(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) برسلز کی محقق شائری ملہوترا نے اسرائیل کے موقر اخبار ’’حارٹز ‘‘میں لکھا کہ: ’’ بھارت دنیا میں مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی کا گھر ہے۔
لیکن اسکے باوجود بھارت اور اسرائیل کا تعلق دائیں بازو کی دو جماعتوں بی جے پی اور لیکود پارٹی کے خیالات میں قدرتی ملاپ سے جوڑا جاتا ہے۔
ہندو انتہا پسندوں نے ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس کے مطابق انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ قوم ظاہر کیا گیا ہے۔‘‘ ؓبھارت اور اسرائیل میں کئی معاملات مشترک ہیں جن میں سرفہرست مسلمانوں کے علاقوں پر جابرانہ قبضہ و تسلط اور اپنے ماتحت رہنے والے مسلمانوں کا قتل عام، حیلوں بہانوں سے مسلمانوں پر مسلسل تشدد کرنا اور انہیں ہر وقت خوف زدہ رکھنا شامل ہیں۔
چنانچہ انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا ناجائز غاصبانہ تسلط جمارکھا ہے تو اسرائیل نے فلسطین پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور اب دونوں ہی ممالک ان مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کو فوجی طاقت کے ذریعے کچلنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے جولائی 2017ء میں اسرائیل کا دورہ کیا جو کسی بھی بھارتی وزیرِاعظم کا پہلا دورہ تل ابیب تھا, نریندر مودی اس سے پہلے بھی 2006ء میں بحیثیت وزیرِاعلیٰ گجرات تل ابیب کا دورہ کرچکے ہیں۔ اس دورہ میں بھی نریندر مودی نے یہودی ریاست اور اسکے عوام کی بڑھ چڑھ کر تعریف و توصیف کی تھی۔ وزیرِاعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھانے پر کام کیا۔
کشمیر کے حوالے سے بی جے پی کے انتخابی منشور کی پالیسی بھی فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کی پالیسی کی طرح ہے۔بی جے پی کے منشور میں ہے کہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے اور کشمیر میں غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے اور کاروبار کی اجازت کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے نکال دیے جائیں گے۔
بی جے پی کی اس پالیسی کو بھارت نواز سیاستدان فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے فلسطین سے مماثلت دی ۔ فاروق عبداللہ نے تو یہ تک کہا تھا کہ مودی ایسا کریں، ہمیں بھارت سے آزادی کا جواز مل جائے گا۔
جبکہ مقبوضہ علاقے میں ہندو توا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مذموم سرگرمیوں میں بھارت کو اسرائیلی آشیر واد حاصل ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں ملک فاشسٹ پالیسیوں پر عمل پیدا ہیں جبکہ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ان کی دونوں کی دوستی بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اگر ایک طرف پورے فلسطین کو جیل بنا دیا گیا ہے تو ادھر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک سال سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ سات لاکھ افواج جب کشمیریوں کا جذبہ حریت دبانے میں کم پڑ گئی تو مزید فوجی دستے بھی تعینات کئے جا چکے ہیں یعنی کشمیر کے ہر کونہ پر چپہ چپہ پر فوجی پہرہ بٹھا رکھا ہے۔
کشمیریوں کے انسانی حقوق سلب کرتے ہوئے متعدد قدغنیں لگائی ہوئی ہیں جس طرح فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کیلئے یہودی بستیاں آباد کی جارہی ہیں اور ’’سنچری ڈیل‘‘ جسے ’’ڈیل آف ڈیتھ‘‘ کہاجائے تو درست ہوگا کے تحت اسرائیل اردن و غزہ سمیت مزید فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجے کی ضامن آرٹیکلز 35-A اور 370 کو ختم کر کے وادی کو ہڑپ لیا گیا اور اب یہاں کسی مسلم آباد کا اکثریتی تناسب تبدیل کرنے کیلئے غیر کشمیریوں، ہندوؤں کو بسانے کیلئے انہیں رجسٹریشن کی جارہی ہے۔
وادی کی قیمتی ا راضی کو اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔نہتے، بے گناہ کشمیریوں پر بے دریغ اسرائیلی ساختہ مہلک اسلحہ استعمال کیا جارہا ہے جس کی بدترین مثال پیلٹ گن ہے جس کے ذریعے سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہو چکی ہیں۔
کیمیائی ہتھیار بھی اسرائیل سے برآمد کئے گئے ہیں بلکہ بھارتی فوجیوں کو کشمیریوں کی فلسطینیوں کی طرز پر نسل کشی کیلئے اسرائیلی ٹریننگ کیلئے بھیجا جاتا ہے اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کمانڈوز کی ایک بڑی تعداد سیاحوں کے روپ میں سری نگر میں موجود ہیں ظاہر ہے کرفیو کے دوران سیاحت پر تو پابندی عائد ہے ایسے میں غیر ملکی باشندوں کی موجودگی کسی بڑے خطرے کا عندیہ دے رہی ہے۔
حالات و واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ گجرات کا قصائی اب ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی کی سازش تیار کر چکا ہے ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے آج تک کشمیر کے موجودہ حالات پر منعقد ہونے والے اجلاس بند کمرے تک ہی محدود رہے ہیں۔
تحریر: نسیم الحق زاہدی
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت