امریکی صدر باراک اوباما نے یورپی یونین کو متعدد مرتبہ یہ توجہ دلائی ہے کہ وہ ترکی کو رکنیت دے دے وگرنہ ترکی کا رجحان دوسری طرف زیادہ ہو جانے کا امکان ہے۔ امریکی صدر نے خاص طور پر یہ بات فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد زور دے کر کہنا شروع کی۔ اگرچہ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے نے ترکی کا ایک ایسا کردار آشکار کیا، جس سے عالم اسلام میں اس کے حوالے سے ایک حوصلہ افزا پیغام گیا، البتہ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود ترکی کے اب بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور فوجی تعلقات قائم ہیں۔
ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود ترکی کے اقتصادی تعلقات ایران کے ساتھ اب بھی قائم ہیں اور ترکی تیل کی اپنی داخلی ضروریات کا ایک بہت بڑا حصہ اب بھی ایران سے درآمد کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کی وجہ سے بالآخر ترکی کو اس درآمد میں کچھ کٹوتی کرنا پڑی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ترکی کے پاس متبادل ذرائع موجود ہوں تو اس درآمد میں مزید کٹوتی کا بھی امکان ہے۔ اس سلسلے میں اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران سے تیل اور گیس کا حصول ترکی کے لیے آسان بھی ہے اور سستا بھی، کیونکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ہمسایہ ہیں۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدہ کے مطابق ایران سے ایک گیس پائپ لائن ترکی کے راستے یورپ تک جانے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ ترکی کے لیے بھی مالی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔
ترکی خلافت عثمانیہ کا کئی صدیوں تک مرکز رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق علویوں کی تعداد ترکی میں ایک تہائی ہے۔ عصر حاضر میں شام، عراق اور ایران کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں اونچ نیچ کے پس منظر میں بعض مبصرین مذکورہ ماضی میں وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترکی اور ایران کے مابین چند برسوں سے نسبتاً قریبی اور دوستانہ تعلقات میں فروغ کی وجہ سے عالم اسلام میں یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ یہ دونوں ملک تلخ ماضی کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ عالم اسلام میں مشترکہ طور پر ایک امید افزا کردار ادا کریں گے۔
غزہ میں اسرائیل کے مظالم کے بعد ترکی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں جس طرح سے آواز بلند کی تھی، اس سے ان امیدوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا، لیکن شام کے مسئلے میں دونوں ملکوں کے الگ الگ بلکہ باہم متقابل راستوں کی وجہ سے عالم اسلام میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس تشویش میں اس وقت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جب امریکی وزیر خارجہ ترکی میں جا کر شام کے خلاف ترک امریکا مشترکہ موقف کا اظہار کرتی ہیں یا پھر ترکی شام کے بارڈر پر تعینات کرنے کے لیے نیٹو کی افواج سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔ امریکا اور نیٹو سے مدد طلب کرنے کے بعد اور ان سے ہم آہنگی کے بعد ترکی واضح طور پر ایک ایسے کیمپ کا حصہ بن جاتا ہے، جسے بہر حال عالم اسلام اپنا دوست نہیں سمجھتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ رہا ہے۔ کیا ترکی میں یہ امنگ پیدا ہو چکی ہے کہ اس نے خلافت عثمانیہ کی بحالی کے لیے پھر سے کوئی کردار ادا کرنا ہے؟ کیا ترکی شام پر اپنا اثرورسوخ بڑھا کر اسی آرزو کی تکمیل کی طرف قدم اٹھا رہا ہے؟ یہ سوال بھی شام کے حوالے سے ترکی کے کردار کو سمجھنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ترکی کو عالم اسلام میں ’’ایک بڑے‘‘ کا کردار ادا کرنا ہے تو اس کا راستہ فوجی نہیں ہے۔
مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم قدیم خلافت عثمانیہ کی موجودہ ساخت پرداخت پھر سے ایک سلطنت کے سانچے میں ڈھلنے کا امکان کھو چکی ہے۔ عالم اسلام کے اتحاد کے لیے عصری تقاضوں کے مطابق نئے سیاسی اجتہاد کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی اجتہاد انفرادی نہیں اجتماعی صورت میں ہی نتیجہ بخش ہو سکتا ہے۔ عالم اسلام کی ذمہ دار اور مشترکہ قیادت کو مل جل کر دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق عالم اسلام کے اتحاد کے کسی فارمولے پر پہنچنا ہوگا۔
شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا جو عمل شروع ہوا ہے، ترکی نے اس کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ہے اس میں کوئی ہم آہنگی اور ایک اصول دکھائی نہیں دیتا۔ لیبیا میں عوام نے کرنل قذافی کے خلاف آواز اٹھائی تو پہلے ترکی نے کرنل قذافی کی حمایت کی، لیکن جب امریکا اور نیٹو نے کرنل قذافی کے خلاف فوجی اقدام کیا تو ترکی کا طرز عمل بھی تبدیل ہو گیا۔ بحرین کے مسئلے پر بھی ترکی کے متعدد راہنماؤں نے پہلے آل خلیفہ کے مظالم کی مذمت کی، لیکن بعدازاں اس نے چپ سادھ لی، بلکہ عملی طور پر آل خلیفہ کا ہمنوا بن گیا۔ دیگر کئی ممالک کے بارے میں بھی اس کا رویہ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اس خطے میں عوام اب بھی کئی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن انھیں ترکی کی زبانی تائید بھی حاصل نہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترکی واقعی شام کے عوام کا ہمدرد بن کر سامنے آیا ہے یا اس کے مقاصد کوئی اور ہیں۔
ترکی کو داخلی طور پر جس طرح کے مسائل درپیش ہیں، ان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت کرد علاقوں میں ترک حکومت کے خلاف بغاوت کا ہے۔ یہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ ایسے میں ترکی نے بغداد حکومت کی مخالفت کے باوجود اردبیل کی نیم خود مختار کرد حکومت سے روابط کا آغاز کیا ہے۔ ترکی اردبیل سے اپنی انرجی کی ضروریات کا ایک حصہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترکی نے اس سلسلے میں عراق کی مرکزی حکومت کی مخالفت مول لینے کا سنجیدہ فیصلہ کر لیا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب مثبت ہے تو ہمارے بعض اندیشوں کو مزید تقویت ملے گی۔ ترکی کو اس حوالے سے خاصا غور و خوض کرکے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرد اگرچہ ایران، عراق، شام اور ترکی میں تقسیم شدہ ہیں، تاہم کردوں کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں بستی ہے۔ ترکی نے اسی لیے کسی ملک میں بھی کردوں کی علیحدگی کی کسی تحریک کی تائید نہیں کی، کیونکہ اس صورت میں خود ترکی کے تقسیم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب تک ترکی عراق کی یکجہتی اور ایک حکومت پر زور دیتا چلا آیا ہے۔ اب اگر اس نے اردبیل کی حکومت سے الگ سے ڈیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ اس کے نتائج ترکی میں بسنے والے کردوں پر کیا ہوں گے، جن کے راہنماؤں کے خلاف ترکی کے اندر مسلسل عدالتی، فوجی اور سیاسی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
ترکی کے سیاست دان اور خاص طور پر موجودہ حکومت کے ذمہ داران عالمی سطح پر بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انھیں عالمی مدبرین کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ترکی کو اقتصادی لحاظ سے مشکلات سے نکالنے میں بھی موجودہ قیادت کا بہت حصہ ہے۔ ایسے میں اگر ترکی نے پھر سے نیٹو کو اپنے امور میں دخیل ہونے کا موقع فراہم کر دیا تو ہمارے نزدیک یہ عقل و دانش کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔
ہم نہیں سمجھتے کہ شام کے ساتھ مخاصمت میں ترکی کو اتنا آگے جانا چاہیے کہ پھر خود ترکی نیٹو کے رحم و کرم پر آجائے۔ ترکی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ شام اور ترکی کو بہرحال ساتھ ساتھ جینا ہے، جبکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے حصول کے بعد رفوچکر ہو جانا ہے، جیسا کہ اس نے افغانستان میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جیسا کہ امریکا اور اس کے حواریوں نے عراق میں کیا ہے۔ یہ تازہ ترین تجربے ترکی کو مثبت فیصلہ کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