روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین ایک صدی سے زائد عرصہ سے غاصب صیہونی سازشوں کا نشانہ بنتی چلی آ رہی ہے۔ ظلم و جبر کی ایسی داستان رقم کی گئی ہے جس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ فلسطین کے عوام سیاسی، معاشی اور اخلاقی سمیت ہر طرح کی نا انصافی اور جبر کا مقابلہ اپنے صبر اور استقامت کے ساتھ کرتے آئے ہیں اور آج کی جدید دنیا میں بھی فلسطینیوں نے ثابت کیا ہے کہ ان ے صبر اور استقامت کے مقابلہ میں دنیا کی سپر طاقتیں بے بس ہو چکی ہیں۔فلسطین کا مسئلہ نہ صرف مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے بلکہ عالمی سیاسی قوتوں کے کردار کا عکاس بھی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری اسرائیلی جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور غزہ کی تباہ کن صورتحال کے باوجود عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کرتی آئی ہیں۔گذشتہ دو سال کی جنگ میں بھی امریکی حکومت نے کھلم کھلا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی بھرپور مدد کی ہے اور فلسطینی عوام پر ہونے والی وحشیانہ جارحیت کی آج تک مذمت نہیں کی ہے۔ ایسے ماحول میں کہ جہاں امریکہ نے ایک طرف غزہ میں ہونے وال نسل کشی کی سرپرستی کی ہے وہاں اب دوسری طرف غزہ پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد دراصل وہی سیاسی ہتھکندا ہے جس کے ذریعے اسرائیل کو مزید وقت، جواز اور مدد فراہم کی جائے گی۔یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اسرائیل جوکچھ کھلے میدان کی جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اب دنیا کے چند ممالک کی مدد سے یا پھر یہ کہہ لیجئے کہ مسلمان ممالک کی خیانت کاری کی مدد سے غزہ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد ایسی ہی سازشوں کی کڑی تھی جن میں غزہ پر امریکی و اسرائیلی تسلط کو یقینی بنانا، غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنا، فلسطین سے جبری جلا وطن فلسطینیوں کو واپس وطن نہ آنے دینا اور فلسطین کے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ فلسطینیوں کو نہ کرنے دینا ہے۔ یہ امریکی قرارداد اسی طرح کی ناانصافی پر مبنی ہے جیسا کہ سنہ 1917میں بالفور اعلامیہ تھا اور بعد ازاں سنہ1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181تھی جس میں فلسطین کی سرزمین پر غاصب صیہونیوں کو قبضہ کرنے کا گرین سگنل دیا گیا تھا۔
حیرت انگیز اور افسوسناک امر یہ ہے کہ سلامتی کونسل میںپیش کی جانے والی امریکی قرارداد پر پاکستان سمیت چند مسلم ممالک نے کھلم کھلا حمایت کی، کچھ نے خاموشی اختیار کی، اور چند اہم ممالک خصوصاً پاکستان نے بھی غیر واضح اور کمزور سفارتی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا۔ یہ رویہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، حق واپسی اور حق مزاحمت کے خلاف ہے بلکہ مسلم دنیا کی سیاسی خودمختاری اور نظریاتی بنیادوں کے لیے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چین اور روس نے اس قرارداد پر نقطہ چینی کی اور قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اگر چہ ان کے غیر حاضر ہونے سے بھی اس قرارداد کو منظور کر لیا گیا لیکن تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ جہاں چین اور روس نے ویٹو نہیں کیا وہاں انہوںنے اس قرارداد پر اعتراض لگایا لیکن مسلمان ممالک کی جانب سے ایسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا جس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمان حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔
روسی مندوب نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کو غیر متوازن قراردیا اور سخت نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کی قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً ریاستِ فلسطین کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حیثیت) کی روشنی میں ہونی چاہئیں۔روسی مندوب نے کہا کہ بعض قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً اقوامِ متحدہ کی دوسری قراردادوں) کے منافی ہیں، اور انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوںپر مستقل انتظام دینے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جو فلسطینی خود ارادیت کی روح سے متصادم ہے۔ روسی مندوب نے غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (stabilization force) کی تعیناتی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی امریکی قرارداد بظاہرجنگ بندی یا انسانی امداد جیسے الفاظ پر مبنی ہے، لیکن اس کے پسِ پشت اسرائیلی مفادات اور امریکی اسٹریٹجک مقاصد پوشیدہ ہیں۔اس قرار داد میں غزہ جنگ بندی سے متعلق جرائم کرنے والے نیتن یاہو کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح فلسطینی مزاحمت جو کہ عالمی قوانین کی رو سے ایک جائز حق ہے اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس مزاحمت کو ختم کرنے یا غیر مسلح کرنے کی بات کی گئی ہے ، ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی استحکا م فورس (ISF)کے قیام کے لئے مسلمان ممالک کی افواج کو امریکی و برطانوی سرپرستی میں تعینات کرنے کا ذکر ہے، ان افواج کا کام غزہ میں موجود فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بتایا گیا ہے۔یقینی طور پر ایسی قرارداد کی حمایت کرنا عملاً مظلوم کی بجائے ظالم کے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔
دیگر مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان نے بھی امریکہ کے ایسے بیانیہ کی حمایت میں ووٹ دیا ہے جو فلسطین مخالف ہے اور فلسطینی عوام کےحق کو پامال کرتا ہے۔ اس موقف نے پاکستان کی تاریخی حیثیت اور تاریخی موقف پر سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ پاکستان تاریخی طور پر فلسطین کا کھلا اور غیر مشروط حمایتی ملک رہا ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وہ جرات، وہ استعمار مخالف لہجہ اور وہ قائدانہ کردار کم ہوتا دکھائی دیتا ہے جو ماضی میں اس کی پہچان تھا۔
اگر پاکستان ایسی قراردادوں پر غیر واضح یا کمزور مؤقف اپناتا رہا تو عالم اسلام میں پاکستان کی مخصوص حیثیت کمزور ہوجائے گی ۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے بانیان نے آزادی سے پہلے فلسطین کاز کے لئے ایک ٹھوس اور جاندار موقف اپنایا جو انصاف کے تقاضوں پر مبنی تھااسی طرح جب پاکستان آزاد ہو اتو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا اور اٹل فیصلہ دیا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پاکستان ہمیشہ قبلہ اول کے دفاع اور فلسطینیوں کے حق کے لئے بین الاقوامی فورمز پر مضبوط دلائل دیتا آیا ہے۔لیکن اب سلامتی کونسل میں پاکستان نے امریکی مؤقف کی حمایت کر کے ایک ایسی قرارداد کو ووٹ دیا ہے جس کو خود فلسطینی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔پاکستان کے اس عمل سے جہاں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو دھسکا پہنچا ہے وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ہے۔
سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کی حمایت کرنے سے پاکستان نے مسلم دنیا کے اتحاد کے میدان میں بھی اپنا موقف کمزور کر لے گا۔یہ صرف فلسطین کاز کا نقصان نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان ہے۔پاکستان امتِ مسلمہ میں ایک نظریاتی اور ایٹمی طاقت کے طور پر اثر رکھتا ہے۔ اس کا کمزور اور لچکدار مؤقف مسلم اتحاد کو مزید کمزور کرے گا۔
سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کی حمایت حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے جبکہ پاکستان کے عوام اس پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں ۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری حکومت کے ا س فیصلہ کو درست قرار نہیں دے گا کیونکہ پاکستانی عوام فلسطین کے معاملے پر انتہائی واضح اور جذباتی مؤقف رکھتے ہیں۔
اگر کوئی پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بتا رہاہے کہ فلسطین کاز سے روگردانی کرنے اور اس کے عوض امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ذریعہ پاکستان کو ترقی حاصل ہو گی اور پاکستان ایک دم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آئے گا تو یقینا ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے جس جس نے امریکہ کی وفاداری کا دم بھرا ہے امریکی حکومت نے اس ملک کا بد ترین حال کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں۔ یہ تعلقات اب ان کی خارجہ پالیسی کو فلسطین سے دور کر رہے ہیں۔لیکن کیا ان عرب ممالک میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں عوام کو فلسطین سے دور کیا جا سکا ہے ؟ درا صل یہ امریکہ نے پاکستان اور مسلم ممالک کے خلاف ایک سنگین سازش کا جا بنایا ہے جس میں طاقتور افواج رکھنے والے مسلمان ممالک کو کمزور کرنا ہے تا کہ آئندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکی غلامی کا طوق ان کی گرد ن میں رہے ۔
فلسطینی قومی دھڑوںنے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد امن کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل کو فوائد پہنچانے کے لئے ہے۔ حماس سمیت فلسطین کی تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیموںنے اس قرارداد کو غزہ دشمنی سے منسوب کیا ہےاور اسے اسرائیل کے لئے فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس اور اجازت نامہ قرار دیا ہے۔یہ فلسطین کی جدوجہد اور قربانیوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے جس پر پاکستان سمیت مسلمان ممالک نے دستخط کئے ہیں۔
اگر واقعی مسلمان ممالک فلسطین کے لئے امن اور انصاف چاہتے ہیں تو پھر آئیں امریکی قرارداد کو مسترد کریں اور اپنی ایک ایسی قرارداد پیش کریں جس میں غزہ میںمستقل جنگ بندی ، اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات، قاتلوں کا احتساب،قاتلوں کی مدد کرنے والے ممالک اور ان کے حکمرانوں کا احتساب، فلسطین کے مسئلہ کا اصولی حل جو فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو، اسی طرح اسرائیل کے ساتھ قائم کردہ تعلقات کو منسوخ کرنا چاہئیے، غزہ کے لئے انسانی امداد کی فراہمی، فلسطینی مزاحمت کی اخلاقی و سیاسی حمایت جیسے اہم نقاط شامل ہونے چاہئیں۔ایسی قرارداد کو تمام مسلمان ممالک کو چاہئیے کہ پیش کریں اور منظور کروائیں نہ کہ امریکہ کی یکطرفہ قرارداد کو تسلیم کرکے تاریخ میں فلسطینی کاز کے مجرم قرار پائیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی قرارداد کی حمایت صرف ایک سفارتی حرکت نہیں، بلکہ ایک اخلاقی بحران ہے۔ یہ مظلوم فلسطینی عوام کی امیدوں، مسلم اتحاد کے تصور اور عالمی عدل کی بنیادوں پر کاری ضرب ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ عالمی دباؤ سے بے نیاز ہو کر ایک غیر مشروط، اصولی اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کریں۔فلسطین کی آزادی صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی عزت، غیرت اور نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے۔