دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نشے میں دھت ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت نئی صلیبی جنگ شروع کر کے پوری دنیا کو دوزخ بنائے چلے جا رہا ہے۔
اس کا اصل ہدف مسلم دنیا ہے، جس کے مرکزی ممالک مصر، شام، تیونس، عراق، ایران، خلیجی ریاستیں ہیں، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے اور سب سے بڑھ کر تیل۔۔۔ تیل جو امریکہ کے نزدیک معیشت کے بطن میں بہنے والا وہ خون ہے، جس کا جوش اس کے حامل ملک کو طاقت کے زعم میں مبتلا کرکے خود سر و سرکش بنا سکتا ہے۔
اسی لئے نئے ورلڈ آرڈر کے تحت اس نے اسلامی ملکوں کی معیشت کے بطن سے یہ خون نچوڑنے کے لئے اپنے نوکیلے دانت عرب دنیا کے جسم میں گاڑ دیئے، جہاں اس کے تابع فرمان حکمران ہیں، اسے ساری سہولتیں میسر ہیں اور جہاں جہاں اس کے مدمقابل قوتیں زیادہ تنومند ہیں، وہاں امریکہ اپنا چالاکی کا حربہ استعمال کرکے ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ کا الزام حکمرانوں پر عائد کر کے ایک منظم پراپیگنڈے کے ذریعے عوام کو ایک ایسے خوش کن مستقبل کا خواب دکھاتا ہے کہ جیسے حکمران طبقے سے جان چھوٹتے ہی لوگ خوشحال اور پرسکون زندگی سے لطف اندوز ہونے لگیں گے۔
اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ حکمرانوں کے خلاف پرامن جدوجہد میں مصروف لوگوں کو تشدد کی راہ پر ڈالتا ہے اور انہیں باور کراتا ہے کہ حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے رخصت کرنے کا واحد طریقہ ’’عوامی طاقت‘‘ کا استعمال ہے۔ یہ طریقہ استعمال کرنے کے لئے وہ انہیں جدید ہتھیاروں سے مسلح ہونے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے لئے خود جدید ترین اسلحہ انہیں مفت مہیا کرتا ہے اور جب وہ لوگ جو عرصہ دراز سے پرامن انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، امریکہ کے دیئے گئے اسلحہ کے انبار پر کھڑے ہو کر ایک خون آشام انقلاب برپا کرکے حکمرانوں کو چلتا کرتے ہیں تو امریکہ اپنے مخالفین کی جگہ اپنے حواریوں کو دلوانے کے لئے آگے بڑھتا ہے اور یہیں اسے وہ دھچکا لگتا ہے جس کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا۔ مسلح جدوجہد سے انقلاب برپا کرنے والے اپنی قربانیوں کا ثمر کسی دوسرے کو چکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر امریکی حواریوں اور انقلابیوں کے درمیان ایک نئی آویزش کا آغاز ہو جاتا ہے۔
لیبیا میں یہی ہوا، چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اقتدار سے چمٹے رہنے والے آمر مطلق کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے والے طاقتور گروہوں نے امریکہ کے ’’جمہوریت‘‘ کے ڈھکوسلے کو رد کر دیا ہے، وہ اس ڈرامے کے ذریعے ایوان اقتدار میں گھسنے والوں کی راہ میں مزاحم ہیں، انہیں طاقت کے ذریعے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی راہ دکھانے والے امریکہ کو اب اپنے ہی مسلح کردہ گروہوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں کیونکہ وہ اپنے بنائے گئے نقشے کے مطابق کٹھ پتلی حکمرانوں کو اقتدار میں بٹھانے پر قادر ہے۔ افغانستان میں اس کا تجربہ ناکام تو نہیں ہوا مگر وہاں اسے انہی مسلح گروہوں کا سامنا ہے، جسے امریکہ نے خود اپنے پاس سے جدید ترین ہتھیار دے کر انہیں مسلح جدوجہد کی راہ دکھائی تھی۔
جن پتھروں کو امریکہ زبانیں دے کر بولنا سکھاتا ہے وہ جب بولنا سیکھ کر اسی پر برسنے لگتے ہیں تو امریکا کو ان کی یہ حرکت ناگوار گزرتی ہے، وہ انہیں پھر سے تابع مہمل بنانے کی کوشش کرتا ہے مگر طاقت اور قوت کا ایک بار نشہ چکھنے والے ہمیشہ اسی نشے میں مخمور رہنا چاہتے ہیں تو امریکا کو ان کی یہ خواہش ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ اپنے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا، اس لئے آمادہ جنگ ہو جاتا ہے۔ عراق کے بعد افغانستان اور اب لیبیا۔۔۔ ہر جگہ اس کا یہی کھیل جاری ہے مگر اسے پھر بھی سمجھ نہیں آتی ایک کے بعد ایک نئی بساط بچھانے کے چکر میں مشغول امریکہ، شام میں بھی یہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے مگر وہاں سے روس اور چین جیسی عالمی طاقتوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے، جن کے سات�آاندرون خانہ امریکہ کی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔
اس کا ایک ہلکا سا اشارہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ حالیہ دورہ چین کے دوران روا رکھنے والے اس رویے سے ملتا ہے، جو چین کے مستقبل کے رہنما کی جانب سے ظاہر ہوا۔ جب امریکی وزیر خارجہ کی ان سے طے شدہ ملاقات عین وقت پر علالت کے بہانے منسوخ کر دی گئی اور یوں ہلیری کلنٹن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب روس، ایران کے ساتھ ہم آواز ہے اور شام میں امریکہ کی حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس طرح امریکہ کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور پرامن جدوجہد کے حامیوں کو طاقت کے استعمال کا چسکا نہ ڈالے جو بعدازاں قوت کے نشے میں دھت ہو کر خود اس پر ہی پلٹ پڑتے ہیں، جیسا کہ بن غازی میں ہوا۔
مبینہ اطلاعات ہیں کہ لیبیا میں امریکی سفارت کار کو اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ نائن الیون کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے جاتے ہوئے راستے میں انقلابیوں کے راکٹ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا جب گستاخانہ فلم کے خلاف ایک عوامی جلوس قونصل خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر رہا تھا، جس میں انقلابی گروہ کے لوگوں نے شامل ہو کر اسے پر تشدد ہنگامہ بنا دیا، جس کے نتیجے میں قونصل خانے کو آگ لگی اور وہاں موجود چند افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ سب ہونے کے باوجود امریکہ اپنی حرکتوں سے باز آنے کا نہیں، وہ اس بات کا ادراک کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا انسانی حقوق کا نعرہ لگا کر دوسرے ملکوں میں داخل ہو کر بدامنی پھیلانا خود امریکیوں کو دنیا بھر میں غیرمحفوظ بنا رہا ہے۔
امریکہ انسانی حقوق کی آڑ میں خود ان کی جتنی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اس سے دنیا یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ امریکہ کے دیئے گئے انسانی حقوق وہ زہرناک پھول ہیں جن کی بو سے انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے، لیکن امریکہ مسلمانوں کی میتوں پر ان زہر ناک پھولوں کی چادریں چڑھائے چلا جا رہا ہے، تاکہ زندہ بچ جانے والے بھی نہ بچ پائیں۔۔۔ مگر کیا امریکہ اپنا کھیل زیادہ دیر تک جاری رکھ سکے گا؟ اس کے بارے میں شکوک پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چند روز پہلے ایک اسرائیلی اخبار نے خبر دی تھی کہ امریکہ نے ایک یورپی ملک کے ذریعے ایران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کی حمایت نہیں کرے گا۔ ایران اور امریکہ کی جانب سے تردید ہونے کے باوجود اسرائیلی اخبار اپنی خبر کی صداقت پر مصر ہے۔
یو ٹیوب پر متنازع بیہودہ فلم کی نمائش کو مبینہ طور پر اسرائیلی سازش قرار دے کر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسلامی دنیا کو امریکہ کے خلاف بھڑکانا صہیونیت کے حامیوں کا امریکہ کے خلاف نیا حملہ ہے، جس سے وہ امریکہ کو اپنے اشاروں پر ناچتے رہنے پر مجبور رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ امریکہ ایران پر فوری حملہ کرے، جبکہ ایران غیرجانبدار ملکوں کی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد دنیا کی حمایت حاصل کرکے توانا ہوچکا ہے۔
امریکہ طاقتوروں سے پنگا لینے سے احتراز کرتا ہے۔ اس کا بس صرف ان پر چلتا ہے، جنہیں وہ اپنا دوست بنا کر ان کی کمزوریوں کو اپنے ہاتھ میں لے چکا ہوتا ہے۔ پاکستان امریکہ کا دیرینہ دوست ہے اور یوں لگتا ہے کہ دونوں کی دوستی کا طبعی وقت پورا ہوچکا ہے۔ امریکہ یہ جانتا ہے مگر پاکستانی جانتے بوجھتے انجان بنے ہوئے ہیں، ہمارا یہ انجانا پن ہمیں کس قسم کے انجام سے دوچار کرتا ہے، اس کے بارے میں پاکستان کے اصل حکمرانوں کو ادراک ہوگیا ہے، اس کا احساس یہاں والوں کو کب ہو گا، اس کا پتہ نہیں۔