:مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت
مسئلہ فلسطین آج دور حاضر میں زندہ رکھنا ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کوتاہی در اصل اسلام سے خیانت کے مترادف ہے ،مسئلہ فلسطین کی اہمیت و نوعیت کو عالمی استعمار امریکہ
و اسرائیل اور دیگر عالمی قوتوں نے ایک سازش کے تحت محدود کرنے اور دنیا کی توجہ فلسطین و القدس سے منحرف کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کی ہیں ان میں سے ایک بڑی اور اہم ترین سازش مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو کم سے کم کر کے بیان کیا جانا ہے مثال کے طور پر جب دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر سر زمین القدس پر جمع کیا گیا اور عربوں کی سرزمین یا جسے انبیاء و اسرایٰ کی سرزمین کہتے ہیں (فلسطین ) میں لا کر بسایا گیا اور بالآخر سنہ 1948ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آ گیا ۔اور اس کے بعد عالمی دہشت گرد امریکہ اور غاصب اسرائیل کی سر پرست یورپی قوتوں نے دنیا بھر کو اس مسئلہ کو فقط فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کوشش کی کہ اس مسئلہ کی طرف سے دنیا کی توجہ منحرف کی جائے ۔در اصل سر زمین فلسطین پر قائم ہونے والی غیر قانونی اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عالمی دہشت گرد امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی اور جس خطے میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا وجود عمل میں آیا وہاں کا جغرافیائی مطالعہ کیا جائے تو نہر سوئز جیسے اہم راستے اس کی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں تاہم اسی اہمیت کے حامل خطے میں صیہونی ریاست کا وجود بھی اسی سازش کے تحت وجود میں آیا ہے تا کہ خطے کے تمام تر معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے اور غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کے بعد سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی بات منظر عام پر آنا صیہونی دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے ۔صیہونی دہشت گردوں کی جانب سے ’’گرہتڑ اسرائیل‘‘ یعنی نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدیں ،اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عرب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ہے؟ یقیناًہر گز نہیں!!
دوسری جانب مسلم امہ کا قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی توہین اور بالخصوص 21اگست 1969ء میں یہودی انتہا پسندو ں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا جانے سمیت متعدد مرتبہ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے ۔القدس (یروشلم ) میں مسلمانوں کی 3000مقدس مقامات موجود ہیں جس کو غاصب اسرائیل نابود کرنا چاہتا ہے ۔
القدس جو کہ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کا بھی ایک عظیم شاہکار ہے کے حوالے سے روایات میں ملتا ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمر اکرم ؐ کی اولاد سے ایک فرزند جس کانام حضرت امام مہدی ہو گا وہ ظہور کریں گے اور قبلہ اول بیت المقدس میں امامت فرمائیں گے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ظہور کریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔اس روایت کو پڑھنے کے بعد قبلہ اول کی مذہبی اہمیت مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے تاہم یہ ایک ضروری امر ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروانا اور القدس کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ القدس کی اہمیت اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی نوعیت فقط فلسطینی اور اسرائیلی لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ اور مسلم امہ کا اول ترین مسئلہ ہے جبکہ عالمانسانیت کا مسئلہ ہے ۔
جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تحفظ دینے کے لئے ہر ممکنی اقدامات کئے ہیں وہاں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو محدود کرنے کے لئے بھی بھرپور گھناؤنی سازشیں کی ہیں ،مثلاً ایک مخصوص فکر و سوچ کو ترویج دیا گیا ہے جسکے تحت یہ کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین نہ تو انسانیت کا مسئلہ ہے اور نہ ہے مسلم امہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے اور پھر بتدریج اس مسئلہ کی نوعیت کو محدود کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین کی ایک تنظیم الفتح اور اسرائیل کے درمیان ہے جن کو آپس میں گفت و شنید کے ذریعے حل کر نا چاہئیے۔۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ صرف الفتح اور اسرائیل کے مابین ہے؟ یا یہ ایک عالمگیر اور انسانیت کا مسئلہ ہے؟
قارئین ! ایک اور بات جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور بشعور لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جانا چاہئیے تاکہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے۔لیکن ۔۔۔یہاں بات سنہ 1967ء کی سرحدوں کی نہیں ہے،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنہ 1948ء سے قبل یا اس سے بھی زیادی ماضی کی تاریخ میں چلے جائیں تو فلسطین نامی خطے میں کوئی اسرائیل نامی ریاست موجود تھی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسرائیل نامی کسی ریاست کا وجود ہونا ہی نہیں چاہئیے اور یہ ہے اس مسئلہ کا سیدھا اور آسان سا حل۔
قارئین! رمضان المبارک کا مہینہ چل رہاہے اور اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان روزہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اور ہر مظلوم ودکھی انسان کی خدمت کروں گا یقیناًاس ماہ مبارک کی برکتوں سے ہمیں فائدہ اٹھا نا چاہئیے اور اس ماہ مبارک رمضان میں فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کو نہیں بھولنا چاہئیے اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بھی اپنی دعاؤں اور زندگی میں یاد رکھنا چاہئیے اور القدس کو ہر صورت زندہ رکھنا چاہئیے۔ فلسطین کا مسئلہ اسلامی مسائل میں سر فہرست مسئلہ ہے جس کو اہمیت دینی چاہیئے۔ ایک زمانہ تھا جب اسرائیل کا منحوس وجود فلسطین کی سرزمین پر آیا ہے اور فلسطین اس مشکل کا شکار ہوا ہے۔
جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں نے مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازشیں کیں وہاں ایک مرد مجاہد جو سرزمین ایران سے نمودار ہوا اور دنیا اسے امام خمینی کے نام سے یاد کرتی ہے امام خمینی نے مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو نہ صرف ملت ایران میں زندہ کیا بلکہ امام خمینی جب نجف میں تھے یا فرانس میں تھے یا ترکی میں جلاوطن ہوئے، جہاں جہاں بھی امام خمینی گئے انہوں نے اس مسئلے کو سرفہرست رکھا اور جہاں امریکہ کے خلاف امام خمینی مسلسل بیانات دیتے رہے وہاں اسرائیل کو بھی اپنی اسلامی اور انقلابی تحریک کا سطح اول کا دشمن قرار دیا اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ فلسطین امام خمینی کی نگاہ میں بنیادی ترین اور سب سے فرنٹ محاذ تھا جس کو مسلمانوں کو فیس کرنا چاہیئے اور لڑنا چاہیئے اور ہر گز اسرائیل کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔ اسی عنوان سے امام خمینی نے ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان کیااور ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو فلسطینی عوام اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا دن قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس مسئلہ کو مسلم امہ کے درمیان زندہ کیا بلکہ عالم شرق و غرب میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو مزید تقویت فراہم کی ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں میں سارے مسلمان مل کر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اور صہیونیزم کے اس پلان کو جو انہوں نے فلسطین میں اجرا کیا ہے اسرائیل کے نام سے اسکو قبول نہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں او ر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے عنوان سے مناتے ہیں اور در اصل یوم القدس مناناعالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جہاد کے اعلان کا یوم ہے ۔بہرحال یہ امام خمینی رہ کا کارنامہ ہے کہ روز قدس کو پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ جہاں تک صیہونیزم کا تعلق ہے تو ایک بہت بڑا شبہ مسلمانوں کے ذہنوں میں ہے کہ فلسطین کوئی یہودی مذہب کو ماننے والے لوگ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو جنم دیا ہے، نہیں بلکہ قطعا ایسا نہیں ہے، ابھی بھی وہ یہودی موجود ہیں جو صہیونیوں کے خلاف اور خود اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، یورپ میں بھی موجود ہیں اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی ان کی باقاعدہ ٹیمیں بنی ہوئی ہیں اور تحریک ہے کہ جو اسرائیل کے بھی خلاف ہے اور صہپونیوں کے بھی خلاف ہے، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ صہیونیزم ایک تنظِم ہے کہ جو نہ صرف اسلام کے خلاف بلکہ وہ انسانیت کے خلاف اپنے مفادات کے حق میں انہوں نے اہدافات مقرر کئے ہوئے ہیں اور اس پلان کے تحت وہ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اور انکا بنیادی ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا پر صہیونیوں کا قبضہ ہونا چاہیئے۔ اور جہاں جہاں انکے مفادات ہیں، وہ اسکا تحفظ بھی کرتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کیلئے اگر آگے بڑھ سکتے ہیں تو آگے بھی بڑھتے ہیں۔ اسرائیل کا وجود خود صہیونیوں کا پلان تھا اور برطانیہ اور فرانس اس سازش میں شریک رہے ہیں، صہیونیوں نے انکے ساتھ مل کر پلان کیا۔ صہیونیوں کے ایک بڑے لیڈر "ہرٹزل” نے یہ بات بھی کی کہ یوگنڈا کو صیہونیوں کیلئے مرکز قرار دیا جائے اور وہاں اپنی حکومت کو قائم کیا جائے۔ ہرٹزل کے مرنے کے بعد صیہونیوں کی جو کانفرنس ہوئی اس میں اس بات کو رد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطین کو ہی اپنی حکومت کا مرکز بنانا چاہیئے اور وہاں پر تمام یورپی اور حتی افریقی ممالک اور جہاں جہاں بھی یہودی بستے ہیں جنکے پاس اپنا ملک نہیں ہے کے یہودیوں کو جمع کرنا چاہیئے اور فلسطین کو اپنا ملک قرار دیا جانا چاہیئے۔ لہذا یہ سازش، جس کو قبول کیا گیا اور یہ پلان کیا گیا کہ کس طرح سے فلسطین سے فلسطینیوں کو نکالا جائے، اور وہاں پر یہودیوں کی آبادکاری کی جائے اور انکی آبادی بڑھائی جائے۔
:صیہونزم
صیہونیزم در اصل یہودیوں میں ایک انتہا پسند تنظیم کا نام ہے جس کا ہدف صرف اور صرف پوری دنیا پر تسلط قائم کرنا ہے اور ایک عالمی حکومت کا قیام ہے جس کی باگ ڈور صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہو۔صیہونی نہ صرف عالم اسلام کو ہڑپ کرنے کے در پے ہیں بلکہ انہوں نے یہ منصوبہ سازی کی ہے کہ پہلے عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانو ں کے ممالک پر تسلط قائم کرو اور پھر بعد میں عیسائیوں کو بھی ختم کر دو۔
صیہونی اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں مثال کے طور پر سنہ 1948ء میں دیکھیں کہ کس طرح 15مئی 1948ء کو صیہونیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’ہگانہ ‘‘ نے ہزاروں فلسطینیوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔لہذٰا فلسطینیوں نے اس دن کو ’’یوم نکبہ ‘‘ یعنی بہت بڑی تباہی و بربادی کا دن قرار دیا ہے ۔اسی طرح صیہونیوں کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن میں صبرا و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں بد ترین اسرائیلی گولہ باری ہے کہ جس میں سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔اسی طرح سنہ 1982ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کو قبضہ ،جس کو بعد میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقاومت کی مدد سے سنہ 2000ء میں لبنان کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کروا دیا ۔اسی طرح سنہ 2006ء میں لبنان پر صیہونی فوجوں کا دوبارہ حملہ اور پھر سنہ2008ء میں غزہ پر حملہ اورغزہ کا پانچ سالہ محاصرہ اور پھر کاروان آزادی ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر دہشت گردانہ حملوں سمیت متعدد ایسی وارداتیں موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صیہونیت صرف کسی ایک خطے یا کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالم اسلام اور پوری انسانیت کی دشمن ہے۔
:مسئلہ فلسطین اور پاکستان
