(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) دو برس قبل امریکہ نے مسئلہ فلسطین کے عنوان سے ایک امن منصوبہ متعارف کرواتے ہوئے فلسطین کے دارلحکومت یروشلم (القدس) کی طرف امریکی سفارتخانہ کو منتقل کرنے کا اعلان کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی فلسطینی دارلحکومت کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کا اعلان کردیا۔
اس اعلان پر اگر چہ دنیا بھر کی اقوام اور حکومتوں نے امریکی صدر کے فیصلوں کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی واضح اکثریت سے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا گیا۔ امریکہ جو کہ دو سو سالہ ایسی تاریخ کا حامل ہے کہ جس میں صرف اور صرف ہمیں دنیا کی دیگر اقوام کے خلاف امریکی جارحیت ہی ملتی ہے۔کبھی فوجی چڑھائی کے ذریعہ تو کبھی ممالک پر مہلک اور خطر ناک جان لیوا ہتھیاروں کے استعمال سے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں ضائع ہوتی نظر آتی ہیں۔چیدہ چیدہ ممالک میں پاکستان بھی سرفہرست رہا ہے کہ جہاں امریکی ڈرون حملوں نے متعدد بے گناہوں کو بھی قتل کیاہے۔اس کے علاوہ عراق، افغانستان، شام، لبنا، ویتنام، ہیروشیما، ناگا ساکی سمیت افریقی ممالک کی فہرست موجود ہے کہ جہاں امریکی ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہیں۔
ظلم و جبر کی دو سوسالہ تاریخ رکھنے والی امریکی حکومت فلسطین کے مسئلہ میں بھی صہیونیوں کی مدد گار رہی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے لاکر بسائے جانے والے صہیونیوں کی پشت پناہ رہی ہے۔ فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کی بھرپور حمایت کرنے والی امریکی حکومت ہی تھی۔آج یہی امریکی سامراجی نظام ایک امن منصوبہ بنام ’صدی کی ڈیل‘ کے ذریعہ صہیونی غاصبوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں ہے۔اس منصوبہ کے تحت امریکی حکومت کی یہ خواہش ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کو دنیا کی سیاست سے ختم کر دیا جائے۔اور فلسطین میں لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فلسطین سے نواز دیا جائے اور بدلہ میں خطے میں امریکی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے اسرائیل جیسی خونخوار ریاست کا استعمال بروئے کار لایا جائے۔
در اصل امریکی سامراجی نظام نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ اپنی ماضی کی ان تمام تر کوششوں اور منصوبوں کی ناکامی کے بعد متعارف کروایا ہے کہ جن میں پہلے جنگیں مسلط کی گئیں، بعد میں فلسطین اور گرد ونواح کے پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا گیا اور اس میں بھی ناکامی کے بعد داعش جیسے منصوبہ کو متعارف کیا تاہم بعد ازاں یہ داعش نامی منصوبہ بھی خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کے بلاک نے نابود کر دیا ہے۔اب فلسطین سمیت خطے پر مکمل تسلط کے خواب کو پورا کرنے کے لئے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ سامنے لایا گیا ہے۔اس منصوبہ پر عمل درآمد کرنے کے لئے امریکہ نے عرب ممالک کے کردار کو بھی اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ رکھا ہے اور اس عنوان سے محمد بن سلمان اور جیرڈ کشنر دونوں ہی نہایت سرگرم رہے ہیں اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عرب دنیا کے ممالک صدیکی ڈیل کو تسلیم کر لیں۔
یہاں پر ایک بات جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ کا حل کسی بھی جانب سے پیش کیا جائے اس میں یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئیے کہ آیا فلسطین کے عوام اس منصوبہ پر کس قدر اعتماد کرتے ہیں اور آخر فلسطینیوں کی رائے کیا ہے؟ کوئی بھی ایسا منصوبہ جو فلسطینیوں کی رائے اور ان کی اعتماد سازی کے بغیر کسی بھی جانب سے پیش کیا جائے گا وہ کار آمد نہیں ہو سکتا ہے۔لہذا امریکی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ یعنی صدی کی ڈیل بھی ردی کی ٹوکری میں رکھنے کے لئے ہے۔کیونکہ فلسطینی عوام نے یک زبان ہو کر صدی کی ڈیل کو فلسطین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش قرار دی ہے اور اس منصوبہ کو ایک سو سال قبل بالفور اعلامیہ جیسے خطرناک منصوبہ سے تشبیہ دی ہے۔بالفور اعلامیہ نے سنہ1917ء میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا اور اب صدی کی ڈیل نامی یہ منصوبہ امریکی اور عرب ممالک کی جانب سے فلسطین کے مسئلہ اور فلسطین کو دنیا کی سیاست سے نابود کرنے کے مترادف ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک جو امریکہ کے اس منصوبہ میں امریکی سامراجی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ایک لمحہ کے لئے بھی فلسطینیوں کے حقوق کی پرواہ نہیں کر رہے ہیں۔امریکہ اور چند عرب ممالک مل کر فلسطین کا سودا کر رہے ہیں اور اس سودے کا خریدار کوئی اور نہیں پہلے سے ہی فلسطین کی سرزمین پر غاصب و قابض اسرائیل ہے۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اب مسلسل اسرائیل اور عرب امارات کے عہدیداران کی ملاقاتوں کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔سوال یہ ہے آج تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے والوں کو کیا حاصل ہو اہے جو اب متحدہ عرب امارات حاصل کرے گا؟دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جب اسرائیل تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر آ پہنچا ہے کہ جب وہ اپنے وسیع تر اسرائیل کے خواب کو مکمل نہیں کر پا رہا بلکہ اس سے الٹ اپنے ہی گرد دیواروں کا جال بچھا کر خود کو محدود کر رہا ہے تو ایسے حالات میں متحدہ عرب امارات جیسے ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا اور تعلقات قائم کرنا کیا اسرئیل کو سہارا دینے اور خطے میں اسرائیلی دہشت گردی کو توسیع دینے کے لئے تو نہیں ہے؟ تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نے خلیج عرب دنیا کی سیکورٹی کو مزید خطرات میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ نہ صرف خلیج بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے اہم ملک کے لئے مزید خطرات جنم لیں گے۔
امریکہ اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے لئے راستے ہموار کرنے کے بارے میں خود غاصب اور جعلی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی کہا ہے کہ اگرامریکہ اور عرب ممالک اسرائیل کی اس وقت میں حمایت نہ کرتے تو اسرائیل بہت پیچے چلا جاتا اور فلسطینی تحریک آزاد ی عنقریب اسرائیل کو نابود کر ڈالتی۔یہ بات نیتن یاہو نے امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر اوراور امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اسرائیل کے لئے راستہ فراہم کر دیا ہے کہ وہ دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرے اور عالمی سطح پر سنہ1967ء تک اسرائیل کی واپسی کے مطالبہ کو بھی دفن کر دیاہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر متحدہ عرب امارات اس وقت اسرائیل کا ساتھ نہ دیتا تو فلسطینیوں کی تحریک اسرائیل کے لئے سنگین خطرہ بنتی اور اسرائیل کا وجود باقی رہنا مشکل تھا۔لہذا عرب امارات نے اسرائیل کو بچا لیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے نہ صرف فلسطین کے ساتھ بلکہ تحریک آزادی فلسطین کے ہزاروں شہداء کے خون کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے دنیا بھر کی مسلمان اقوام کے ساتھ خیانت کی ہے اور خود اپنے ماتھے پر ایک ایسے سیاہ کلنک کو لگایا ہے کہ جو کبھی بھی ان کے چہرے سے دور نہیں ہو گا۔ فلسطین،فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صہیونیوں کی ایک جعلی ریاست ہے جسے آج نہیں تو کل آخر کار نابود ہونا ہی ہے۔
تحریر:ڈاکٹرصابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان