قسط۔۱ ۔۔ترجمہ : ادارہ وائس آف فلسطین
یہ کہانی ایک فلسطینی طالب علم کی ہے جسے غاصب صیہونی فوجیوں نے بلا جوز جرم میں گرفتار کیا اور 23دن تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے ساتھ ساتھ جو جو ظلم و ستم کئے وہ فلسطینی طالب علم کی زبانی قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ اس کہانی میں سیکورٹی خدشات کے باعث فلسطینی طالب علم نے اصلی نام نہیں لکھے تاہم اس کہانی کو من وعن ترجمہ کیا جا رہا ہے۔
میری زندگی کے وہ 23قیمتی ایام جو میں نے اسرائیلی زندان میں گزار ے ہیں۔یوں تو 23روز کی انسانی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں مگر 23روز کسی بھی انسان کی زندگی کو بدلنے اور اس میں تبدیلی کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
میں چاہتاہوں کہ اپنی زندگی کے وہ 23دن جو میں نے اسرائیلی عقوبت خانوں میں گزارے ان کے بارے میں آپ کو بتاﺅں کہ کس طرح میں نے وہاں زندگی کے وہ 23روز گزارے اور کس کس سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے وہاں کیا کچھ دیکھا۔ان 23دنوں میں میری آزادی مجھ سے سلب کر لی گئی تھی۔دوسرے فلسطینی میری طرح خوش قسمت نہیں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کب اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوں گے،یا ہوں گے بھی یا نہیں؟
مارچ کی ایک سرد رات کی بات ہے جب میں یونیورسٹی میں ایک بھرپور دن گزارنے کے بعد گھر آ کر اپنے بستر پر سو چکا تھا۔اس رات باہر بارش بھی ہو رہی تھی اور رات کافی سرد بھی تھی۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ اگلے ہی روز میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔میں نیند کے نشے میں یہ سوچ رہا تھا کہ کل اس سرد موسم میں یونیورسٹی کس طرح جاﺅں گااور اپنا دن کیسے گزاروں گا؟آنے والے اس ہفتے میں میرے کئی امتحانات تھے اور مجھے فکر لگی تھی کہ میں کس طرح اچھے نمبروں سے پاس ہو سکتاہوں۔
کیونکہ میں اس روز بہت تھکا ہوا تھا اور یہی باتیں سوچتا ہوا نہ جانے کس وقت میری آنکھ لگی اور میں سو گیا۔نہ جانے ایک لمحے کےلئے مجھے کیا محسوس ہو ااور میری آنکھیں کھل گئیں اور دل ہی دل میں کہا کہ کاش یہ نہ ہو!!میں نے چاہا کہ وہ نہ ہوتے!!اور اچانک ایک شور ہوا لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ کیا ماجرا ہے؟یہ شور میرے گھر کے داخلی دروازے کو پیٹنے کا تھا جو مجھے کافی دیر بعد سمجھ میں آیا۔میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچا کہ اے کاش کہ یہ خواب ہو۔۔۔میں نے اپنی آنکھوں کو بند کیاا ور کھولا تو دیکھا کہ ایک اسرائیلی فوجی ایک بڑی سی بندوق لے کر میرے سامنے کھڑا ہے۔میں نے اپنی آنکھوں کو دوبارہ بند کیا کہ شاید خواب ہو لیکن جیسے ہی دوبارہ آنکھوں کو کھولا وہ اسرائیلی فوجی ابھی تک اسی جگہ پر کھڑا تھا۔
وہ فوجی مجھ سے بولا لیکن میںا س کی زبان نہیں سمجھ سکتا تھا،میں کھڑا ہوا اور دیکھا تو اسرائیلی فوجیوں کا پورا ایک دستہ وہاں موجود تھا انہوںنے میرے بھائیوںکو زدو کوب کرنا شروع کر دیا تھا۔
میں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ کسی نہ کسی کو گرفتار کیا جائے گا۔میں ان فوجیوں کو پہچان چکا تھا وہ اسرائیلی آرمی سے تھے۔میں ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ پایا تھا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟لیکن اچانک ہی میں نے اپنا نام اسرائیلی فوجیوں کے منہ سے سنا،وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے تھے۔لیکن کیوں؟جبکہ میں نے کوئی ایسا کام انجام نہیں دیا تھا۔
ان اسرائیلی فوجیوں میں سے ایک مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا،اس نے میرے تمام کپڑے اٹھائے اور تلاشی لی اور میری تمام چیزوں کو کمرے میں اچھی طرح دیکھا۔میں نے پاجاما پہن رکھا تھا جو کہ سرد رات میں باہر جانے کے لئے کافی نہیں تھا۔میں نے ان سے انگریزی زبان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے باتھ روم جانے دیں،جب میں باتھ روم گیا وہ میرے ساتھ ہی آ گئے۔
میری چھ سالہ بہن انتہائی خوف کے عالم میں ان فوجیوں کو دیکھ رہی تھی۔لیکن میں مطمئن ہوا کیونکہ وہ رو نہیں رہی تھی۔اسی دوران میں نے دیکھا کہ فوجیوںنے ایک اور کمرے میں داخل ہو کر گھرکا سامان باہر پھینکنا شروع کر دیا۔میں نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ بھی ٹوٹا ہوا تھا ۔میں سمجھ گیا کہ فوجیوںنے زبردستی گھر میں داخل ہوتے ہوئے دروازہ بھی توڑ دیا ہے۔جب میں باتھ روم میں تھا تو انہوںنے اپنی بندوق کی نالیاں میری گردن پر رکھی ہوئی تھیں۔میں نہیں سمجھا کہ کیوں؟شاید ان کاخیال تھا کہ میں باتھ روم کی کھڑکی سے کود کر باہر بھاگ جاﺅں گا،شاید ان کاخیال تھا کہ میں اپنے گھر جو کہ پانچویں فلور پر ہے وہاں سے اڑ جاﺅں گا۔وہ مجھے میرے گھر کے ایک اور کمرے میں لے گئے،میں گھڑی میں دیکھا تو رات کے 2(دو) بج رہے تھے۔
اچانک ایک سپاہی نے مجھے آواز دی،وہ عربی میں بول رہا تھا۔اس نے خود کو تمام فوجیوں کو انچارج بتاتے ہوئے اپنی پہچان کروائی۔اس نے مجھے سے میری زاتی معلومات دینے کے لئے کہا اور بتایا کہ تم قیدی بنا لئے گئے ہو۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ گرم کپڑے تو پہن لینے دو،وہ بولا کہ گھبراﺅ مت۔انہوںنے مجھے ایک کرسی پر بٹھاتے ہوئے میرے ہاتھ پیچھے کمر کے ساتھ باندھ دئیے۔میں درد کی شدت سے چلا رہا تھا،لیکن مجھے خاموش رہنا پڑا۔اسی لمحہ میں نے دیکھا کہ ایک فوجی میرا لیپ ٹاپ لے کر آیا ہے اور دوسرا فوجی میری دیگر استعمال کی اشیاءاٹھا رہا تھا۔انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی،میں اس وقت کچھ نہیں دیکھ پا رہا تھا اور نہ ہی حرکت کر سکتا تھا لیکن میرے کان کھلے ہوئے تھے جن کی مدد سے میں ان کی باتیں سن رہا تھا جو وہ میرے گھر والوں کے ساتھ کر رہے تھے۔میں نے سنا،میرے والد کہہ رہے تھے،”ہم لوگ چور نہیں ہیں“ اگر تم لوگ دروازہ بجاتے تو ہم خود اٹھ کر کھول دیتے۔تم لوگوںکو دروازے توڑنے نہیں چاہئیے تھے،ہم نے کوئی ایسا غلط کام نہیں کیا جس کی وجہ سے آپ نے یہ سب کچھ کیا ہے۔
میں نے سپاہیوں کے انچارج کو کہتے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میں معذرت خواہ ہوں کہ جو کچھ ان سپاہیوں نے کیا لیکن میں اس سب کا ذمہ دار نہیں ہوں۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اس سب معا ملے کا ذمہ دار نہیں تھا جبکہ وہ خود انچارج تھا۔
میں نے اپنی والدہ کو سپاہیوں کے سامنے اپیل کرتے ہوئے سنا ،میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں،وہ مجھ سے کافی فاصلے پر تھیںلیکن وہ کافی غصہ میں نظر آ رہی تھیں۔
ایک اسرائیلی سپاہی نے میرے کندھے پر ایک گرم جیکٹ کو پھینکاجسے میں پور طرح پہن نہیں سکا تھا کیونکہ میری ہاتھ پیچھے کمر کے ساتھ باندھ دئیے گئے تھے۔میں نے محسوس کیا کہ میری والدہ سپاہیوں سے جھگڑ رہی ہیں کہ میرے بیٹے کو جیکٹ پہنا دو۔ان فوجیوں میں سے ایک مجھے اپنے ساتھ لے گیا،اس وقت مجھے لگا کہ یہ کوئی خواب نہیں تھا، وہ مجھے حقیقت میں گرفتار کر رہے تھے۔
جب سپاہی مجھے گھر کے دروازے سے باہر لائے تو میں نے اپنی ماں کی آواز سنی جو مجھے بلا رہی تھی۔آخر کار میں اپنی ماں کو دیکھ نہیں سکتا تھا،میں اپنی ماں کی آواز کی سمت مڑا ،میری ماں کہہ رہی تھی، مضبوطی کے ساتھ رہنا،اور ڈرنا مت۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آخر یہ کیا ہو رہاہے؟ لیکن میں پہلے لمحہ سے آخری لمحہ تک بالکل خوفزدہ نہیںتھا۔میری ماں نے مجھے بھرپور اعتماد دیا تھا،میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا جس کا مجھے خوف ہوتا تاہم مجھے یقین تھا کہ میں بہت جلد رہا ہو جاﺅں گا۔میں نے اپنی ماں کی باتوں کو سنا اور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ مسکراتا ہوا چلا گیا،میں نے سوچا کہ میری مسکراہٹ میری ماں کے لئے کافی ہے۔تب ہی فوجیوں نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور چل پڑے۔
جب وہ مجھے باہر گلی میں لائے تو میں نے محسوس کیا کہ باہر سپاہیوںکی تعداد کافی زیادہ ہے اور بڑھ رہی ہے۔انہوںنےمجھے ایک فوجی ٹرک میں سوار کر دیا اور سفر کے دوران میرے ہاتھوں میں شدید درد ہو رہا تھا،مجھے ایسا لگا کہ انہوںنے کافی فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے لیکن میں نے کسی سے کچھ نہ کہا۔مجھے شدید درد ہو رہاتھا لیکن میری ماں کے الفاظ میرے درد میں کمی کا باعث بن رہے تھے۔
ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم ہوارا پہنچے،یہ ایک اسرائیلی فوجی چھاﺅنی تھی۔ایک ڈاکٹر نے آ کر میڈیکل چیک اپ کیا،اس سے قبل کہ وہ ڈاکٹر چیک اپ شروع کرتا میں نے اس سے کہا کہ میرے دونوں ہاتھوں کو ایک جگہ کر دو۔تب اس نے میرا معائنہ کیا،اور جب ڈاکٹر اپنا کام مکمل کر چکا تو ایک فوجی نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور باہر لے آیا اور میرے ہاتھوں کو دوبارہ اسی طرح باندھ دیا اور میری آنکھوں پر پٹی بھی باندھ دی۔
مجھے یاد ہے کہ میں اس شدید سرد رات میں ایک گھنٹے تک باہر کھڑا رہا تھا،اس ایک گھنٹے کے دوران ایک صیہونی فوجی نے مجھ سے پوچھا،کیا تم انگریزی زبان بول سکتے ہو؟
میں نے جواب دیا۔ہاں ۔۔کچھ کچھ۔
اس نے کہا،کیا تم تکلیف محسوس کر رہے ہو؟ اور آرمی کسی کو بغیر جرم کے گرفتار نہیں کرتی۔میں نے جواب دیا،مجھے پورا یقین ہے کہ میں بہت جلد آزاد ہو جاﺅں گا۔میں اس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے چہرے کا رنگ اور تاثرات کیا تھے۔اور یقینا وہ میرا جواب سن کر چونک گیا تھا۔
تب اس نے پوچھا تمھیں کس طرح یقین ہے؟میں نے کہا، کیونکہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ مجھے گرفتار کیا جائے۔اور اس کے ساتھ ہی وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور کچھ اور صیہونی درندہ سفت فوجیوںنے آ کر میرے کپڑے اتارے اور تلاشی لینا شروع کر دی۔
ایک کار میری طرف آتی دکھائی دی۔انہوںنے مجھے اس میں ڈال دیا،انہوں نے اس مرتبہ میری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟انہوںنے میری ٹانگوں میں آہنی بیڑیا ں دال دی تھیںجس کی وجہ سے میں زیادہ حرکت نہیں کر پا رہا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم ایک جگہ پر پہنچے اور اس جگہ کا نام باتاتیکیہ تھا جہاں پر قیدیوں سے تفتیش کی جاتی تھی۔
انہوں نے مجھے کار سے باہرنکالا ،آنکھوں پر پٹی باندھی اور مجھے ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔میرے کپڑوں کو دوبارہ اتارا گیا اور میری دوبارہ تلاشی لی گئی۔انہوںنے مجھے ایک بنچ پر کھڑا کر دیا اور میرے ہاتھ اور پاﺅں ایک لوہے کی بھاری کرسی کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دئیے گئے۔وہ مجھے اس حالت میں ایک نوجوان کے ساتھ تنہا چھوڑ کر باہر چلے گئے،میںنے اس کی طرف دیکھا۔۔۔وہ عربی میں بات کرنے لگا،خوش آمدید ،خوش آمدید۔میں خاموش ہی رہااور تب ہی اس نے کہا،کیا تم جانتے ہو کہ تم یہاں کیوںہو؟میں نے جواب دیا ۔نہیں!
وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ ،مجھے ذمہ داری دی گئی ہے کہ تمھاری تفتیش کروں اور مجھے امید ہے کہ تم میرے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دو گے۔تفتیش کا پہلا دور شروع ہو چکا تھا۔یہ تفتیش کا پہلا دور بائیس گھنٹوں تک جاری رہا۔اور میرے ہاتھ اور پاﺅں مسلسل بندھے رہے۔میرے پاﺅں میں ڈالی گئی آہنی بیڑیوں کو صرف نماز اور کھانے کے اوقات میں کھولا جاتا تھا۔رات بہت لمبی اور پریشان کن ہوتی تھی۔تفتیش کار اچانک غصے میں آ کر مجھ پر چیخنے لگا اور میری بے عزتی کرنے لگا۔میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتا تھا۔یہ بہت مشکل تھا کہ میں اپنے بارے میں کچھ ایسا بولوں کہ جو سچ نہیں تھا۔میں نے کہا کہ وہ کیوں میری باتوں کا یقین نہیں کر رہا۔
وہ مسلسل میرے آہ بکا والے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا،وہ مجھے دھمکا رہا تھا،اور مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم چودہ مہینوں تک اس جیل میں رہو گے لیکن اگر تم تعاون کرو تو شاید تمھاری سزا میں کمی کر دی جائے اور تم چھ یا سات مہینوں میں رہا ہو جاﺅ۔
تفتیش کار نے کمرے میں ایئر کنڈیشنر چلادیا تھااور مجھے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیاتھا۔میں نے ابھی تک صرف وہی پاجامہ ہی پہن رکھا تھا جو میں نے گرفتار ہوتے وقت پہنا ہوا تھا۔انہوں نے میری جیکٹ بھی لے لی تھی،جو کہ میری بوڑھی ماں نے زبردستی مجھے پہنانے کے لئے دی تھی جس وقت مجھے گرفتار کیا جا رہا تھا۔میری کمر اور گردن میں شدید تکلیف ہو رہی تھی کیونکہ میرے ہاتھ میری کمر کے پیچھے سے باندھے گئے تھے جسے اب کئی گھنٹے ہو چکے تھے۔میں نے کوشش کی کہ آنکھیں بند کروں اور تھوڑی دیر سو جاﺅں،لیکن تفتیش کار اچانک سے کمرے میں داخل ہوااور مجھے مسلسل جگانے لگا۔اس نے دوبارہ چلنا شروع کیا اور پہلے والی باتیں دہراناشروع کر دیں۔
میں کچھ دیر کے لئے خاموش رہا اور پھر میں نے کہا،میں اس طرح کے انداز میں تمھارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا میں تمھارے سوالوں کا جواب صرف اس وقت دوں گا جب تم انسانوں کی طرح بیٹھ کر مجھ سے انسانوں کی طرح سوال کرو۔وہ خاموشی سے بیٹھ گیا اور میری طرف دیکھنے لگا اور کہا،ٹھیک ہے۔تب اس نے ایک کرسی لی اور میرے ساتھ بیٹھ گیااور کہنے لگا جواب دو۔میں نے کہا،میں نہیں جانتا۔
میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھااور وہا سی غصے کی حالت میں کمرے سے باہر نکل گیا۔میں نے محسوس کیا کہ میں جیت چکا ہوں۔
تفتیش کا پہلا دور ختم ہو چکا تھا۔بعض اوقات مجھ سے ایک فرد ہی سوال پوچھتا تھااور بعض و اوقات کئی ایک مل کر مجھ سے تفتیش کیا کرتے تھے۔انہوںنے مجھ سے تفتیش کے دروان کئی ایک حربے استعمال کئے۔کچھ نے مجھے مال و دولت کی لالچ دی،کچھ نے ڈرایا دھمکایااور کچھ نے کہا کہ تمھیں انتظامی قید میں بھیج دیا جائے گا۔میں خوفزدہ تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
تفتیش کے کئی ادوار سے گزرنے کے بعد جیل کے گارڈ مجھے ایک قیدی سیل میں لے گئے ،یہ سیل ایک چھوٹاسا کمرا تھا جس میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔سیل کے اند ر ہی ایک معمولی نوعیت کا باتھ روم تھا اور سونے کے لئے بستر اور کمبل بھی تھا۔سیل کے اند ر ڈم لائٹ رکھی گئی تھی جبکہ دو سوراخ تھے جو ہوا کے لئے دئیے گئے تھے۔دیواروں کا سرمئی رنگ پریشان کن تھا۔دن میں تین وقت کھانا دیا جاتا تھا۔مجھے محسوس ہو اکہ میں دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔میری ذہن میں خیال آیا کہ یہ سیل تفتیش کاروں کے عذاب سے کئی گنا بہتر ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ دونوں ہی حالتوں میں مصیبت میں تھا۔
پہلے روز میں ایک چھوٹے سے سیل میں داخل ہوا،یہ ایسا تھا جیسے مردے کو کفن دیا جائے یا قبر کا منظر۔میں تفتیش کے مراحل سے کافی تنگ اور تھکا ہوا تھا۔اسی لئے میں کوشش کر رہا تھا کہ میں سو جاﺅں۔میں نے مدہم روشنی کی طرف دیکھا جو میری سوچوں کو میرے دماغ میں جمع کر رہی تھی ۔دو روز قبل زندگی بالکل ٹھیک ٹھاک تھی ،میں اپنے گھر میں تھااور یونیورسٹی گیا تھااور میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کافی وقت گزارا تھا۔ابھی اس وقت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک بند قبر میں تھاجہاںسے میں سورج کی روشنی کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور تازہ ہوا بھی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔
میرا دماغ شکستہ ہو چکا تھا،اور یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے سیل کے باہر کیا ہو رہاہے؟لوگ اپنی آزاد زندگیاں کیسے گزاررہے تھے؟جب میں اس قید سے نکلوں گا تو سب سے پہلے کون سا ایسا کام ہے جو میں نے اب تک نہیں کیا اسے انجام دوں؟یہ سوالات مجھے مزید شکستہ کر رہے تھے۔ہاں، اچانک مجھے نیند کا غلبہ طاری ہوا اور میں سو گیا۔
میں سیل کے دروازے کے کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔یہ کھانے کا وقت تھا۔تاحال مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس وقت کیا وقت ہو رہا ہے؟میں نے کچھ کھانے کی کوشش کی اور دوبارہ سو گیا۔
جب میں دوبارہ جاگا تو میرے لئے سرپرائز تھا کہ میں تاحال اسی سیل میں ہی تھا۔مدہم روشنی اب بھی میری آنکھوں کو چبھ رہی تھی،میں اس امید کے ساتھ دوبارہ سونے لگا کہ اب جاگنے پر کسی اور جگہ پر ہوں گا،لیکن سب کچھ ویسا ہی رہا جو سونے سے پہلے تھا۔میں کافی دیر تک سوتا رہا لیکن کوئی بھی چیز تبدیل نہیں ہوئی۔میں سوا اور جاگا،لیکن وقت کھو چکا تھا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کتنی دیر تک سویا اور جاگا۔
میںنے کراہت کے ساتھ دیوار پر زور سے ہاتھ مارا،میرے ہاتھ میں درد اٹھا۔یہ میں نے کیا کیا؟ اسکے بعد میں نے منہ ہاتھ دھویااور اس صورت حال کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔میں اس وقت دنیا سے محدود ہو کر اس سیل کی حدود میں رہ چکا تھا۔میں نے اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی اور اس میں مجھے کافی سکون ملا اور میں نے دعا کی یا اللہ تو میری حفاظت فرما۔میں نے گانے گا کر اپنا وقت گزارا۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس طرح کی زندگی گزارنے کی عادت بنا لینی چاہئیے۔میںنے کھانے کے اوقات سے وقت کا اندازہ لگانا سیکھ لیا تھا اور اسی حساب سے نماز بھی پڑھتا تھا۔میں نے خود کو اس ماحول میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔میں پہلے سے ہی اس سیل میں خود کو رکھنے کے لئے تیار کر چکا تھا لیکن سیل کے گارڈ نے مجھے دوسرے سیل میں بھیجنا بھی شروع کر دیا۔میں نے جیل میں موجود دوسرے قیدیوں سے ملنا شروع کیا،اس دوران میں چار لوگوں سے ملا۔۔۔۔جاری ہے۔
خصوصی اشاعت : ماہنامہ وائس آف فلسطین پاکستان
فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان