شرپسند صیہونی آبادکاروں کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور اشتعال انگیز یاں کوئی نئی بات نہیں ہیں تاہم شرپسند صیہونی آبادکاروں اور بعض گمراہ فلسطینیوں کی جانب سے حضرت موسیٰ علیہ سلام کے مزار مبار ک سے متصل تاریخی مسجد موسیٰ کی بے حرمتی پر مقبوضہ فلسطین میں سخت تناؤ کی صورتحال ہے، گزشتہ ہفتے ہزاروں فلسطینی باشندوں نے تاریخی مسجد موسیٰ کی بے حرمتی کے خلاف اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نماز جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ اعتکاف کیااور خون کے آخری قطرے تک مسجد کی حفاظت کے عزم کا اظہار کیا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس سے20 کلومیٹر دور مشرقی شہر اریحا میں واقع حضرت موسیٰ علیہ سلام کے مزار مبارک سے متصل مسجد موسیٰ میں گذشتہ ہفتے شرپسند صیہونی آبادکاروں اور بعض گمراہ فلسطینیوں نے رقص و سرور کی محفل کااہتمام کیا تھا جس میں فلسطینی ڈی جے سماء عبدالہادی جو کہ الیکٹرانک میوزک کمیونٹی میں اہم شہرت رکھنےوالی پہلی فلسطینی دوشیزہ ہے اور اس کو ‘فلسطینی ٹیکنو کوئین’ بھی کہا جاتا ہے نے پرفارمنس دی تھی جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی نے فوری حرکت میں آکر ڈی جے سماء عبدالہادی اور دیگر ملوث افراد کو حراست میں لےکرفوری قانونی کارروائی کا حکم جاری کیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نے فلسطینی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ سما عبدالہادی نامی ڈی جے کو فوری طور پر رہا کر دیں لیکن معاملہ انتا آسان نہیں ہے کیونکہ اس گروہ نے مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ دانستہ طورپر اس کی فلم بندی بھی کی جو فلسطینی باشندوںمیں غم و غصے کا سبب بنا ۔
ارض فلسطین پر مسلمانوں کے مقدس مقامات کو غیر قانونی صیہونی آبادکاروں کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں نشانہ بنایا جاتا ہے ، مسلم دشمن عناد میں یہ صیہونی اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ جن مقدس مقامات کو یہ مسلمانوں کی ذہنی اذیت دینے کیلئے بے حرمتی کا نشانہ بنارہے ہیں یہ مقامات اہل یہود اور مسیحیت کے ماننے والوں کیلئے بھی اتنے ہی متبرک اور مقدم ہیں جتنے مسلمانوں کیلئے۔
صیہونی مذہبی جنونیوں نے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دینے کیلئے حضرت موسیٰ علیہ سلام کے مزار مبارک اور اس سے متصل مسجد موسیٰ کی بے حرمتی کی یہاں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کی اہل یہود جس نبی کی شریعت پر چلتے ہیں وہ حضرت موسیٰ علیہ سلام ہی ہیں ، سرزمین فلسطین یوں تو مذہبی طور پر مسلمانوں یہودیوں اورعیسائیوں کے لیئےہمیشہ سے ہی مقدس رہی ہے ، بنی نو انسان کی ہدایت کے لیےوقت کے عظیم ترین انبیاء کرام کواس سرزمین پربھیجاگیا۔
ان ہی میں سے اک جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجاگیا آپ کی پیدائش مصر میں اس وقت ہوئی جب وقت کا فرعون ریمسیس دوئم بنی اسرائیل پر جبرن حکومت کیا کرتا تھا ، یہ وہ ہی نبی موسیٰؑ ہیں جن کو اللہ نے فرعون کے شر سے بچا کر دریا کی موجوں میں سنبھال کر اسی فرعون کے محل میں ان کی اپنی ہی ماں کے ہاتھوں پرورش کروا کر فرعون کو ہی ان کا محافظ بنا دیا، یہ وہ ہی نبی موسیٰؑ ہیں جن کے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوتا ہے ، یہ وہ ہی نبی موسیٰؑ ہیں جن کو وقت کے اک اورنبی حضرت ذکر یانے پہچان کر آپ کا نکاح اپنی صاحبزادی سے کردیا تھا، یہ وہ ہی نبی موسیٰؑ ہیں جن سے وادی ِ طووا میں اللہ تعالیٰ نے کلام فرماکرکوہ طور پر نبی موسیٰؑ کو کلیم اللہ کا لقب عطاء کیا ، یہ وہ ہی نبی موسیٰؑ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے محل میں دو معجزات عطاء کیئے، موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالم لشکر سے بچا کر وادیِ سینا میں پناہ دلوائی ۔ انہی نبیؑ کے دور نبوت میں اللہ تعالیٰ نے منوصلوٰ جیسی عظیم نعمت بنی اسرائیل کو عطاء فرمائی،اور اسی سرزمین پر موسیٰ کلیم اللہ کامزار مبارک موجود ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزار فلسطین میں مقبوضہ بیت المقدس سے تقریباً (28 کلومیٹر) مشرق کے صحرا میں تعمیر کیا گیا تھا جو بحیرہ مردار تک پھیلا ہوا ہے اس کے اندر ایک مسجد ہے ، یہ مزار تقریباًپانچ ایکڑ رقبہ پر پھیلاہوا ہے، سلطان الظاہر بیبرس نے جب اس علاقے کا دورہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یاد منانے کے لئے ، اس نے مزار کے قیام کا حکم دیا۔
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے وصال کے حوالہ سے حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک حدیث پاک مروی ہے جس میں فرمایا گیا ہےکہ موت کے فرشتے کو جب حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے لئے بھیجا گیا توآپ نے فرشتے کو مکا رسید کیا وہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوا اور عرض کی اے اﷲ آپ نے مجھے ایسے شخص کے پاس کیوں بھیجا جو آپ کے پاس ابھی آنا نہیں چاہتا، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس دوبارہ جاو ٔاور ان سے کہوکہ اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو، جتنے بال ہاتھ کے نیچے آئیں گے ہر بال کے بدلے ایک سال عمر بڑھا دی جائے گی، تب آپ علیہ السلام نے عرض کی کہ میرے اﷲ پھر کیا ہوگا؟ فرمایا گیا پھر مرنا ہوگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی تو اب ہی کیوں نہ موت ہو۔گو کے آپؑ کے مزار کی حقیقی جگہ کا تعین نا ہو سکا مگر اس زمر میں سید البشر حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو سرخ پہاڑ کے نیچے ان کا مزار اقدس تمہیں دکھاتا۔
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے آخری وقت میدان تیہ میں تھے جب موت کا وقت قریب آیا تو دعا فرمائی کہ مجھے بیت المقدس کے قریب کردے جس کی طرف میں ہجرت کر کے آرہا تھا۔ آپ نے اپنی قوم کو ترغیب دی کہ مجھے بیت المقدس میں دفن کرنا مگر تقدیر نے ایسا نہ ہونے دیا اور وہ ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے سے آگے نہ جاسکے ۔
اہل کتاب اور دیگر سیرت نگاروں کے مطابق حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا جب وصال باکمال ہوا تو آپ کی عمر مبارک تقریباً 120سال تھی۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ماہ رمضان المبارک کی اکیسویں شب کو وصال فرمایا۔مگر افسوس چند دن پہلے دورے حاضر کے صہیونی قابضوں نے چند بےدین لوگوں کے ہاتھوں اس مقدس مقام کی بے حرمتی کی رقص سرور ناچ گانے کی محفل منعقد کر کے نہ صرف مسلمانوں بلکہ مذہبی سوچ رکہنے والے یہودیوں کی بھی دل آزاری کی اور اک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ یہ تاثر دیا کے وہ بے دین افراد مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ جلد اک بار پھر مسلمانوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا مسلمان مجاہد عطاء کر اک بار پھر بیت المقدس پر اسلام کا جھنڈا سر بلند ہو آمین۔
تحریر : اظہر حسین