تحریر:سید راشد احد
کیا مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے اور اس مذہب کے خلاف ایک عالمی جنگ چھیڑنے کے درپے ہے جس کے ماننے والے دنیا میں ایک ارب سے بھی زیادہ کی تعداد میں موجود ہیں ؟ اس کا واضح جواب ہاں میں ہے ۔ایک بہت ہی منظم جنگ اسلام اور اُن اقدار کے خلاف جاری ہے جو اسلام سے مربوط ہیں ۔تمام محاذوں پر اسلام کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے خواہ یہ محاذ فوجی ہو، سیاسی ہویا اقتصادی ۔ علاوہ ازیں بے بنیاد پروپیگنڈوں اور افواہوں کا سہارا لے کر اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کیا جارہا ہے ۔ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی زیادہ تر فوجی مہم جوئیاں مسلمانوں کے خلاف ہیں خواہ یہ اتفاقی ہوں یا پہلے سے طے شدہ ہوں ۔ ایک سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ حسابی نقطۂ نگاہ سے یہ بات ناممکن ہے کہ تمام جنگوں کا رخ حادثاتی طور سے مسلم سرزمین کے خلاف ہو۔لہٰذا یہ کہنا کہ ان جنگوں کا مسلمانوں کے خلاف ہونا محض ایک حادثہ ہے یا دہشتگردوں کے تعاقب کی خاطر ہے ایک فضول سی بات معلوم ہوتی ہے۔ عراق میں جو خونریزی ہے وہ امریکہ اور اس قوم کے مابین جنگ کا نتیجہ ہے جو ایک مسلمان قوم ہے ۔یہی صورتحال مغرب اور اسرائیل کے اتحاد کی لبنان پر تھونپی گئی جنگ کے بارے میں ہے اور نیٹو اور سخت گیر مسلمانوں کے مابین افغانستان میں جنگ بھی اسی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے ۔ یہ فہرست طویل ہوتی جائے گی اگر ہم اس موضوع پر کسی کتاب کی تحریر کا ارادہ کریں ۔سیاسی سطح پر مسلمانوں کو ابھرنے سے ہر طریقے سے روکا جاتا ہے اور جہاں یہ سیاسی قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا ہر طرح سے بائیکاٹ کیا جاتا ہے اورانہیں کنارے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جب الجزائر میں شریعت سے محبت رکھنے والے لوگ سیاسی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو انھیں مغربی مزاحمت کا سامنا ہوتاہے ۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا حماس کو فلسطین میں ہے اور اخوان المسلمین کو مصر میں ہے کہ ان کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لئے طرح طرح کے ظالمانہ ہتھ کنڈے استعمال کئے جارہے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ مغرب کو اسلام سے اس قدر دشمنی کیوں ہے ؟ اس کا جواب اس نظریے کی فطرت میں پوشیدہ ہے ۔
مغرب کا یہ خیال ہے کہ یہ ملا نہیں ہیں جو لچک دکھانے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ یہ خود اسلام کا نظریہ ہے جو مغرب سے مصالحت آمیزی کے لئے آمادہ نہیں ہے لہٰذا مغرب اسلام سے تاحدِ آخر جنگ کے درپے ہے جب کہ اسلام مغرب کی عالمی اجاراداری کا مخالف ہے اور ان تمام ناجائز مفادات کا دشمن ہے جو مغرب اپنی سیاسی و فوجی قوت کی بنا پر سمیٹنے میں مصروف ہے ۔ اسلا ایک نظریے کی حیثیت سے اگر کامل طور سے قبول کرلیا گیا تو یقیناًدنیا میں ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوگی اور اس کے نتیجے میں جو نیا نظام سامنے آئے گا وہ مغربی مفادات اور اقدار کے لئے ایک صربِ کاری ثابت ہوگا۔ حقیقی اسلام کبھی اس بات کی اجازت نہیں دے گاکہ اسلام کی ثروت مند زمینوں میں کوئی غیر عادل اور ظالم حکمران مسلط رہے ۔