جہاں تک مسئلہ فلسطین اور پاکستان کی بات ہے تو حکومتی سطح پر تو تاحال پاکستان نے اسرائیل کی غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا جو ایک مثبت عمل ہے تاہم دوسری طرف پاکستان کے عوام ہیں جو فلسطین کے عوام سے والہانہ محبت و عشق رکھتے ہیں او ر یہی وجہ ہے کہ عوامی دباؤ کے باعث پاکستان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتی البتہ ماضی میں چند ایک ایسے خائن حکمران بھی گذرے ہیں کہ جنہوں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعے یا براہ راست غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں تاہم سلام ہو ملت عظیم پاکستان پر کہ جس نے ہمیشہ ایسے خائن حکمرانوں کی سرزنش کی اور فلسطین و القدس کو اپنے دلوں میں زندہ رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے ۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک نظریاتی ملک بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو نظریات کے نام پر سامنے آیا، صیہونی اور یہودی نظریات کی بنیاد پر، دوسری طرف پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہاں کی اقدار اور مذہبی عادات و رسوم دیگر اسلامی ممالک کے درمیان ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ یہاں کی مذہبی اقدار، لوگوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی جذبات، ہمارا لباس، ہمارا رہن سہن، ہمارا پورا کلچر مذہبی ہے۔ اس کے علاوہ خود پاکستان نے جو ترقی کی اس میں ایک اہم مسئلہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ کیلئے بھی انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس دن سے پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ہوا ہے امریکہ کو کچھ زیادہ ہی تشویش ہو چلی ہے اور اسی طرح یورپ اور بالخصوص اسرائیل کو تو زیادہ ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جہاں جہاں بھی ایٹمی طاقت موجود ہے اس کو یورپ، امریکہ اور صیہونی طاقتیں کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسی جگہوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ اسرائیل کو یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ایک نہ ایک دن غاصب اسرائیل جو کہ لاکھوں فلسطینیوں کا خون چوس رہا ہے کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے لہذٰا عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے روز اول سے ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کو عروج پر پہنچانے میں امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے بھرپور کام کیا ہے اور پاکستان میں لسانی،فرقہ وارانہ اور غرض ہر نوعیت کے اختلافات کو ہوا دی ہے تا کہ پاکستان کے لوگ اسی میں الجھے رہے ہیں مسئلہ فلسطین و آزادئ القدس کی توجہ مبزول کرنے سے قاصر رہیں۔
مشرق وسطی عالم اسلام کا قلب ہے، فلسطین عالم اسلام کا قلب ہے، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین عربوں کی تھی، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین موحدوں کی تھی، تاریخی لحاظ سے یہ سرزمین مسلمانوں کی ہے۔
:جمعۃ الوداع یوم القدس یوم اللہ یوم رسول اللہ اور یوم اسلام
اسرائیل کے ساتھ ماضی میں ہونے والی جنگوں میں عربوں کی شکست کے بعد مسئلہ فلسطین ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اسرائیلی فوج کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہو چکا تھا کہ "جیش الذی لا یقہر” (وہ فوج جس پر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی)، اسرائیل کی ایسی فوج ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ لہذا سب اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے، کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہو چکا تھا، بعد میں مزید کانفرنسز ہو چکی تھیں جن میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیاجا چکا تھا،عرب سر تسلیم خم ہو چکے تھے کہ ہم اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا، اب اس سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ لہذا یاسر عرفات، جس نے اسلحہ کبھی زمین پر نہیں رکھا تھا، اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہو گیا اور پھر مذاکرات کی سازش شروع ہو گئی۔ آہستہ آہستہ مسلمان قضیہ فلسطین کو بھولتے چلے گئے اور سب کہنے لگے کہ مسئلہ فلسطین کو اب ختم ہونا چاہیئے تاکہ جنگ ختم ہو جائے۔ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیئے۔ حتی پاکستان جیسے ملک میں حکام ایسی باتیں کرنے لگے اور آہستہ آہستہ ایسا کلچر رائج کیا جانے لگا کہ اسرائیل کو قبول کر لینا چاہیئے، فلسطینی اسرائیل کے خلاف دہشت گردی میں مصروف ہیں، بمب دھماکے ہو رہے ہیں، فلان ہو رہا ہے۔ آہستہ آہستہ مسلمان اس بات کو قبول کرنے لگے کہ اسرائیل نامی کوئی حکومت موجود ہے، کوئی ملک موجود ہے، جسے ہمیں قبول کر لینا چاہیئے، اور اب فلسطین کا مسئلہ حل ہو جانا چاہیئے۔ اس وقت میں امام خمینی نے اس تبلیغ کو زندہ کیا، فلسطین کا نعرہ بلند کیا، صہیونیوں کے خلاف آواز بلند کی، اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی۔ امام خمینی نے یہ اعلان کیا کہ اگر تمام مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل کے اوپر ڈالیں تو اسرائیل نابود ہوجائے گا، اور اسرائیل ایک سرطانی ٹیومر ہے، اسکو کاٹ کر پھینک دینا چاہیئے۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کیا، اعلان برائت کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف بیداری ایک لہر پیدا ہو گئی۔ لہذا امام خمینی کی طرف سے ’’یوم القدس‘‘ کا اعلان کرنا باعث بنا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس آہستہ آہستہ ایران سے شروع ہو کر آج افریقہ، یورپ، امریکہ، ایشیا سمیت تمام دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ اس دن عالم اسلام صیہونیوں اور امریکیوں کے خلاف اعلان برائت کرتا ہے اور فلسطین کی حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں کانفرنسز منعقد ہو رہی ہیں، مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ یہ سب امام خمینی کے اسلامی انقلاب کی بدولت ہے، اس جہاد کی بدولت ہے جو انہوں نے اسرائیل کے خلاف شروع کیا۔ امام خمینی نے سیاسی اور عملی لحاظ سے فلسطینیوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں آج مسئلہ فلسطین زندہ ہے ورنہ عرب اس مسئلے کو ختم کر چکے تھے اور یہ طے کر چکے تھے کہ اب اسرائیل سے مقابلہ نہیں ہو سکتا اور اسے تسلیم کر لینا چاہیئے۔ بہرحال آج اگر فلسطین کا مسئلہ زندہ ہے، فلسطینی تحریک اگر زندہ ہے، فلسطینی انتفاضہ اگرزندہ ہے تو وہ امام خمینی کی بدولت ہے، انکی اخلاقی اور سیاسی حمایت کی بدولت ہے۔ اس بات کا اعتراف خود فلسطینی مسؤلین بھی کرتے ہیں۔ آپ حماس کے مسؤلین کو دیکھءِے یا جہاد اسلامی کے مسؤلین کو دیکھئے، جو عوام کے نمائندے ہیں جنہوں نے جہاد کا علم بلند کیا ہوا ہے، آپ انکے بیانات دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ انہیں فلسطین کے مسئلے میں تن تنہا پوری دنیا میں اگر کوئی سپورٹر نظر آتا ہے تو وہ ایران ہے اور دوسرے مرحلے پر شام ہے۔ شام نے بھی ایران کی وجہ سے آج اسرائیل کے خلاف قیام کیا ہوا ہے۔اور یہی وجہ ہے آج شام کو فلسطینی کاز کی حمایت کرنے کے جرم میں سزا دی جا رہی ہے اور امریکی و اسرائیلی ایجنٹ دہشت گرد شام میں عوام کا قتل عام کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شام کی حکومت کمزور ہے لہذٰا یہاں تبدیلی ہونی چاہئیے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تبدیلی ایران میں بھی آئی تھی،تیونس میں بھی آئی،مصر میں بھی آئی لیکن کیا وہاں کے عوام نے بم دھماکوں اور امریکی کمپنیوں کے بنے ہوئے جدید اسلحہ کی مدد سے اپنے ہی ملکوں کے عوام کا قتل عام کیا؟؟؟؟ جی نہیں !! ہر گز نہیں!! بلکہ عوامی انقلاب میں تو عوام جد وجہد کرتے ہیں نہ اسلحہ لے کر افواج پر حملے اور عام شہریوں کا قتل عام اور دوسرے ممالک کے افراد کو اغوا کر کے ملک کو بدنام کرنا۔۔