پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ابراھیمی معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے ٹرمپ نے اپنی گذشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ اس معاہدے کا نام پہلے صدی کی ڈیل رکھا گیا تھا بعد میں اس کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ابراھیمی معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد دنیا ئے اسلام کے ممالک کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بٹھانا اور تعلقار استوار کروانا ہے تاکہ فلسطین کا سوال ہی ختم ہو جائے۔
اس معاہدے کا آغاز پہلےمتحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوا۔ اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کر کے اعلان کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔عرب امارات عرب دنیا میں اردن کے بعد پہلا ملک بن گیا جس نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو تسلیم کیا۔اس کے بعد مراکش او ر سوڈان نے بھی اسی ابراھیمی معاہدے کی رو سے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ابراہیمی معاہدے کے لئےدلیل یہ دی جارہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہودیوں سے باربار یہی سوال پوچھا گیا ہے کہ ’تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو؟‘۔ اللہ تعالی نے قرآن میں سوال پوچھا کہ ’تم ابراہیم کو مانتے ہو لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے؟‘ یہودیوں سے پوچھا گیا کہ ’جنہیں تم اپنا باپ دادا مانتے ہو، وہ تو یہودی نہیں تھے؟‘ لیکن آج یہودیوں سے بڑھ کر یہودیوں کے وفادار مسلم ممالک میں موجود ہیں اور ایسے ہی کچھ خیانت کار پاکستان میں بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔
حقیقت میں امریکہ نے یہ معاہدہ خطے میں فلسطین کے کاز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے بنایا ہے اور ساتھ ساتھ عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کرکے وہ خطے میں اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ اس معاہدے کا ظاہر مقصد جو دنیا کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں اور اس عنوان سے آپس میں تعاون ہونا چاہئیے اور پھر اس تعاون کو سیکورٹی ، معاشی اور نہ جانے کون کون سے تعاون کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جاتاہے۔
حالیہ دنوں ایران کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی 12روزہ جنگ کے بعد تل ابیب میں ایک بڑا بینر آویزاں کیا گیا ہے جس میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے تصویروں کے ساتھ سعودی عرب کے محمد بن سلمان، عرب امارات کے شیخ زاید،قطر کے شیخ تمیم، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس،مصری صدر جنرل سیسی،مراکش کے محمد ششم، اردن کے شاہ عبد اللہ، شام کے محمد الشرع جولانی،لبنان کے صدر جوزف عون اور مسقط کے سلطان ہاشم بن طارق کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس تصویر سے واضح ہوتا ہے کہ ان سب حکمرانوں نے فلسطین کوفراموش کر دیا ہے اور امریکہ کے سامنے خود کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی عزت وحمیت امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے قدموں میں ڈال دی ہے۔اس تسلسل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ تصور نہ کیا جانے والا ملک پاکستان ہو سکتا ہے؟ حالات اور واقعات کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بغری کسی تذبذب کے ایک انٹرویو کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اسرائیل کو تبھی تسلیم کرے گا جب فلسطین کی آزاد ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہو گا، حالانکہ اس معاملہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ خارجہ پالیسی اور نظریہ کے اصولی موقف میں کسی جگہ ایسی بات موجود نہیں ہے کہ پاکستان کسی شرط کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ بلکہ قائد اعظم کی پالیسی کے مطابق پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔
اسحاق ڈار کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے معروف خاتون صحافی اسما شیرازی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے اشارے دئیے اور کہا کہ پاکستان کو اس میں اپنا مفاد دیکھنا ہے یعنی ایک شک اور شبہ ایجاد کر دیا۔ یہاں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور حکومتی وزیر و مشیر رانا ثناء اللہ بھی اسرائیل کی محبت میں میدان میں نکل آئے ہیں اور موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان کو ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے عنوان سے عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہئیے۔ عجیب بات ہے حکومت کی صفوں میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو خود مملکت خداداد پاکستان کے دشمن ہیں۔
کیا پاکستان جیسے ملک کی پالیسی عرب ممالک کی پالیسیوں کے ساتھ نتھی ہونی چاہئیے؟
واضح رہے کہ امریکہ کی چاپلوسی کرتے ہوئے ابراھیمی معاہدے کا حصہ بننے کا مطکب یہ ہے کہ حکومت نظریہ پاکستان سے انحراف کر چکی ہے اور ساتھ ساتھ اس معاہدے میں شمولیت کا واضح مقصد ہے کہ فلسطین کے بارے میں اب کوئی سوال نہیں ہو گا۔ یعنی فلسطین کو فراموش کیا جائے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ستر ہزار سے زائد معصوم بچوں اور خواتین کا غزہ میں بہنے والا خون ابھی تک غزہ کی گلیوں میں خشک نہیں ہوا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی وزراء امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی میں اندھے ہوئے جا رہے ہیں۔
فلسطین کے مسئلہ پر کسی بھی قسم کا یوٹرن اور امریکہ کے اشاروں پر ابراھیمی معاہدے میں شمولیت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کر دے گی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ دفن ہو جائے گا، علامہ اقبال کے افکار کو جلا کر راکھ دیا جائے گا، یہ سب کچھ ابراھیمی معاہدے میں شمولیت سے ہو گا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت امریکہ کی اندھی محبت میں یہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہے۔
پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
پاکستان میں ابراھیمی معاہدے کی گونج
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم