• Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2
بدھ 27 اگست 2025
  • Login
Roznama Quds | روزنامہ قدس
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • فلسطین
  • حماس
  • غزہ
  • پی ایل او
  • صیہونیزم
  • عالمی یوم القدس
  • عالمی خبریں
  • پاکستان
  • رپورٹس
  • مقالا جات
  • مکالمہ
No Result
View All Result
Roznama Quds | روزنامہ قدس
No Result
View All Result
Home بریکنگ نیوز

کیا او آئی سی اجلاس سے مسئلہ فلسطین حل ہو جائے گا؟

اس تنظیم کا قیام ایسے حالات میں عمل میں آیا تھا جب غاصب صیہونی درندوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا تھا۔

منگل 26-08-2025
in بریکنگ نیوز, خاص خبریں, عالمی خبریں, غزہ, فلسطین, مقالا جات
0
کیا او آئی سی اجلاس سے مسئلہ فلسطین حل ہو جائے گا؟
0
SHARES
1
VIEWS

او آئی سی جو کہ دنیائے اسلام کے 57ممالک کی ایک تنظیم ہے۔اس تنظیم کا قیام ایسے حالات میں عمل میں آیا تھا جب غاصب صیہونی درندوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا تھا اور اس مقدس مقام کو نذر آتش کیا تھا۔ یہ 21اگست سنہ1969ء کی بات ہے۔ اس واقعہ نے جہاں پوری دنیا کے مسلمانوں کو غمزدہ کیا وہاں ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی حکومتوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبو رکیا کہ مسجد اقصیٰ یعنی القدس شریف کے دفاع کے لئے مسلم دنیا کی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے اور غاصب صیہونیوں کے ناپاک عزائم کو عملی طور پر روکنا چاہئیے ۔ بہر حال او آئی سی کا قیام عمل آیا اور پھر پوری دنیا میں اس کی گونج سنی گئی۔ رفتہ رفتہ یہ تنظیم اپنی حیثیت اس لئے بھی کھوتی چلی گئی کیونکہ اس تنظیم کو قائم کرنے والے زیاد تر مسلمان حکمرانوں کو یا تو امریکہ نے قتل کروا دیا یا پھر جو باقی رہ گئے تھے ان کی حکومتوں کو گروا دیا۔ اب جو مسلم دنیا کی حکومتیں موجود ہیں ان میں نناوے فیصد ساری کی ساری امریکی تسلط کے زیر اثر ہیں۔ حال ہی میں اس کا نمونہ سعودی عرب، قطر اور متحد ہ عرب امارات میں اس وقت دیکھا گیا جب تینوں عرب مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے اپنے آپ کو امریکی صدر ٹرمپ کا ایک دوسرے سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کے لئے اربوں اور کھربو ں ڈالر امریکی صدر کی گود میں ڈال دئیے ، یہاں تک کہ اس بات کی پروا ہ نہیں کی گئی کہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی اور فلسطین پر قابض ناجائز ریاست اسرائیل کا سرپرست یہی امریکی صدر ہے۔ ایک عرب حکمران نے تو ایک جہاز بھی تحفہ میں دے ڈالا۔ اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جدہ میں قائم اس او آئی سی نامی تنظیم کا مسلم دنیا کے مسائل کے حل میں کس قدر اثر ہو گا اور یہ خود کس قدر مغربی حکومتوں کے تسلط کے زیر اثر ہو چکی ہے۔
بہر حال 25اگست 2025بروز پیر کو 57مسلمان ممالک کے وزرائے خارجہ جمع ہوئے اور اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں مشترکہ طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی اقوام متحدہ سے رکنیت منسوخ کی جائے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں یہ سارے مسلمان ممالک کے حکمران کسی ایسے نتیجہ پر نہیں پہنچ پائے ہیں کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لئے کون سے عملی اقدامات کئے جائیں؟ آخر اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانے سے کیسے روکا جائے ؟ یہ بھی بات زیر غور نہیں آئی ہے کہ غزہ پر امریکی و اسرائیلی قبضہ کے منصوبہ کے مقابلہ میں مسلمان ممالک کے حکمران کون سے اقدامات اٹھائیں گے کہ غزہ کو محفوظ کیا جائے۔ حقائق کو نظر انداز کرکے صرف اس اجلا س میں یہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ میں رکنیت ختم کی جائے ۔کیا ان حکمرانوں کے کہ جو پس پردہ امریکہ کے کاسہ لیس ہیں ، ان کے بیانات سے اسرائیل پر کوئی خاطر خواہ اثر پڑے گا ؟ کیا یہ 57مسلمان ممالک کے حکمران یہی سمجھتے ہیں کہ صرف ان کی ذمہ داری اس طرح کےاجلاسوں میں شرکت کے بعد ایک بیان جاری کرنا ہے؟ اگر ان کے بیانات سے فلسطین کا مسئلہ حل ہونا ہوتا تو شاید پچاس سال پہلے ہو چکا ہوتا۔