مثلاً خلیجِ فارس کو ہی لے لیجئے اگر اس میں پائے جانے والے مسلم ممالک اسلامی قوانین کو دل کی گہرائی سے گلے لگالیں تو باقی دنیا کو بھی ان سے معاملات کرنے میں عادلانہ روش کو اختیار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں مغرب کی ظالمانہ پالیسی کو شدید دھچکا لگے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک (مثلاً ایران) کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی ہے اور انہیں ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ مسلم ممالک کی اسلام کے زیرِ سایہ کامیابی سے ایک ایسی مثال قائم ہوگی جو مغربی مفادات کے لئے خطرناک ہے ۔ لہٰذا مغرب بہ زعم خویش ایسی غلط مثال قائم نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔
الیمامہ جیسے فریب کارانہ اسلحوں کے معاہدے اوراس طرح کے دیگر اربوں ڈالرز پر مشتمل معاہدات جو مغرب اور امریکہ نے دولت مند مسلم ممالک کے ساتھ کئے ہیں وہ کبھی بھی میدانِ جنگ میں استعمال نہیں ہونے والے ہیں اور ان کا اسلحہ خانوں میں پڑے پڑے خراب ہوجانا ایک حتمی بات ہے ۔ لیکن وہ مسلم ممالک جو خود اپنے ملک میں اسلحے بنارہے ہیں یقیناًوہ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جائیں گے اور وہ اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہوکر بیکار نہیں ہوں گے۔ اسلام اقتصادیات کو سیاست سے الگ نہیں کرتا ہے یا طرزِ زندگی کو اخلاقیات سے جدا نہیں دیکھتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبے اسلام کی نظر میں ایک جامع نظام سے مربوط ہے۔ جب شریعت اپنے ہاتھ میں اقتدار لے گی تو باہر کی دنیا میں بعض مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے ڈیل کرنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس صوت میں وہ مسلم عوام سے معاملات طے کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب ملاؤں سے جنگ چاہتا ہے اور اسلامی تحریک میں ان کی موجودگی کا دشمن ہے۔
مغرب کی نظر میں ملا اس لئے دشمن ہیں کہ وہ ایک ایسے مکتب کے علم بردار ہیں جو انسانوں کی بہت سنجیدہ رہنمائی فرماتا ہے اور اس کی ایک اہم رہنمائی یہ ہے کہ مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی نہیں ہونی چاہیے۔ مغربی مصنوعات کی کھپت مسلم دنیا میں آئندہ نہیں ہونی چاہیے بالخصوص مغربی اسلحوں کی کھپت جسے تواتر کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں۔ اس لئے کہ جو حقیقی اسلام ہے وہ سخت ترین الفاظ میں مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کو اسلحے اٹھانے سے روکتا ہے۔
اسلام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہمیں بیرونی قوتوں کو فائدہ دینے کے بجائے انھیں باہم برسرِ پیکار رہنے دینا چاہیے۔ جیسا کہ اسرائیل مغرب بالخصوص امریکہ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل امریکیوں کے مفادات کی قیمت پر اپنے آپ کو نشوونما دے رہا ہے اور پروان چڑھا رہا ہے۔ جب مسلمان متحد ہوجائیں گے اسرائیل ایک خطرے کے طور پر ہرگز باقی نہیں رہے گا اور اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے ہتھیاروں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ ایک ایسا امریکہ جو اسرائیل کی حمایت میں آئندہ دلچسپی نہ رکھتا ہو وہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرناک ہے اس لئے کہ امریکہ کے سہارے کے بغیر اسرائیل کا صفحۂ ہستی سے محو ہوجانا ایک یقینی امر ہے۔ لہٰذا صیہونی ہر طرح کے ہتھ کنڈے استعمال کررہے ہیں کہ اسلام اتنا طاقتور نہ ہونے پائے کہ امریکہ اور یورپ کے لئے خطرہ بن جائے۔ جب اسلام اپنی تاریخی حیثیت کی بازیافت میں کامیاب ہوجائے گا تومغرب کبھی بھی اسرائیل کے تحفظ کا خطرہ مول نہیں لے گا۔
یہ معلوم حقیقت ہے کہ امریکہ اور یورپ یہودیوں کے ساتھ اس لئے نہیں کھڑے ہیں کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں بلکہ وہ انھیں عربوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ خوفزدہ عرب منڈی میں ان کے اسلحے فروخت ہوتے رہیں۔ لیکن جب عرب اپنی عربیت کے بجائے اسلامیت کو گلے لگالیں گے تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ یہ موہوم منظرنامہ دوسری جنگِ عظیم کے منظرنامے سے قطعاً مختلف ہے کہ جہاں امریکہ، سوویت یونین اور یورپ جرمنی کو شکست دینے کے لئے متحدہ ہوگئے تھے ۔ عام خیال یہ ہے کہ ہٹلر کے خلاف جنگ کا محرک یہودیوں کے دفاع و تحفظ کا جذبہ تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ یورپ کو بچانے کی خاطر لڑی گئی تھی۔ یہی مثال Milosevic پر بھی صادق آتی ہے کہ اس کے خلاف جنگ مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر نہیں تھی بلکہ خود یورپ کے اپنے استحکام کی خاطر تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہودی خود یورپ اور امریکہ میں بہت زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھیں یورپ اور امریکہ سے نکال کر فلسطین میں بسایا گیا۔ میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پروپیگنڈے کے برعکس کہ ملا بے اصول ہوتے ہیں لہٰذا ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ علماء کی اسلام کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی مغربی قوتوں اور ان کے اتحادیوں( مثلاً حسنیِ مبارک اردن کے عبداللہ اور خلیجِ فارس کے دیگر بادشاہوں) سے خائف رکھتی ہے۔
کیوں!؟اس لئے کہ جب اسلام اپنے ہاتھ میں حکومت کا نظام لے گا تو وہاں مطلق جمہوریت ہوگی اور مطلق جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ صرف صلاحیت، شائستگی ، لیاقت و اہلیت کی بنیاد پر حکام کا انتخاب ہوگا۔ حکمرانی کسی کو ورثے میں نہیں ملے گی اور نہ ہی سیاسی چال بازیاں کامیاب ہوسکیں گی۔ مسلم اقوام کے رہنماؤں کا انتخاب ان معیارات کے مطابق ہوگا جو اسلامی قدروں سے ماخوذ ہوں گے ۔ یہی ایک حقیقیت موجودہ عرب و مسلم دنیا پر مسلط ہر مطلق العنان حکمران کی نفی کردیتی ہے۔
اسلام اس بات کی ضمانت فراہم کرے گا کہ مسلمان اپنے سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی فیصلوں میں مکمل طور سے آزاد ہوں۔ اسلام بین الاقوامی تجارتی لین دین میں نئے اصولوں کو متعارف کرائے گا جہاں مسلمان بین الاقوامی تجارت میں اپنے مسلمان بھائیوں کو ترجیح دیں گے جیسا کہ دینِ اسلام کا تقاضہ ہے۔ فوجی لحاظ سے اسلام مسلمانوں کو متحد ہونے کا حکم دیتا ہے اور ایک ایسی مضبوط فوج تشکیل دینے کی تاکید کرتا ہے جو دشمن کے قلوب میں خوف جاگزیں کردے خصوصاً وہ دشمن جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے اور ان کے معاملات میں دخل انداز ہونے کی کوشش کرتاہے۔
اسلام ایک نظام کی حیثیت سے ہدایات کا ایک مجموعہ رکھتا ہے جن سے لازماً مسلمانوں کو وابستہ ہوناچاہیے۔ ان ہدایات میں سے ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار کی بالادستی اور تسلط کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے حقیقی ماننے والوں کے قلوب کی تسخیر کرتا ہے یعنی اسلام اپنے ماننے والوں کے دل کی گہرائیوں میں جگہ بناتا ہے۔ مسلمان جب کہ پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں تو یہ دراصل حقیقی اسلام کے سپاہی ہیں جو دنیا کے ہر کونے اور محاذ پرموجود ہیں اور ان کی موجودگی سیاسی، اقتصادی و فوجی قلم رو سے لے کر علمی و معنوی قلم رو تک محیط ہے۔
جہاں تک حقیقی مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کا ہم و غم جغرافیائی حدود سے بالاتر ہے۔ اسلام دراصل مغربی اقدار اور طرزِ زندگی کے لئے خطرہ ہے اور یہ محض مغرب کی سیاسی ، اقتصادی فوجی بالادستی ہی کے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ مغرب کی نظریاتی بالادستی و تسلط کے لئے بھی خطرہ ہے مثلاً مغربی سیاست دانوں کی جانب سے مسلمان خواتین کو بے حجاب کرنے کی مہم جوئی مغربی تہذیب کی لذت پرست طبیعت کو مسلمانوں پر زبردستی مسلط کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ مغرب اس طرح اپنی مادر پدر آزاد تہذیب کے وجود کو باقی رکھ سکے۔اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت لوگوں کو ایسی آزادی کا درس دیتی ہے جو انسان کی حیوانیت اور بوالہوسی کو پروان چڑھانے کی ضامن ہے ۔ مثلاً تحریکِ آزادئ نسواں اورہم جنسی پرستی کی تحریک کا مغرب میں مقبول ہونا مغربی جمہوریت کے دئیے ہوئے تصورِ آزادی کاہی رہینِ منت ہے۔
لیکن اسلام اقدار کے معاملے میں محض لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کسی مصلحت آمیزی سے کام نہیں لیتا ہے اور غیر اخلاقی طرزِ زندگی اپنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔مسلم اور غیر مسلم دنیا پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تسلط کے باوجود اسلام پسند عوام اور تحریکوں نے مغربی تسلط پسندوں کے خلاف سخت مزاحمت دکھائی ہے ۔ اس کی ایک عظیم مثال حزب اللہ لبنان کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہے اور عراق میں عوامی مزاحمت کے ذریعے امریکی فوج کا عراق سے مکمل انخلا ء ہے ۔ حتیٰ کہ القاعدہ جیساگروہ بھی مغرب نواز مسلم حکمرانوں کی اسلام دشمن روش کے سبب وجود میں آیا جسے امریکہ ، اسرائیل اور مغرب نے بڑی عیاری کے ساتھ اپنے دامِ تزویر میں گرفتار کرکے خود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انہیں استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔مغرب جہاں مسلمانوں سے مقابلے میں بالکل بے بس ہوجاتاہے وہاں وہ القاعدہ جیسے گروہ سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صفِ آراء کرتا ہے اور یوں مسلمانوں کو کمزور کرکے اپنی تسلط و برتری کو ان کے اوپر قائم رکھتا ہے
۔پے درپے تجربات سے القاعدہ اور طالبان جیسے گروہوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انھیں بار بار امریکہ ، اسرائیل اور مغرب کے بچھائے ہوئے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے بلکہ انھیں چاہیے کہ اپنی تمام تر توانائیوں کو اسرائیل ، امریکہ اور مغرب جیسے دشمنوں کی نابودی کے لئے صرف کرنی چاہیے اور حزب اللہ جیسی تنظیم اور اس کی قیادت سے انھیں رہنمائی لینی چاہیے ورنہ وہ ہمیشہ مغربی و امریکی استعمار جو کہ اسلام اور مسلمانوں سے شدید قسم کا کینہ و بغض رکھتے ہیں کے ہاتھوں کا کھلونابنتے ہوئے اسلامی اہداف کے حصول میں معاون بننے کے بجائے رکاوٹ ثابت ہوتے رہیں گے ۔ انھیں فلسطین کی تحریکِ مزاحمت سے بھی درس حاصل کرنا چاہیے جس نے اپنی ساری توجہات اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کے خلاف مرکوز کررکھی ہے۔