تحریر: عرفان علی
جمعرات 29نومبر2012کو اقوام متحدہ میں فلسطین کونان ممبر آبزروراسٹیٹ (یعنی غیر رکن مبصر ملک) کا درجہ دے دیا گیاہے۔ 138رکن ممالک نے فلسطین کو غیر رکن مبصر کی حیثیت دینے کی حمایت میں ووٹ ڈالے ۔ جنرل اسمبلی میں اس معاملے پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے 41ممالک نے گریز کیا ۔ ان میں برطانیہ اور جرمنی سمیت یورپی یونین کے 12ممالک بھی شامل تھے۔امریکا، اسرائیل ، کینڈا، مارشل آئی لینڈ ، پناما، مائیکرونیشیا، ناﺅرو اور پلاﺅنے مخالفت میں ووٹ ڈالے ۔ چیک ری پبلک یورپی یونین کا واحد ملک تھا جس نے فلسطین کی کھل کر مخالفت کی اور اسرائیل کا ساتھ دیا۔ یوکرائن سمیت 5ممالک غیر حاضر رہے۔فلسطین اور اقوام متحدہ کے روابط کے ضمن میں یاد رہے کہ1974ءمیں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیا گیا تھا لیکن اس حیثیت کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں کوئی وضاحت موجود نہیں تھی ۔ فلسطینی مشن کو اقوام متحدہ کے نظام میں بعض ایسی سہولیا ت 1988میں دی گئیں جو رکن ممالک کو دی جاتی ہیں۔ اس حیثیت میں وہ جنرل اسمبلی کی بحث میں شرکت کر سکتے تھے اور اب ان کی حیثیت وے ٹیکن کی حیثیت کے برابر ہوگئی ہے ۔ سوئٹزرلینڈ جیسا اہم ملک بھی 50سال سے زائد عرصے تک غیر رکن مبصر تھا اور 2002میں اسے اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی ۔
ستمبر 2011میں فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں رکنیت کے لئے درخواست جمع کروائی تھی ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15اراکین (5مستقل اور 10غیر مستقل ) نے اس کا فیصلہ کرنا تھا ۔ امریکا نے فلسطین کی رکنیت کو ویٹو پاور کے استعمال کے ذریعے مسترد کرنے کی دھمکی دی تھی ۔لہٰذا فلسطین کو مکمل رکنیت نہیں مل سکی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے193اراکین میں سے 130سے زائد اراکین نے فلسطینی ریاست کی رکنیت کی حمایت کی تھی ۔
محمود عباس، یاسر عرفات کی رحلت کے بعد سے تاحال تنظیم آزادی فلسطین کے چیئر مین ہیں ۔ یاسر عرفات کے دور میں اسرائیل کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے پر انہوں نے ہی دستخط کئے تھے ۔ فلسطین کے لئے غیر رکن مبصر کی حیثیت سے جرائم کی عالمی عدالت (انٹر نیشنل کرمنل کورٹ )میں اسرائیل کے خلاف وار کرائمز کا مقدمہ درج کرانے کے امکانات اب زیادہ ہوچکے ہیں ۔ اپریل میں اس کورٹ نے 2008-09کی غزہ جنگ پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ فلسطین کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں تھا۔ البتہ اب یہ امکانات ہیں کہ انہیں کریمنل کورٹ اور دیگر اداروں میں بھی رکنیت حاصل ہوسکے گی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 31اکتوبر 2011کو فلسطین کی مکمل رکنیت منظور کر لی تھی ۔ امریکا یونیسکو کے بجٹ کا 22فیصدتقریباً 7کڑور ڈالر ادا کرتا تھا، فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کے فیصلے کے خلاف امریکا نے یہ امداد روک لی تھی ۔
حمایت اور مخالفت میں ووٹ ڈالنے والے اور ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کرنے والے کئی ممالک کے سفارتکاروں نے مسئلہ فلسطین پر جنرل اسمبلی میں خطاب کیا۔ غیر وابستہ تحریک کی جانب سے ایران کے سفیر اورآرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی جانب سے جبوتی کی سفیر نے فلسطین کے سوال پر ان بین الاقوامی اداروں کی نمائندگی کی اور جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کیا ۔ایرانی سفیر محمد خزاعی نے اسرائیل کے طویل فوجی قبضے ، غیر قانونی پالیسیوں اور حرکتوں کی مذمت کی ۔ قابل مذمت حرکتوں میں فلسطینی شہریوں اور شہری آبادیوں پر فوجی حملے بھی شامل ہیں ۔
غیر وابستہ تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے ایرانی سفیر نے غزہ میں سیز فائر کوسراہا اور اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی کا غیر قانونی محاصرہ فوری طور پر ختم کرے ، سارے کراسنگ پوائنٹس کھول دے ، بین الاقوامی قوانین کی رو سے اپنے فرائض بجالائے اور سکیورٹی کونسل کی قرار داد نمبر 1860 (2009) اور دیگر قراردادوں پر عمل کرے ۔ انہوںنے غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر اور مقبوضہ فلسطین بشمول مشرقی یروشلم (یعنی بیت المقدس )کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کی شدید مذمت کی اور بین الاقوامی برادری سے کہا کہ یہ حرکتیں کسی صورت تسلیم نہ کی جائیں ۔ اپنی قومی حیثیت میں خطاب کرتے ہوئے محمد خزاعی نے فلسطینیوں کو ان کی تاریخی کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا کہ فلسطینیوں کے جائز مطالبات کو نظر انداز کرنے سے مسئلہ فلسطین کے عادلانہ حل کی سمت پیش رفت نہیں ہوسکے گی۔
آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی نمائندگی کرتے ہوئے جبوتی کی سفیر قادرہ احمد حسن نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر ، نسلی بنیادوں پر تعمیرکی گئی دیوار، یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوںپر بڑھتے ہوئے حملے اور فلسطینیوں کے گھروں اور زمینوں کو ان سے چھین لینا ، یہ کارروائیاں امن کے امکانات کو رد کرتی ہیں ۔ انہوں نے پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو غزہ میں محصور کرنے کی اسرائیلی پالیسی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کا محاصرہ اور وہاں فوجی حملے ،جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ احمد دوغلو نے مسئلہ فلسطین کو ساری انسانیت کے ضمیر میں بہتا ہوا خون قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطین کی مکمل رکنیت کی سمت پہلا قدم ہے ۔ لیکن ترکی کے اتحادی ملک امریکا کی سفیر سوسن رائس نے وہیں واضح کردیا کہ جنرل اسمبلی کے ہال میں بیٹھ کر ہرا بٹن دبانے سے یا کسی قرارداد کی منظوری سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اب فلسطین کو مکمل رکنیت کی اہلیت حاصل ہوگئی ہے۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی سارے معاملات صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ طے کریں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹوپاور (حق استرداد)رکھنے والے اہم ملک روس کے سفیر نے فلسطین کی نئی حیثیت کو سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس نے حمایت میں ووٹ ڈالا ہے۔روس نے1988ءمیں فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کو تسلیم کیا تھااور وہاں فلسطینی سفارتخانہ کام کررہا ہے۔ یورپی یونین کے نمائندے تھامس میئر ہرٹنگ نے کہا کہ وہ ©©”برلن اعلامیہ©“ کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔
عرب دنیا کے اہم ملک مصر کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ موتاذ احمدین خلیل نے کہا کہ اسرائیل ایسے مذاکرات کرتا ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ انہوں نے صہیونی اسرائیل اور امداد دینے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں پر دباﺅ نہ ڈالیں اور انہیں اپنے حقوق کے استعمال سے نہ روکیں۔شام کے سفیر بشار جعفری نے بیت المقدس دارالحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی رکنیت کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی سے مشروط قرار دیا گیا تھالیکن نہ تو آج تک فلسطینی ریاست قائم ہونے دی گئی نہ ہی پناہ گزین فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس آنے دیا گیا۔
تقریباً سارے عرب اور مسلم ممالک نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ سارے مقبوضہ علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے ۔وہ عرب علاقے جہاں صہیونی افواج کا قبضہ ہے ان میں شام کے علاقے جولان کا پہاڑی علاقہ، لبنان کا شبعا فارم اور دیگر علاقے اورپورا فلسطین بشمول بیت المقدس شامل ہے۔
امریکا کی طرح صہیونی اسرائیلی سفیر ران پروسور کا بھی یہی کہنا ہے کہ فلسطین کی نئی حیثیت سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہ بات کسی حد تک درست قرار دی جاسکتی ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطین کی نئی حیثیت بین الاقوامی سفارتکاری میں اسرائیل اور امریکا کی ایک بہت بڑی شکست ہے۔ اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے والے محض ۹ ملک ہیںاور ان میں امریکا، کینیڈا اور چیک ری پبلک کے علاوہ دیگر کو جاننے والے بھی مشکل سے ملتے ہیں۔
ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کو خود امریکا ، اسرائیل اور یورپ نے فلسطینیوں کے نمائندہ کی حیثیت سے تسلیم کر رکھا ہے ورنہ جنوری 2006ءکے الیکشن کے بعد سے حماس فلسطینیوں کی منتخب جماعت ہے اور ان کی حکومت ہی فلسطینیوں کی نمائندہ جمہوری حکو مت ہے۔ لہٰذا محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے اقدامات کی مخالفت اس پورے عمل کو ضائع کرنے کے مترادف ہے جو خود امریکا و یورپ نے شروع کیا تھا۔ اس طرح یہ بین الاقوامی برادری کے اس مضبوط ترین بلاک کی بھی شکست ہے کہ جس کی قیادت امریکا کرتا ہے ۔