مئی ۱۹۴۸ سے لے کر۲۰۱۲ کے مئی تک دنیا ایک منحوس وجود کو برداشت کر رہی ہے،یہ ظلم، زور زبردستی ، تجاوز ،بربریت،سفاکیت ،ظلمت و تاریکی، استحصال، استثمار،حقوق کے بین الاقوامی بے مثل و نظیرڈاکے ،
جمہوریت کے نام پر ایک جمہوری ملک وقوم کے جائز اور قانونی حقوق کا قتل عام، انسانیت سوز مظالم ، لاشوں کے انبار ، ظلم وجنایت،اسیری ، مفلسی، غربت، غریب الوطنی، جلاوطنی،زندان کی سلاخوں کے پیچھے جوانی کو گزارنے مگر جہد مسلسل، استقامت، شجاعت،انتفاضہ ،تا دم مرگ حقوق کی جنگ لڑنے اورظلم و ظالم سے اظہار برأت کرنے کی ایک طویل داستان ہے کہ جسے ہزاروں گھرانوں کے کئی لاکھ افراد نے اپنے خون سے رقم کیا ہے۔
مسئلہ فلسطین کی اہمیت
آج بعض لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کریں؛ یہ مسئلہ ختم ہوچکا ہے!میں اُن کی خدمت میں کہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ’’فلسطین کے اصلی مالک ‘‘فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاداورنئی نسل کے ہمراہ ہمیشہ اپنے ملک و سرزمین سے باہر ہی زندگی گزاریں گے یا فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر غیر ملکی ہمیشہ یونہی قابض رہیں گے؛ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشا اللہ ضرور ہوکر رہے گا،فلسطین فلسطینی عوام کو مل کررہے گا لہٰذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکرکا تصورغلط ہے۔ہم سب مسلمان سالوں سے مسئلہ فلسطین کو سچے دل سے اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے یعنی اُمت اسلامی کا مسئلہ سمجھتے رہے ہیں اور آج بھی اس کیلئے دامے درھے سخنے آواز اٹھا رہے ہیں۔
مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک غلط فہمی
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کچھ افراد کو ایک بڑی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ چونسٹھ سالہ حقیقت رکھنے والے اسرائیل کواب تسلیم کر لینا ہی عقلمندی ہے۔یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے موجودحقائق سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ کیا’’بالکان، قفقاز‘‘ اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک نے ۸۰؍سال تک اپنے تشخص سے محرومی اور سابق سویت یونین کا جز رہنے کے بعد کیا اپنی حقیقی شناخت دوبارہ حاصل نہیں کی؟ جبکہ فلسطین جو عالم اسلام کا پارہ تن اور اٹوٹ انگ ہے، اپنا اسلامی اورعربی تشخص دوبارہ کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟
منطقی راہ حل کے خلاف مغرب کا پروپیگنڈا
اسرائیل سے مذکرات کر لو
دنیا کے سیاسی مبصرین کی نگاہ میں ایک اور بڑا مغالطہ یہ ہے کہ فلسطینی قوم کیلئے واحد راہ نجات‘ صرف مذاکرات ہیں!ذراسوچیں تو کہ مذاکرات کس کے ساتھ؟ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئی اصولی بات نہ سمجھنے والی غاصب اور شرپسند صیہونی حکومت کے ساتھ! جن لوگوں نے دشمن سے مذکرات کی یہ راہ اپنائی اورانہوں نے اِس بچکانہ خیال اور فریب سے خود کو مطمئن کر لیاتو انہیں کیا نصیب ہوا؟ صہیونیوں سے خود مختار انتظامیہ کی شکل میں انہیں جوکچھ ملا وہ سوائے ذلت اور توہین آمیز حقیقت کے کچھ اور نہیں تھا!
دوسری جانب یہ کہا جاتا ہے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کی راہ جاری رکھی جائے جنہوں نے اس سرطانی غدے کو وجود بخشنے اور اُس کے تحفظ کے عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے ! یہ وہ ممالک ہیں جو ثالثی کے بجائے خود فریق بنے بیٹھے ہیں! امریکی حکومت نے کبھی بھی صیہونی حکومت کے تمام حتی سانحہ غزہ جیسے اُس کے آشکار جرائم کی بے دریغ حمایت بند نہیں کی ہے بلکہ آج تک اس کی مکمل حمایت کرتے ہوئے دنیا کے دیگرجمہوری اداروں سمیت اقوام متحدہ اور سلامی کونسل میں اُسے ویٹو کی طاقت سے ہمیشہ محفوظ بنایا ہے!
صلح کرلو
کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، قساوت اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہے اور اِسی بنیاد پر وہ اپنے تما م عملی اقدامات انجام دے رہی ہے۔اِس ظلم و ستم اور تجاوز و زیادتی کے بغیر نہ تو ماضی میں اُس کی پیشرفت ممکن نہیں تھی اورنہ ہی آئندہ بھی ممکن ہو سکے گی! جمہوری ادارے ، سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس حکومت کے ساتھ صلح کرلو؟!کیسی صلح؟!کس کے خلاف صلح ؟! لہٰذا ایسی صلح کا ڈھونڈرا پیٹنے والے سیاسی منادی اور مداری درحقیقت اسرائیل کے بعد والے حملوں کو جائز اور قانونی شکل دیتے ہوئے اس کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایسی صلح برقرار ہوجائے جو اسرائیل کے آئندہ حملوں کیلئے مقدمہ قرار پاسکے۔!
۔فلسطین ،عربوں کا مسئلہ نہیں
ہم کبھی کبھار یہ بھی سنتے ہیں کہ فلسطین تو ایک عرب مسئلہ ہے! لیکن اگر مراد یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہ فلسطینی عوام کی ’’اے مسلمانو!ہماری مدد کرو‘‘کی فریاد پر کوئی توجہ نہ دیں ، غزہ کے المیے جیسے معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور دوسرے مسلمانوں پر جو اپنی ضمیر کی آواز سن کرناراض بھی ہوں کہ آپ غزہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کوئی مسلمان اورغیور و باضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرے گا!
مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
مسئلہ فلسطین کا حل ، جھوٹے اور بے بنیادطریقوں پرکسی صورت میں قابل عمل نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کا وحدراہ حل صرف اورصرف یہ ہے کہ فلسطین کے حقیقی مالک’’نہ باہر سے آنے والے غاصب اور قابض مہاجرین ‘‘جو فلسطین کے اندر موجود ہیں اور جوفی الحال فلسطین کے باہر زندگی گزاررہے ہیں ،انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کا حکومتی نظام تشکیل دیں۔ اگر دنیا میں جمہوریت کا دعوی کرنے والے افراد کی یہ بات درست ہے کہ ہر قوم کو اپنی قسمت کا خودفیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے تو فلسطینی قوم بھی دنیا کی دوسری مہذب قوموں کی مانند ایک قوم ہے اور اُسے بھی اپنافیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ فلسطین پر قابض وغاصب نظام کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،وہ ایک جعلی ، جھوٹ پر مبنی اور ظالم طاقتوں کی بنائی ہوئی حکومت ہے۔ اگر عالم اسلام میں کوئی ملک یا حکمراں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی غلطی کا ارتکاب کرے یا اُس ظالم حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرے تو گویا وہ اپنے لیے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کرتا ہے اور اُس کا یہ کام بھی بے فائدہ ہوگاکیونکہ اسرائیلی حکومت دائمی نہیں ہے۔
صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہ تصور کرلیا ہے کہ وہ فلسطین پر ہمیشہ کیلئے قابض ہوگئے ہیں اور فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُن کی ملکیت بن گیا ہے ؛ نہیں، ایسا نہیں ہے! فلسطینیوں کا عزم و فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک دن فلسطین کو غیروں کے پنجوں سے ضرور بالضرور آزاد کرائیں گے۔ مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل موجود ہے جو ایساراہ حل ہے جس کو دنیا کے تمام بیدار ضمیر لوگ قبول کرنے کیلئے مجبور ہیں جو دنیا کے آج کے مفاہیم پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ راہ حل خود فلسطینی عوام کے ریفرنڈم سے عبارت ہے اوریہ ایک منطقی امر ہے۔
وہ تمام فلسطینی جو اسرائیل کے قبضے کے بعد اپنے وطن سے نکالے گئے ہیں اورلبنان ، اردن ، مصر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میں سرگرداں ہیں،ان لوگوں کو اپنے گھر اوراپنے وطن فلسطین واپس جانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی جعلی حکومت کی تشکیل سے قبل فلسطین میں موجود مسلمان ، عیسائی اور یہودیوں کے ذریعے ایک عام ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ اس ریفرنڈم کی روشنی میں فلسطین کی سرزمین پر عوامی اور جمہوری حکومت کا نظام عمل میں لائیں۔
یہ ایک جمہوری اورآئینی قدم ہے ،اگرپوری دنیا کیلئے ڈیموکریسی اورجمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کیلئے کیوں اچھی نہیں ہے؟!اگردنیا کی تمام قوموں کو اپنی قسمت اورمستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے تو پھرفلسطینی عوام کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟!کوئی بھی شخص اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کرے گا کہ فلسطین میں موجوداسرائیلی حکومت کو طاقت اور مکر وفریب کے ذریعے وجود بخشا گیا ہے اور اِس میں بات میں بھی کسی کو کوئی تردید نہیں ہے کہ صہیونی‘ صلح آمیز طریقے سے نہیں آئے ہیں بلکہ فریب اورطاقت کے ذریعہ برسر اقتدار آئے ہیں۔ راہ حل یہ ہے کہ فلسطینی عوام جمع ہو ،فلسطینی قوم سے وابستہ ہر مسلمان ،عیسائی اور یہودی اپنا اپناووٹ ڈالے، فلسطینی حکومت تشکیل دے اور پھر وہ منتخب حکومت تمام فلسطینیوں کے بارے میں فیصلہ کرے جو ۱۹۴۸ کے بعد فلسطین سے نکالے گئے ہیں اور جو جو باہر سے لا کر آباد کیے گئے ہیں۔ اگرفلسطین کی منتخب عوامی حکومت اُن کے وہاں رہنے کے حق کے
بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں رہیں اور اگر اُن کے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ اُس عوامی اور جمہوری حکومت کے فیصلے کو مان کروہاں سے چلے جائیں ۔ یہ ایک منطقی راہ حل ہے کہ جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے دنیا کے تمام سیاسی اور جمہوری اداروں کو کو شش کرنی چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دنیا کا کوئی بھی غاصب وقابض اچھی اورمیٹھی زبان سے تو اِیسے منطقی راہ حل کو قبول نہیں کرے گا، اِس مقام پر اِس معاملے سے منسلک تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پورا کریں ، عربی اور اسلامی حکومتوں ، اُمتِ اسلامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں ۔