قبلہ اوّل کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدیس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رُخ کرکے اولین و سابقین مومنوں نے
امام المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کیں، خداوند قدوس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا، جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے۔ خاصانِ خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔
بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے، جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلا دی، جو جہت تقدیس ماب مدتِ مدید سے خدا پرست افراد کے واسطے حق نماء ثابت ہوا، جس نے پریشان فکروں کو وحدت کے نکتے پہ مجتمع کیا، وہی قبلہ اوّل آج صیہونیت کے نرغے میں ہے اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کر رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان کی حالت زار پر نوحہ کناں بھی ہے۔
یقیناً ہر باغیرت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ اس کا مرکز اول اسلام کے سب سے خطرناک اور دیرینہ دشمن کے قبضے میں ہے133 ایک ایسا دشمنِ جان و ایمان کہ وہ جب چاہے بے حرمتی کا مرتکب ہوسکتا ہے، بلکہ اسی تاک میں ہے کہ اسے مسجد اقصٰی کی مسماری کا موقع فراہم ہو جائے۔
ظاہر ہے کہ صہیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ عالم اسلام کے نزدیک بیت المقدس کا مسئلہ کافی حساسیت کا حامل ہے، لہٰذا اس مکار حکومت نے بھی اپنی توسیع پسندی کے ایجنڈے میں یروشلم کو ہی مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے، جس طرح عیسائی پادری اور حکمران صلیبی جنگوں سے قبل اور ان جنگوں کے دوران عیسائیوں کو غلط بیانی کے ذریعے اکساتے تھے کہ وہ اس مقدس شہر کے حقیقی وارث ہیں، نیز اسی شہر میں حضرت مسیح (ع) دوبارہ ظہور فرمائیں گے، وہ ہرسال اپنے پیروکاروں سے کہتے تھے کہ اگلے سال حضرت عیسٰی (ع) کا ظہور اسی شہر میں ہوگا، لہٰذا اس شہر کا ہمارے قبضے میں ہونا نہایت ہی اہم ہے۔
اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈبن گوریان نے صہیونی ایجنڈے کی سنگ بنیاد اس بیان سے ڈالی تھی کہ یروشلم یہودی ریاست اسرائیل کا جزو لاینفک ہے، حالانکہ اقوام متحدہ نے اس شہر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر یروشلم کو Corpus Separation یعنی ’’جدا گانہ شہر‘‘ قرار دیا تھا اور یہ بات بہ اتفاق رائے اقوام متحدہ میں طے پایا تھا کہ اس پر یہودی یا عرب حکمرانی کے بجائے اقوام متحدہ کے ماتحت ایک بین الاقوامی حکومت ہوگی، لیکن اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی کے بل پر ابتداء سے ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو درخور اعتناء نہ جانا اور مسلسل اس کی خلاف ورزی کرتا آ رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں بھی رسماً اسرائیل کے خلاف قراردادوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، غالباً اسرائیل دنیا بھر میں واحد ریاست ہے کہ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ہوئیں۔ بہر عنوان اسرائیل کی یہی کوشش رہی کہ یروشلم ان کے ناجائز قبضے کے پرکار کا مرکزی نقطہ رہے، مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ان کے زیر نگین رہیں، اس سلسلے میں غاصب اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے متعلق یہ تصور پیش کیا کہ یہ شہر یہودی ریاست کا دارالحکومت ہوگا، 1992ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ ’’ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادین (سیکولر) اس کا عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاؤں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو‘‘۔
صیہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرح) بلکہ اس سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات کئے، مکاری اور فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے، فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدومد سے بسایا، وقتاً فوقتاً اس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوشش کیں۔ حتیٰ کہ مسجد اقصٰی میں آگ بھی لگا دی، اسرائیل کی نیت اور کارروائیوں کے پیش نظر 1986ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 19 کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی، جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی، بارہا مسجد اقصٰی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔
قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قرب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا، تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں تو دوسری جانب حضرت ابراہیم (ع) کی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت جگر قبلہ اول کے تحفظ پر قربان کر دیئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں ابھی رنگ لاتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہیں، کیونکہ ماسوائے چند مسلم ممالک کے باقی ملک فلسطینیوں کی نمائندگی اور حمایت کرنے سے کترا رہے ہیں۔
مسجد اقصٰی کے در و دیوار مظلوم فلسطینیوں کی حالتِ زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور مسلم حکومتوں کے نام نہاد سربراہ اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں، ان شعائراللہ کا اغیار کے قبضے میں ہونا اور ان کی روزانہ توہین دراصل مسلمانانِ عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے۔
جہاں تک مسجد اقصٰی کی بازیابی کا تعلق ہے، یہ کسی خاص خطے یا فرقے کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے، بلکہ مذہبی اور اخلاقی طور پر تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں، جو جذباتی وابستگی، روحانی دلبستگی اور قلبی احترام کسی عظیم خانہ خدا کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، وہی احترام و تقدیس جب قبلہ اول کے حوالے سے پایا جانا چاہیے اور ہے بھی، تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں اور بیت المقدس کی صہیونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی منظم اور عالم گیر تحریک کیوں چلائی نہیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں بالخصوص مشرق وسطٰی اور عرب ریاستوں کے حکمران سرد مہری کا شکار دکھائی دے رہے ہیں؟
یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں نہ کرے کہ ایک طرف عہد حاضر کا ابرہہ جدید کیل کانٹوں سے لیس ہو کر اور عالمی طاغوت کی پشت پناہی کے بل بوتے پر برسوں سے مرکز اول پر قابض ہے اور دوسری جانب عالم اسلام کے لیڈر محض خاموش تماشائی بننے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں، اس قماش کے حاکمان ملت کی یہ نفسیات کسی بھی سلیم الفطرت مومن سے پوشیدہ نہیں کہ یہ حضرات حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے غیر حقیقی طرز عمل اپنا کر محض زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ رب لامکان چاہے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزہ ابابیل دہرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کراسکتا ہے، لیکن اس کا اپنا ایک اٹل قانون اور سنت الہیٰہ یہ ہے کہ عمل اور ثمر باہم دیگر مربوط رہیں۔
بہرصورت قابل توجہ بات یہ ہے کہ کم و بیش اٹھاون (58) ممالک پر مشتمل ایک اَرب سے زائد مسلمانوں کا وظیفہ عمل کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر ابرہہ کی یورش کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاقصٰی کے گردا گرد صہیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے، اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پہچان، برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں اور اللہ کے گھر کی محافظت ان کی دینی اور ملی ذمہ داری ہے، یقیناً اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے، لیکن اس الہٰی قانون سے یہ ملت بھی مستثنٰی نہیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
جب کوئی قوم یا فرد کسی ایسے اہم ترین مسئلے کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو جان لیجئے وہ اپنے دشمن کو غیر شعوری طور یہ پیغام دیتا ہے کہ اس ملت کے ساتھ کسی بھی قسم کی دست درازی آسان سی بات ہے، اسی غیر سنجیدگی، سرد مہری اور جمود زدگی کا منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ آج برمی مسلمانوں کے خلاف بہیمانہ اور قاتلانہ نسلی تطہیر کا پروگرام بلا کسی مزاحمت کے چلایا جا رہا ہے۔