شہادت طلب کاروائیوں کی بانی خاتون
پہلی فلسطینی خود کش بمبار خاتون جس نے ۱۵۰ اسرائیلیوں کو زخمی کر دیا وفا ادریس وہ پہلی شہیدہ خاتون ہے کہ جس نے فلسطین پر اسرائیل غاصبانہ قبضہ کے خلاف شہادت طلب کاروائیو ں کی بنیاد ڈالی
اور وہ پہلی شہیدہ خاتون ہے کہ جس نے ۲۸ سال کی عمر میں غاصب صیہونی فوجیوں پر پہلا خود کش حملہ کیا اور ۱۵۰ اسرائیلی فوجیوں کو شدید زخمی کر دیا،آپ عماری کے پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر تھیں۔
تعارف:وفا ادریس کے والدین پناہ گزین تھے اور وفا ادریس اسی پناہ گزین کیمپ میں ہی پیدا ہوئی ،یہ پناہ گزین کیمپ رملہ کے نزدیک واقع ہے یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ’’یوم نکبہ‘‘ کے دنا سرائیلیوں کے ہاتھوں بے گھر ہو چکے تھے وہ 1975ء میں پیدا ہوئیں۔
آپ کے والد اس وقت وفات پا چکے تھے جبکہ وہ ۴ سالہ بچی تھیں وہ اس وقت جب پہلی انتفادہ تحریک شروع ہوئی (سنہ 1987ء)تو آپ کی عمر ۱۲ سال تھی۔وہ کرفیو کے دوران پناہ گزینوں کو کھانا تقسیم کرنے میں رضا کار کا کردار ادا کرتی تھیں او ر ساتھ ہی قیدیوں کے خاندانوں کی مدد گار کمیٹی کی ممبر بھی تھیں۔وفا دریس کی اس وقت شادی اپنے فرست کزن سے ہوئی جب وہ صرف ۱۶ سال کی تھیں اور جب اس نے عمر کی تئیس بہاریں دیکھی ہی تھیں کہ وپ پہلے بچے کی ماں بنی مگر آپریشن کے زریعے اس وجہ سے اسے بتایا گیا تھا کہ وہ مزید بچہ کی ماں نہیں بن سکے گی۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے چچا زاد نے اسے طلاق دے دی اور وہ واپس ماں کے پاس چلی گئی تا کہ آئیندہ زندگی وہاں گزار سکے۔
وہاں وہ ماں ،بھائی اور ان کے 5بچوں کے ساتھ رہنے لگی تھی اسی دوران وہ فلسطینی سیکشن ریڈ کراس میں بطور رضا کار کام کرنے لگی اور ایک تربیت یافتہ نرس کے طور پر مشہور ہوئیں۔وہ ہر جمعہ کو بعد از جمعہ بحیثیت رضا کار نرس کے کام کرتی اور ساتھ ہی اسرائیلی فوجوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت بھی کرنے لگیں۔فلسطینی اور لبنانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کاروائی اسرائیلیوں کی ان کاروائیوں کے جواب میں کی جو انہوں نے پہلے انتفادہ کے خلاف کیں۔
وفا ادریس ریڈ کراس کے ساتھ کام کرنے والی ایک نرس تھیں جو خصوصیت کے ساتھ فلسطینی سائڈ پر کام کرتی تھیں،27جنوری 2002ء کو 28سالہ نرس ،جعفا روڈ پر اسرائیل کے اندر شاپنگ ڈسٹرکٹ میں ڈیٹو نیٹر بم کے زریعے خود کو اڑا دیا جس سے ایک اسرائیلی اسی جگہ پر ہلاک ہوا جبکہ 150دیگر زخمی ہوئے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے عہدیداران نے کہا کہ وفا ،اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں ہر اول دستے میں ہوتی تھیں اور فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان اکثر ٹکراؤ کے دوران بھی فرنٹ لائن پر ہوتی تھیں ۔وہ ایک غیور اور بے چین روح کی حامل مجاہدہ تھیں اسی وجہ سے وہ اپنی فدائی کاروائی سے دو ہفتے پہلے معمولی زخمی بھی ہوئی تھیں مگر ان زخموں نے ان کا حوصلہ کم کرنے کی بجائے بڑھا دیا۔