(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) کامران خان کے سوال پر وزیراعظم عمران خان کا جوابنہایت دوٹوک اور قطعی تھا۔ انہوں نے کہا:”اس سلسلے میں ہمارا ردِعمل بڑا واضح ہے۔ 1948ء میں قائداعظم نے فرما دیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کواس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے۔
پرسوں پی ٹی آئی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر حکومت کی جانب سے کئی تقریبات منائی گئیں۔ ایک ماہرِ علمِ نجوم سے بات ہوئی تو وہ بابا جی فرما رہے تھے کہ میں نے تو دو برس پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ 18-8-18کی تاریخ عمرانی حکومت پر بہت بھاری گزرے گی۔ اس تاریخ میں 8کا عدد تین بار آتا ہے اور یہ عدد ایک سے دس تک کے اعداد میں سب سے زیادہ پیچ دار ہندسہ ہے۔ اس میں دو دائرے ہیں اور اس کے بعد آنے والے ہندسے (9) میں ایک دائرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت پہلے دو سال گزار گئی تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ڈبل الجھاؤں سے نکل کر سنگل الجھاوے میں چلی جائے گی جو اگلے 9کے ہندسے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ستارہ شناس نے یہ بھی فرمایا کہ 8کے ہندسے کے دو دائرے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، چنانچہ الجھنوں کا وابستہ ہونا نیک شگون ہے۔ یہ الجھاوے ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں اور نہ ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اس لئے جو حکومت 18اگست 2018ء کے 6دائروں کو عبور کرکے سلامت بچ گئی ہے تو علم الاعداد کی روشنی میں اس کا اگلا برس صرف ایک الجھاوے میں گزرے گا جو ان شاء اللہ کسی نئی مشکل کا سبب نہیں بنے گا اور جب یہ حکومت اپنے چوتھے برس میں جائے گی تو اس کو 10کے ہندسے کا سامنا ہوگا۔ علم الاعداد کا یہ آخری ہندسہ ہے۔ اس میں صرف ایک دائرہ ہے جو 9کے عدد کے علی الرغم ایک اور صفر کا مرکب نہیں بلکہ دونوں ہندسے (1اور 0)الگ الگ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ حکومت چار سال پورے کر لے گی تو اگلا ہندسہ ایک (1) ہو گا اور یہ ہندسہ چونکہ اس علمِ اعداد کی شروعات ہے اس لئے حکومت کی نئی شروعات بھی ایک سعد اور نیک شگون ہوگا۔
قارئینِ محترم! یہ تو اضافی جملہ ہائے معترضہ تھے جو قارئین سے شیئر کئے گئے۔ میں 18اگست کو یہ دیکھنا (اور سننا) چاہ رہا تھا کہ ہمارے ”ابلاغی بابے“ اس ضمن میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی Outlets ایک ہفتہ پہلے ہی حکومتی کارکردگی کے دو برسوں پر تجزیئے شائع کر رہے تھے اور تبصرے بھی شروع ہو گئے تھے۔”دنیا نیوز“ کا ایک شو رات ساڑھے نو بجے شروع ہوتا ہے اور بالعموم گیارہ بجے شب تک چلتا ہے۔ ”دنیا، کامران خان کے ساتھ“ اس کا عنوان ہے اور میں سمجھتا ہوں جتنے بھی ٹاک شوز ٹیلی ویژن کے مختلف نیوز چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ متوازن اور معلوماتی شو یہی ہوتا ہے۔
18اگست کی شب ساڑھے نو بجے اس شو میں وزیراعظم کا انٹرویو دکھایا گیا جو خاصا ہمہ جہت اور پُر مغز تھا اور 12بجے شب ختم ہوا۔ اس میں کئی وقفے بھی آئے تاہم آدھ پون گھنٹے کے وقفوں کو نکال بھی دیں تو دو پونے دو گھنٹے کا یہ انٹرویو بہت جامع اور تشریحی (Exhaustive) تھا۔ کامران خان نے حکومت کی گزشتہ دو برس کی کارکردگی پر جو سوال کئے وہ خاصے ہمہ گیر تھے۔ کئی بار کامران خان کا لب و لہجہ تلخ گوئی کی حدود سے بھی آگے نکلتا ہوا محسوس ہوا لیکن ان کے لہجے میں عوامی فریاد اور پبلک کی وہ پکار شامل تھی جس کو کامران خان نے زبان دی اور عمران خان نے بڑے تحمل سے ان کا سامنا کیا اور جواب دیا۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں جو انہی صفحات میں دو اقساط میں شائع ہوا، ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کی نیوز بریفنگ پر تبصرہ کیا تھا۔ یہ بریفنگ پون گھنٹہ پر مشتمل تھی جس میں جنرل صاحب نے انٹرنل اور ریجنل موضوعات پر تبصرہ کیا تھا۔ 18اگست کے اس انٹرویو میں وزیراعظم پاکستان نے بھی ملک کی داخلی اور علاقائی صورتِ حال پر کھل کر تبصرہ کیا اور ان سوالوں کا جواب بھی دیا جو پاکستانی پبلک کے سوادِ اعظم کی ڈیمانڈ تھے۔ ان میں سرفہرست پاکستان اور سعودی تعلقات اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر پاکستان کے ردعمل کے بارے میں سوال تھا۔
وزارت خارجہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کے موضوع پر ایک نہائت مبہم سا تبصرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس اماراتی اقدام کے ”نہائت دور رس مضمرات ہوں گے“۔ اس تبصرے میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ ”دوررس“ مضمرات مثبت ہوں گے یا منفی۔ اس لئے لوگوں کا ابہام بجا تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان بھی امارات کی طرح اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلے گا؟ یہ سوال جب کامران خان نے وزیراعظم سے پوچھا تو ان کا جواب نہایت دوٹوک اور قطعی تھا۔ انہوں نے کہا:”اس سلسلے میں ہمارا ردِعمل بڑا واضح ہے۔ 1948ء میں قائداعظم نے فرما دیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کواس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے اور ان کی اپنی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو بھی تسلیم کر لیا ہے“۔
تحریر لیفٹینٹ کرنل ریٹائرڈ غلام جیلانی خان
بشکریہ روزنامہ پاکستان