تحریر : ڈاکٹر رَمزی بارود
غربِ اردن ایک مرتبہ پھر عوامی انتفاضہ تحریک کے دھانے پر کھڑا ہے کیونکہ گذشتہ دو سال کے دوران میں بظاہر کوئی بھی سیاسی عمل یا اس کا امکان مکمل طور پر معدوم دکھائی دیا ہے۔اسرائیلی فوج کسی بھی ممکنہ انتفاضہ تحریک کو بروقت دبانے کے لیے فلسطینی اسکولوں اور جامعات میں کریک ڈاؤن کررہی ہے کیوں کہ یہ فلسطینی تعلیمی ادارے ہی ہیں جو ہمیشہ اسرائیلی قبضے کے خلاف اجتماعی بغاوت کا مرکز رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں نیوز کوریج میں ایک فلسطینی کے ہاتھوں دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کو زیادہ نمایاں انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔درآں حالیکہ 12 دسمبر کو اس واقعے کے چند گھنٹے کے بعد ہی غربِ اردن کے علاقے میں چار فلسطینیوں کو جان سے مار دیا گیا تھا لیکن یہ تو اسرائیل کی گذشتہ کئی مہینوں سے فلسطینیوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کی مہم کا ایک معمولی سا واقعہ تھا۔
یہ بات بالکل منطقی ہے کہ غربِ اردن سے تعلق رکھنے والے فلسطینی ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے خلاف مظاہروں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت نے غربِ اردن میں غیر قانونی یہودی بستیوں کو توسیع دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس نے اپنی نوآبادیاتی مہم کو پورے علاقے تک پھیلا دیا ہے ۔اسرائیلی حکومت نے غیرقانونی یہودی بستیوں کو قانونی قرار دینے کے لیے بھی سرگرمیاں تیز کررکھی ہیں۔
یہ سب کچھ فلسطینی اتھارٹی کی کسی سرکاری فلسطینی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں ہورہا ہے۔اسے تواس وقت بس اپنی بقا کی تشویش لاحق ہے اور اسرائیل کی یہود ی آبادکاروں کو بسانے کے لیے کالونیل پالیسیوں کا مقابلہ کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔
اسرائیل کی نئی حکمتِ عملی یہ ہے کہ مزاحمت کے سوتے ہی خشک کردیے جائیں ۔اس مقصد کے لیے اسرائیلی فوج طلبہ گروپوں کے لیڈروں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان اسکولوں کو بند کررہی ہے جو قبضے اور اس کی غیر قانونی بستیوں کی توسیع کے خلاف احتجاج کے لیے مشہور ہیں۔
12 دسمبر ہی کو مقبوضہ بیت المقدس کے جنوب مشرق میں واقع گاؤں ابو دیس میں اسرائیلی فوج کی گاڑیوں کی بڑی تعداد نے فلسطین کی القدس یونیورسٹی پر دھاوا بولا تھا۔فوجیوں نے دفاتر میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی،یو نیورسٹی کی املاک کو تباہ کردیا اور پھر نگرانی کے کیمروں کی ریکارڈنگز کو قبضے میں لینے کے بعد چلتے بنے۔
بظاہر لگتا یہ ہے کہ اسرائیلی جامعہ القدس کے کیمپس میں مختلف فعال اور متحرک طلبہ لیڈروں کی نقل وحرکت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ یہ جامعہ اسرائیل کے خلاف سول نافرمانی اور احتجاجی مظاہروں کا ایک اہم مرکز بنی ہوئی ہے۔
چھاپا مار کارروائیوں کااعادہ
یہ منظر اسرائیلی فوج کی فلسطینی جامعات اور طلبہ کی کیمپسوں یا ان کے گھروں سے گرفتاریوں کے لیے چھاپا مار کارروائیوں کا اعادہ ہی تھا۔گذشتہ نومبر میں غربِ اردن میں بیر زیت یونیورسٹی میں مہم برائے تعلیمی حق نے یہ اطلاع دی تھی کہ ’’2004ء کے بعد سے جامعہ کے قریباً 800 طلبہ کو ایک ہی وقت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ان میں 16 طالبات بھی تھیں‘‘۔
اس مہم کے مطابق اس وقت بھی 60 سے زیادہ طلبہ اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں اور ان میں زیادہ تر کو کسی الزام کے بغیر انتظامی حراست کے قانون کے تحت پکڑا گیا تھا ۔یہ بیان اس جامعہ کی طلبہ یونین کے سربراہ یحییٰ ربیع کی گرفتاری کے بعد جاری کیا گیا تھا۔انھیں رام اللہ شہر کے شمال میں واقع گاؤں مزرہ الغریبیہ میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔
بیر زیت میں ماضی قریب میں ڈرامائی واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں۔ان میں اسرائیلی فوج کے خفیہ یونٹ حصہ لیتے رہے ہیں۔حال ہی میں اسرائیلی فوجیوں نے خبر نامہ نگاروں کے روپ میں کیمپس کے اندر چھاپا مار کارروائی کی تھی اور طلبہ کے ایک لیڈر عمر کسوانی کو گرفتار کر لیا تھا۔15 نومبر کو غرب اردن کے شہر نابلس کے جنوب میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک اسکول پر حملہ کیا تھا اور متعدد فلسطینی طلبہ ، اساتذہ اور حکام کو زخمی کردیا تھا۔
اس السویہ ال لیبان اسکول کے طلبہ نے اسرائیلی فوج کے اپنے اسکول کو بند کرنے کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کو چیلنج کیا تھا۔اس اسکول پر فراڈ پر مبنی یہ الزام عاید کیا گیا تھا کہ وہ ’’عوامی دہشت گردی اور بلووں‘‘ کی جگہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ کی2016ء کی ایک اسٹڈی کے مطابق غربِ اردن کی 35 بستیوں سے تعلق رکھنے والے کم سے کم ڈھائی ہزار فلسطینی طلبہ کو روزانہ اپنے اسکولوں تک پہنچنے کے لیے اسرائیل کے فوجی چیک پوائنٹس سے گذر کر جانا پڑتا ہے۔ان میں سے نصف طلبہ کو اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہراسیت اور تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
السویہ ال لیبان غربِ اردن کے علاقہ سی میں واقع ہے۔اس لیے وہ مکمل طور پر اسرائیلی فوج کے رحم وکرم پر ہے اور وہ تو اسکول کے بچوں کے غیر متشدد عوامی احتجاجی مظاہروں سمیت مزاحمت کی کسی بھی شکل کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اسرائیلی فوج کے قبضے اور فلسطینیوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر ہر طرح کی پابندیوں کے باوجود حقیقی معنوں میں ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فلسطینی آبادی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی) کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق فلسطینی علاقوں میں شرح خواندگی (96.3 فی صد)مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ ہے اور غیر خواندگی کی شرح(3.7 فی صد ،15 سال سے زیادہ عمر کے افراد) دنیا میں سب سے کم ہے۔
اسرائیل کی فلسطینی اسکولوں اور نصاب کے خلاف جاری جنگ کو اگر ذہن میں رکھیں تو کیا یہ اعداد وشمار حوصلہ افزا نہیں۔یہ بھی ملحوظ رہے کہ جنگ کا شکار اور محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں شرح خواندگی غرب ِ اردن سے بھی زیادہ ہے۔دونوں فلسطینی علاقوں میں شرح خواندگی بالترتیب 96.6 فی صد اور 96 فی صد ہے۔
بڑا ہتھیار
فلسطینی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیم ہی ان کا ایک ایسا بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آزادی کے حق کو حاصل کرسکتے ہیں جس سے انھیں ایک طویل عرصے سے محروم رکھا جارہا ہے۔اسرائیل بھی ا س حقیقت سے آگاہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ تعلیم سے آراستہ فلسطینی آبادی اسرائیل کی بالادستی کو ایک محکوم اور غلام آبادی کی نسبت چیلنج کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔چناں چہ اس نے ان تھک اور منظم انداز میں فلسطینی تعلیمی نظام کو ہدف بنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔
اسرائیل کی فلسطینی جامعات او ر اسکولوں کو تباہ کرنے کی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کو ’’دہشت گردی‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے،فلسطینی اسکولوں کی کتب میں ’’ دہشت گردوں‘‘ کی تحسین کی جاتی ہے،اسکول ’’عوامی دہشت ‘‘ کی جگہیں ہیں۔ان کے علاوہ اسرائیلی منطق کے مطابق اور بھی بہت سے الزامات عاید کیے جاتے ہیں۔اس کے بعد تو اسرائیلی فوج کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ فلسطینی جامعات میں چھاپا مار کارروائیاں کرے ،اسکولوں کو سر بہ مہر کردے،انھیں ڈھا دے ، طلبہ کو گرفتار کرے یا گولیوں کا نشانہ بنا دے۔
مثال کے طور مقبوضہ بیت المقدس کے اسرائیلی میئر نیر برکات کے ایک حالیہ بیان پر غور کرتے ہیں۔وہ فلسطینی مہاجرین کی امدادی ایجنسی اُنروا کی امدادی سرگرمیوں کو بند کرانے کے لیے مہم کی قیادت کررہے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ’’ اب وقت آگیا ہے، یروشلیم سے اُنروا کو نکال باہر کیا جائے‘‘۔انھوں نے کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’اُنروا دہشت گردی کو مضبوط بنا رہی ہے۔یروشلیم کے بچوں کو اس کی نگرانی میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کو روکا جانا چاہیے‘‘۔
القدس یونیورسٹی میں چھاپا مار کارروائی ، بیر زیت میں گرفتاریاں ، السویہ ال لیبان اسکول کی بندش ، امریکا اور اسرائیل کے اُنروا کو ہدف بنانے ، غربِ اردن میں فلسطینی بچوں کو اسکولوں سے الگ کرنے کے لیے لاتعداد چیک پوائنٹس کے درمیان ربط وتعلق اور بہت سی قدریں مشترک ہیں اور یہ ا سرائیل کے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات سے بھی زیادہ باہم مشترک ہیں۔
اسرائیلی لکھاریہ اورلی نوئے نے اسرائیلی منطق کو ایک جملے میں سمو دیا ہے۔انھوں نے اس سال کے اوائل میں لکھا تھا:’’علاقہ سی میں واقع فلسطینی دیہات میں اسکولوں کو تباہ کرکے اسرائیل فلسطینیوں کو ایک خطرناک انتخاب پر مجبور کررہا ہے اور وہ یہ کہ وہ زمین اور اپنے بچوں کے مستقبل میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں‘‘۔
یہی سفاکانہ منطق ہے جس کی روشنی میں گذشتہ 70 سال کے دوران میں اسرائیلی حکومت نےفلسطینی تعلیمی نظام کے بارے میں حکمت ِعملی وضع کی اور اس پر عمل کیا ہے۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کو فلسطینی شناخت ، آزادی اور فلسطینی عوا م کے وجود کے خلاف بڑی جنگ سے باہر رکھ کر سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