یہ سب دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں جو شام میں ہو رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل اور ان کے حواری ہیں جو نہیں چاہتے کہ شام سے فلسطین کاز کی مضبوط حمایت ہو لہذٰا ایک سوچے سمجھے نا پاک منصوبے کے تحت شام کے حالات کو خراب کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے ک وہاں ڈکٹیٹر شپ ہے اگر شام میں ڈکٹیٹر شپ ہے تو دیگر عرب ممالک بشمول سعودی عربیہ،بحرین ،امارات اور دیگر ممالک میں بھی ڈکٹیٹر شپ موجود ہے تو پہلے وہاں بھی اصلاحات کی جانی چاہئیں پھر شام کی بات ہونی چاہئیے شام اور دیگر عرم ممالک میں ایک واضح امتیاز یہی ہے کہ شام حکومت نے ہمیشہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور عملی جد وجہد میں شریک رہا ہے ہے جبکہ دیگر عرب ممالک نے نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کی حمایت نہیں کی بلکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی قائم کئے ہیں در اصل یہ عرب ممالک اور ان کے خائن حکمرانوں نے فلسطینیوں سے خیانت نہیں کی بلکہ اسلام و اللہ سے خیانت کی ہے جس کا حساب انہیں جلد دینا ہو گا۔
:یوم القدس اور مسلم امہ کا فریضہ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں’’جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں کوئی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں‘‘۔ لہذا امام خمینی نے صیہونیزم اور اسرائیل کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے وہ یقیناً رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی قول کا نتیجہ ہے اور انکے امر کی تعمیل کیلئے امام خمینیؒ اٹھے ہیں اور اسکی تعمیل تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر ہم فلسطینیوں کی سپورٹ کئے بغیر، فلسطینیوں کا درد رکھے بغیر، نمازیں پڑھتے ہیں تو ان نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ہم روزے رکھتے ہیں تو ہمارے روزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حالات سے آگاہی نہ ہو، انکے دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو یہ فردی عبادات ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی جب تک ہم اجتماعی عبادات کو انجام نہیں دیتے۔ اجتماعی عبادات میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے، فلسطینی ملت کا مسئلہ ہے۔ خود فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جو تمام عالم اسلام کے مفادات کا مرکز ہے۔ اگر ہم نے فلسطین کی حفاظت کی تو عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کی اور اگر ہم نے فلسطین کے مسئلے سے چشم پوشی کی تو ہم نے عالم اسلام کے مفادات سے چشم پوشی کی۔ لہذا فلسطینی عوام کی مدد اور انکی کمک، ان کیلئے آواز بلند کرنا، ان کیلئے نعرہ بلند کرنا، انکے حق میں نعرہ بلند کرنا، اسرائیل کے خلاف نعرہ بلند کرنا، امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگانا بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر ہم یہ کر سکے تو یقیناً عالم اسلام اجتماعی لحاظ سے بہت ترقی کرے گا اور استحکام حاصل کرے گا۔ اور اگر ہم اپنے اس وظیفے کو انجام دینے میں ناکام رہے تو اس کے نتیجے میں تمام عالم اسلام کمزور ہو گا، اسلام ممالک کمزور ہوں گے، اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں اسرائیل کا ہدف صرف فلسطین نہیں تھا بلکہ آپ نے دیکھا مصر کے علاقے پر بھی اس نے قبضہ کیا، اردن کے علاقے پر بھی قبضہ کیا، لبنان کے پورے علاقے پر انہوں نے قبضہ کیا، لبنان کے اوپر قبضہ کر لیا تھا، حزب اللہ کی برکت سے اسرائیل پیچھے ہٹا ہے اور ابھی شیبا فارمز تک محدود ہو گیا ہے۔ لہذا اگر ہم اس صیہونی سرطانی ٹیومر کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس کو اکھاڑ کر نہیں پھینکیں گے تو آہستہ آہستہ تمام اسلامی ممالک کمزور ہو جائیں گے۔ لہذا ہم سب کا شرعی اور قانونی فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین کا دفاع کریں، فلسطین کے حق میں ان کی حمایت کریں، ان کیلئے نعرے لگائیں اور اسرائیل کے خلاف قیام کریں اور عملی جدوجہد کریں۔ یوم القدس کے حوالے سے بھی امام خمینی نے جو اعلان کیا ہے تو انہوں نے ہمارے لئے بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کر سکیں۔ یہ ایک واجب شرعی اور شرعی ذمہ داری ہے، جس طرح سے نماز ہم پر واجب ہے، روزہ ہم پر فرض ہے، حج ہم پر فرض ہے، اسی طرح سے فلسطینی عوام اور قوم اور بیت المقدس کا دفاع کرنا اور انکی حمایت کا اظہار کرنا ہم پر واجب ہے۔
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے یوم القدس کے موقع پر خصوصی مقالہ