فلسطینی غیر آئینی وزیر اعظم پر حالیہ دنوں میں شدید دباؤ کا سامنا ہے اور یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ اور اہمیت کا حامل اس لئے بنتا جا رہا ہے
کہ مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں نے سلام فیاض کو مسترد کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ سلام فیاض کی اپنی ہی جماعت ’’الفتح‘‘ نے بھی ان پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔
حالیہ دنوں فلسطین کے مغربی کنارے میں غیر آئینی وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں جو ایک اہم ترین عنصر سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کے عوام نے حالات و واقعات کا ادراک کر لیا ہے اور مغربی کنارے میں بسنے والے الفتح پارٹی کے حامیوں نے بھی یہ بات جان لی ہے کہ الفتح اور غاصب اسرائیلی حکومت کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کا صرف اور صرف غاصب اسرائیلی حکومت کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ فلسطینی عوام کی حالت آئے رو ز ابتر ہو رہی ہے ۔دیر آئے درست آئے۔۔۔
فلسطین کے مغربی کنارے میں معاشی بدحالی کا آغاز حال ہی میں نہیں ہوا بلکہ یہ بد حالی اسی دن شروع ہو گئی تھی جس دن الفتح پارٹی نے اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی منتخب حکومت کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی اس احمقانہ حرکت کے سبب فلسطین میں منتشر دو حکومتیں قائم ہوئیں جس کا براہ راست فائدہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو پہنچتا رہا اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و بربریت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
حال ہی میں یہ معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے جس پر غیر آئینی وزیر اعظم سلام فیاض نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے مشاورت کرنے کا احمقانہ منصوبہ بنایا تھا تاہم خوش آئیند بات تو یہ ہے کہ فلسطینیوں نے اس مرتبہ ایسا نہیں ہونے دیا اور سلام فیاض کو اس مشاورت سے نہ صرف روکے رکھا ہے بلکہ اس کو ہٹانے کے لئے بھرپور تحریک کا آغاز بھی کر دیا ہے اور اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اب غاصب اور قاتل ریاست اسرائیل سے نہ تو کسی قسم کا کوئی معاہدہ کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی مشاورت کی جائے گی۔لہذٰا فلسطین کے مغربی کنارے میں آئے روز ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج فقط سلام فیاض کو ہٹانے کی حد تک محدود نہیں اس احتجاج کی اہمیت کا مزید اندازہ اس وقت لگایا جاسکتا ہے جب احتجاج کرنے والوں کے مطالبات ہمارے سامنے ہوں۔فلسطین کے مغربی کنارے میں مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟آئیے اس بارے میں غور کرتے ہیں۔
۔۱ سلام فیاض جو کہ ایک غیر آئینی وزیر اعظم ہے اس کی برطرفی
۔۲ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قطع کرنا
۔۳ ماضی میں غاصب اسرائیل کے ساتھ الفتح کے تمام معاہدوں کی تنسیخ
ان مطالبات میں سے جو سب سے اہم مطالبہ ہے وہ ’’ماضی میں غاصب اسرائیل کے ساتھ الفتح کے تمام معاہدوں کی تنسیخ‘‘کا ہے کہ جس کا فائدہ ہمیشہ غاصب اسرائیلی حکومت کو پہنچا ہے ۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرآئینی وزیراعظم سلام فیاض کو معاشی بحران کے حل کے سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ مشاورت پراعوام کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جبکہ دوسری جانب چند اراکین قانون ساز کونسل نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلام فیاض اپنی معاشی پالیسیاں درست کرنے کے بجائے غاصب اسرائیلی حکومت سے مشاورت کرکے بحران کو مزید گھمبیر کر رہے ہیں۔
فلسطینی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایک مرکزی رہ نما نجات ابو بکر نے رملہ میں ایک ٹی وی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلام فیاض پچھلے دو سال کے فلسطینی اتھارٹی اورغاصب اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے غاصب اسرائیل کے ساتھ نہ صرف دو سال تک مسلسل مذاکرات کی بحالی کی ناکام کوششیں کی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ اٹوٹ سیکیورٹی تعاون بھی کیا جاتا رہا ہے۔
نجات ابو بکر نے سلام فیاض کی معاشی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ سلام فیاض کاغاصب اسرائیلی حکام بالخصوص ناجائز ریاست اسرائیل کے مرکزی بنک کے عہدیداروں کے ساتھ مشاورت حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ مالیاتی بحران کے حل کے لیے معاشی پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے کرپشن اور لوٹ مار کا بازار بند کرنا پڑے گاغاصب اسرائیل کے ساتھ کی گئی مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی صہیونی حکام کبھی اسرائیلی ماہرین سے کبھی فائدہ اٹھا پائے ہیں۔ سلام فیاض کوغاصب اسرائیل سے نصیحت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ابو بکر نے کہا کہ فلسطینی حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں نے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور سلام فیاض کی انتظامیہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے سلام فیاض کی کابینہ میں ہونے والی لوٹ مار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ کرپشن اور بدعنوانی نے ہرطبقے کے افراد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
:اوسلو اور پیرس معاہدے بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ
فلسطین کے مغربی کنارے میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کا خلاصہ در اصل غاصب اسرائیل کے ساتھ تمام تر تعلقات کو قطع کر دینا ہے ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حماس کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ فلسطین ڈاکٹر محمود الزھار نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ،
’’ہم فلسطین کے بیٹے ہیں اور مسجد اقصیٰ و القدس کی آزادی کی خاطر اپنی جان اور اپنی اولاد کی قربانیاں دے رہے ہیں اور آئیندہ بھی دینے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہم غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں اور غاصب اسرائیلی وجود کو تسلیم کر لیں‘‘۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں حکمراں الفتح کے وزیراعظم سلام فیاض کے خلاف عوامی احتجاج میں شدت آنے کے بعد ان سے استعفے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کا کہنا ہے کہ سلام فیاض اور ان کی کابینہ شہریوں کو معاشی ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اقتدار چھوڑ دیں۔رپورٹ کے مطابق فلسطینی پارلیمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں رملہ اتھارٹی سے اسرائیل سے کیے گئے نام نہاد امن معاہدوں اوسلو اور پیرس معاہدوں کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اب تک جتنے بھی سمجھوتے طے پائے ہیں، ان کا فلسطینیوں کو نہ کوئی سیاسی فائدہ پہنچا ہے اور نہ ہی اقتصادی فائدہ بلکہ ان معاہدوں کا صرف صہیونی ریاست کو فائدہ پہنچا ہے۔
یہ وہ بنیادی نقطہ ہے کہ جس کی طرف فلسطینیوں کی توجہ مبذول ہو چکی ہے کہ عالمی سطح پر یا علاقائی سطح پر کسی بھی سطح پر غاصب اسرائیل سے کئے جانے والے معاہدے بے کار ثابت ہوتے ہیں اور غاصب اسرائیل ان عالمی اور علاقائی معاہدوں پر نہ صرف عمل نہیں کرتا بلکہ فلسطینی عوام پر مظالم میں مزید تیزی آ جاتی ہے ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے ہمیشہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی بد ترین پامالی کی ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر نہ صرف عمل نہیں کیا بلکہ اس کے رد عمل میں مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی آگ میں اضا فہ کیا ہے ۔
خوش آئیند بات یہ ہے کہ فلسطین کے مغربی کنارے کے فلسطینی بھی غزہ پٹی کے فلسطینیوں کی طرح جد وجہد کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنے عمل سے اور اپنے اظہار سے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب وہ غاصب اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو زیادہ مذاکرات کی مہلت نہیں دیں گے ۔