(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب نام نہاد خودمختار فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے بھی فرانس کی ان کوششوں کا ساتھ دیا ہے کہ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ محمود عباس بھی شکست خوردہ ساز باز کے عمل پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور اس راستے پر قدم بڑھانا چاہتے ہیں۔
اس تناظر میں پیرس محمود عباس کا میزبان تھا اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے محمود عباس کے ساتھ ملاقات میں فرانس کے اقدام کو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے بہترین راہ حل قرار دیا۔محمود عباس ایک ایسے وقت میں ساز باز کے عمل کی بحالی کے لیے فرانس کے توسط سے مغرب کے نئے اقدامات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ جب مشرق وسطی میں ساز باز کے عمل کے نتیجے نے ظاہر کر دیا ہے کہ مغرب کے اس منصوبے کی بنیاد، فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اور فلسطینی فریق پر بحران فلسطین کے بارے میں مغرب اور صیہونی حکومت کے تسلط پسندانہ نظریات مسلط کرنے پر استوار ہے۔
اس بنا پر ساز باز مذاکرات کے نتائج اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مختلف مواقع پر فلسطینی انتظامیہ نے صیہونی حکومت کو صرف امتیازات اور مراعات دی ہیں اور صیہونی حکومت نے فلسطینی علاقوں پر اپنے تسلط کو مضبوط بنانے کے لیے وقت حاصل کیا ہے۔
درحقیقت فلسطینیوں کے لیے ساز باز مذاکرات کے یہی مذموم اور خطرناک نتائج تھے کہ جن کی بنا پر نام نھاد فلسطینی انتظامیہ کے حکام نے ساز باز کے عمل کے لاحاصل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے حالیہ برسوں کے دوران فلسطینی رائے عامہ کے دباؤ کے تحت صیہونی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات کو روک دیا۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ ساز باز کے عمل کی تمام تجاویز ناقص تجویزیں ہیں کہ جن میں فلسطینی عوام کے اکثر حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ساز باز کے عمل کے احیاء کے لیے فرانس کی تجویز پر بھی اس میں پائی جانے والی بےشمار خامیوں اور فلسطینی عوام کے اکثر حقوق کو نظرانداز کرنے کی بنا پر فلسطینی رائے عامہ نے شدید تنقید کی ہے۔
واضح رہے کہ فرانس نے اپنی مجوزہ تجویز میں قدس کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مشترکہ دارالحکومت قرار دیا ہے اور فلسطینی آوارہ وطنوں کے اپنے وطن واپسی کے حق کو بھی نظرانداز کیا ہے۔
ایسے حالات میں ساز باز کے عمل کے بارے میں فرانس کی تجویز کہ جو مشرق وسطی میں ساز باز کے عمل کی اصلی تجویز سے کہیں زیادہ کمزور اور ناقص ہے، اصلی تجویز سے کہیں زیادہ خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے کہ جس سے فلسطینی عوام کے حقوق مکمل طور پر پامال اور ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
یہ بات طے ہے کہ ساز باز کے عمل کا مطلب، اس کی کسی بھی شکل میں، فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور فلسطینی عوام اس عمل کی نفی کر کے صیہونی حکومت کے مقابل استقامت و مزاحمت کو کہ جس کے فلسطینی عوام کے لیے بہت زیادہ نتائج نکلے ہیں، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔
فرانس کی تجویز کہ جس میں فلسطینی عوام کے بہت سے حقوق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہے کہ جب مشرق وسطی میں ساز باز کے عمل کی گزشتہ تجویز اور منصوبے کا صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور مخالفت کی وجہ سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
اس سلسلے میں فرانس سمیت صیہونی حکومت کے حامی اس ناجائز حکومت کی پیروی کرتے ہوئے، اس قسم کی تجاویز کہ فلسطینی مملکت انتہائی محدود اور عارضی سرحدوں کے ساتھ ہو، اس کی فوج نہ ہو اور اس کی خارجہ پالیسی بھی امریکہ اور صیہونی حکومت کی زیرنگرانی ہو اور اس کی فضائی سرحدیں اور حدود بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہوں، پیش کر کے عملی طور پر فلسطینی مملکت کی تشکیل کے موضوع کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب کچھ عرصہ قبل فلسطینی حلقوں نے ایک غیر خود مختار فلسطینی مملکت کی تشکیل کے بارے میں کہ جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہو، امریکی صدر باراک اوباما کی تجویز کی خبر دی تھی اور صیہونی حکومت اور مغرب کی سازشوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کو مزید ہوشیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔
(بشکریہ سحر نیوز)