان کا قتل عام ہو اتھا لیکن ان کی انا انہیں اس کا اعتراف کرنے سے روک رہی تھی۔اس لئے وہ ایسی خبروں پر اعتبار کر رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ قتل ہونے والوں کی تعداد کچھ درجن ہے جبکہ سرکاری اہلکار مقتولین کی تعداد تین ہزار (3000) بیان کر رہے تھے۔
قبضہ زیادہ عرصے جاری نہیں رہا تھا۔مزاحمتی کاروائیوں نے اسے شدید نقصان پہنچایا ،اسرائیل پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا ،لوگ اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ کا مظاہرہ کر رہے تھے ،وہ اسرائیل سے انتقام لینا چاہتے تھے ۔اس کے بعد افواہوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور لوگ مجبور ہو کر اپنے گھروں کا رخ کرنے لگے۔لوگوں میں مختلف قسم کے احساسات پائے جاتے تھے۔بعض لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ دشمن کبھی مغرب سے اور کبھی مشرق سے ان کی سمت بڑھ رہا ہے۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ لبنانی آرمی خود یہ افواہیں پھیلا رہی ہے تا کہ اس کے بعد یہ علاقے میں نجات دہندہ بن کر داخل ہوں۔
البتہ جب لبنانی فوج علاقوں میں داخل ہوئی تو عوام نے چاول پھینک کر خوشی سے ان کا استقبال کیا ۔لوگ اطالوی افواج کی وجہ سے بھی خود کو محفوظ تصور کرتے تھے کیونکہ کیمپ کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی۔اطالوی افواج کی بہادری کی جعلی داستانیں مشہور تھیں۔بعض اطالوی فوجی کہتے تھے کہ انہوں نے صبرا کیمپ میں لبنانی آرمی کو داخل ہونے سے روک رکھا تھا۔بعض فلسطینی یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے لبنانی فوجیوں سے کہا کہ یہاں سے فلسطین کا آغاز ہوتا ہے لہذٰا ان کا کیمپوں میں داخلہ ممنوع ہے ۔
اس سانحہ کے تین سال بعد بھی خون بہانے کا سلسلہ رکا نہیں تھا کیونکہ کیمپوں میں ایک تباہ کن جنگ کا آغاز ہو رہا تھا ۔