اجلاس میں تمام ممالک نے اپنے اپنے انداز میں بیانات دئیے اور مشترکہ طور پر بیانیہ پر اتفاق کیا کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ سے رکنیت منسوخ کی جائے اور ساتھ ساتھ گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو بھی مذمت کا نشانہ بنایا گیا ۔
او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا موقف بھی اس صورت میں جاندار نہیں تھا کہ ایک طرف انہوںنے نیتن یاہو کے گریٹر اسرائیل منصوبہ کی مخالفت کی اور اسے خطرہ قرار دیا جبکہ دوسری طرف انہوں اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین کے لئے دو ریاستی حل کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ پاکستان مسلسل اب تک دو ریاستی حل کی حمایت کیوں کر رہا ہے ؟ یا شاید اس لئے کہ سعودی عرب کی حکومت بھی اسی حل کی طرف حمایت کرتی ہے تا کہ آیندہ مناسب وقت میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر پاکستانی موقف کو بھی اسی پیراہے میں دیکھا جائے گا؟ بہر حال یہ بہت اہم اور حساس سوالات ہیں کہ جن کے جواب قبل از وقت ہیں لیکن یہ صورتحال خطر ناک ہے۔
البتہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے اجلاس میں جو مثبت بات کی ہے اس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی اور غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ امدادرسانی ، فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقدامات، جبری بے دخلی اور غیر قانونی آباد کاری کے خاتمہ کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو عالمی اداروں میں جنگی جرائم پر جوابدہ بنانے پر زور دیا ہے۔
اسی طرح ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی جو کہ اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہی نشست پر موجود تھے ایران کے موقف کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی چار نکاتی عملی اقدامات کی طرف توجہ دلائی جن میں
۱) غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات ختم کئے جائیں۔
2) تل ابیب پر سیاسی، اقتصادی اور قانونی پابندیاں عائد کی جائیں۔
3) بین الاقوامی عدالت میں جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کا قانونی تعاقب کیا جائے۔
4) عالمی سطح پر ان حکومتوں کا مقابلہ کیا جائے جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتی ہیں۔
اجلاس میں ترک وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ ترکی امریکہ کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے لیکن اسرائیل ان کوششوں کو سبوتاژ کر رہاہے۔انہوں نے فلسطین کی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کو حاصل کرنے کے لیے زور دیا اور جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی شرکت کو معطل کرنے کے امکان کو اٹھایا، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت ممالک کی طرف سے فلسطین کو حالیہ تسلیم کیے جانے کو اس رفتار کے طور پر وضع کیا جو کہ "تنہا کافی نہیں ہے۔
اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ اسرائیل غرہ میں یکطرفہ کارراوئیاں کر رہا ہے، غزہ میں اسرائیلی حملے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گریٹر اسرائیل وژن کسی صورت قبول نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر درج بالا ممالک کے وزرائے خارجہ کے بیانات کا جائز ہ لیا جائے تو صرف پاکستان اور ایران کا موقف ہی کسی حد تک سمجھ میں آنے والا ہ لیکن ترکی اور سعودی عرب کے موقف میں کافی حد تک لچک اور کمزوری کے آثار ہیں کہ ایک طرف امریکہ کی کوششوں کی تعریف کی جا رہی ہے جبکہ امریکہ خود غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار بھی ہے ۔اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم کے بیانات کی مذمت کافی نہیں ہے۔حالانکہ سعودی عرب اور ترکی دونوں ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ملوث ہیں ۔دونوں ممالک کی بندرگاہوں سے آج بھی غاصب اسرائیل کے لئے بحری جہاز جاتے ہیں۔ایسے حالات میں اس تنظیم یعنی او آئی سی سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

Tags: او آئی سیصہیونیصہیونی فوجصیہونی ریاستفلسطینفلسطینی
ShareTweetSendSend

ٹوئیٹر پر فالو کریں

Follow @roznamaquds Tweets by roznamaquds

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • Newsletter
  • صفحہ اول
  • صفحہ اول2

© 2019 Roznama Quds Developed By Team Roznama Quds.