(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) جموں کشمیر اور فلسطین گو کے ایک دوسرے سے جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں لیکن تاریخ کے پہیوں نے انھیں ایک دوسرے کے قریب لاکھڑا کردیا ہے۔
دونوں خطے تقریبا ایک ساتھ 48-1947 میں دنیا کے نقشے پر متنازعلاقوں کے بطور منصہ شہود پر آئے ، کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور سات دہائیوں سےنا صرف امن کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں بلکہ مسلم دنیا کیلئے ایک گھبیر مسئلہ بن چکےہیں ۔ افغانستان میں خون خرابہ ہوں ہندوستان پاکستان میں مخاصمت یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران ، ترکی ،سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش ، ان سب کے پیچھے کسی نا کسی طرح مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین موجود ہوتے ہیں ۔ لہذٰ دنیا اگر ان دو مسائل کو افہام و تفہیم کے ساتھ فریقین کی رضا مندی اور ن خطوں میں رہنے والے عوام کی کے مطابق حل کرنے می جستجو کرلیں تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔
بھارت نے 15 اگست 2019 کو جس طرح یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کے دوٹکڑے کرتے ہوئے اس کی نیم داخلی خودمختاری کو کالعدم کردیا کچھ اسی طرح صیہونی وزیراعظم نیتن یاھو نے یکم جولائی کو فلسطین کے مغربی کنارے کے 30 فیصد علاقے اسرائیل میں کرنے فراق میں تھے لیکن انھوں نے اس منصوبے کو التواء میں رکھا کیونکہ بھارت کے برعکس فلسطین میں ان کی فوج ، اپوزیشن اور بیرن ملک آباد یہودیوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
اوسلو کارڈ کی رو سے مغربی کنارہ تین حصوں میں بانٹا گیا تھا ۔
ایریا سی میں مغربی کنارے کا 60 فیصد علاقہ آتاہے جس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتاہے ۔
مغربی ایشیا میں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو کی اس بازی کا ایک مثبت پہلو یہ رہا ہے کہ اسرائیلی سیاست میں مقبوضہ فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوگئی ہے ، عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتوں کو مسئلہ فلسطین پر بات بھی کرنا گوارہ نہیں تھا اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان آن پڑا ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ من کے درمیان اس مسئلے پر بےپنا ہ اخلافات ہیں کوشنر جس نے ٹرمپ کا مشرقی وسطیٰ کا نام نہاد امن منصوبہ ڈیل آف دی سنچیری ترتیب دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو کے فلسطینی علاقوں کواسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے سے امریکی منصوبے کو خطرپیدا ہوگیا ہے ۔ اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاھو کی معیت میں وائٹ ہاؤس میں اپنے پلان کو ریلیز کررہے تھے تو سامعین میں عمان ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفراء بھی شامل تھے جس کا مطلب ہے کہ اس منصوبے کو ان ممالک کی بھی حمایت حاصل ہے ،
کوشنر کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مصر ،سعودی عرب اور اردن کو بھی اس منصوبے پر راضی کروالے گا کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ان ممالک میں اس کے کئی پروجیکٹس پھنسے ہوئے ہیں ، نیتن یاھو کا یکطرفہ پلان اس کے کئ منصوبوں پر کسی بھی وقت پانی پھیر سکتا ہے ۔
حال ہی میں امریکا میں امارت کے سفیر یوسف ال عقبیہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی اخبار میں شائع ہوا جس کی سرخی رہی تھی کہ تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ، مگر اسرائیل میں امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ یہ عرب ممالک کا وقتی ابال ہے جو جلد ٹھنڈا ہوجائے گا ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے زیادہ اس خطے میں اپنی اقتصادی اور سلامتی کے لئے خلیجی ممالک کو زیادہ ضرورت ہے ، ٹرمپ نے جب امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا اور ڈیل آف دی سینچری کو منظر عام پر لایا گیا اس وقت بھی کچھ اسی طرح کے خدشات ظاہر کیئے جارہے تھے ۔
اسرائیل جہاں کبھی تیل اور پانی کا فقدان ہوتا تھا اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انر جی کا مرکز بننے والا ہے ۔
پینے کے پانی پر اردن اسرائیل پر انحصارکرتا ہے اس وقت مصر کو اسرائیل 85 ملین کیوبک میٹ گیس فراہم کررہا ہے جس سے اسرائیل سالانہ 5.19 بلین ڈالر کماتا ہے ۔
فریڈ مین اسرائیلیوں کو یہ بھی باور کرارہےہیں اگر ٹرمپ آئندہ برس جنوری میں اقتدار کی منتقلی کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑ دیتے ہیں تو ڈیموکریٹس کسی بھی صورت فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت نہیں کریں گے ۔ دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تاریکین وطن جو ایک طرح سے اسرائیل کے بازو کے طور پر کام کرتے ہیں نیتن یاھو کے اس پلان سے خائف ہیں اسرائیل میں جہاں اس وقت 8.6 ملین یہودی رہتے ہیں وہیں 2.7 ملین یہودی دنیا کے 99 ممالک میں آباد ہیں جن میں 7.5 ملین امریکا کے شہری ہیں ۔
یہودی تاریکین وطن امریکہ میں ڈیموکریٹس کے اور یورپی ممالک کے ردعمل سے خائف ہیں کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹس نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے ۔
مودی کی طرح نیتن یاھو بھی غیر روایتی خطرہ مول لینے والے سیاستدان ہیں جس طرح انتہاپسندہندوؤں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ویسے ہی یہودی انتہاپسندوں کیلئے نیتن یاھو ایک تحفہ ہے
فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے منصوبے پر بات چیت کرنے کیلئے حال ہی میں جب ایک یہودی امریکی وفد نیتن یاھو سے ملاقات کرنے دفتر پہنچا اور اس منصوبے کے مضمرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہا تھا اس دوران نیتن یاھو نے اپنی میز کی دراز سے ایک منقش بلس نکال اس میں 500 قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کےدوران اسرائیلی آثار قدیمہ کو ملا اور اس پر عبرانی میں نیتن یاھو کھدا ہوا تھا اس سے انھو ں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے لیکن اسرائیل میں احتسابی عمل شائد بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں اس کے علاوہ تمام ترجارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوں کو ادراک تو ہوگیا ہے کہ وہ ناقبل تسخیر نہیں ہیں اس کا اندازہ تو 1973 کی جنگ مصر کے وقت ہی ہوگیا تھا مگر 2006 میں جن لبنا ناور 2004 میں غزہ جنگ کے بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے اس لئے دنیا بھر کے یہودی اور اور اسرائیل کے مقتدد طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کے تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے ، اسرائسیل کی سرحدوں کا تعین کرکے پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے اسرائیل کی فوج اور دنیا بھرکے یہودیوں نے جس طرح نتین یاھو کے منصوبے کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت کیلئے ایک سبق ہے جہاں کے اداروں کیلئے کشمیری عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی اور نیشنلزم ثابت کرنے کا پہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
بھارت اسرائیل کے تجربے اور منصوبے کو کشمیر پر آزمانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ دنیا نے دیکھا یہودیوں نے عرب ممالک کے بیچ میں اسرائیل کی بنیاد کس طرح ڈالی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اب گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔
بھارت اور اسرائیل دونوں نے مل کر مسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور اس کو چیک کرکے دونوں اپنے اپنے منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔
تحریر : جاوید محمود
بشکریہ روزنامہ امت