جب بھی اعلان بالفور کا ذکر آتا ہے تو اذہان میں خود ہی مسئلہ فلسطین اور سرزمین مقدس کی تقسیم کا مسئلہ ابھر آتا ہے۔ جی ہاں سنہ 1917ءیں برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کے لئے ریاست بنانے کی تجویز حکومت برطانیہ کو بھیجی۔ اس اعلامیہ کو تاریخ میں ایک سیاہ اعلامیہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ تحریروں میں بھی اس اعلامیہ سے متعلق کافی کچھ بیان کیا جا چکا ہے۔ بہر اس مقالہ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اعلان بالفور سے اعلان نیو یارک تک کی تاریخ میں فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟ فلسطین کے لئے دو ریاستوں کا حل تجویز کرنے والوں نے آخر آج تک فلسطین کو کیا دیا ہے ؟ اسی طرح کیا حالیہ دنوں میں جو کچھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی آزادریاست کے تسلیم کے عنوان سے دوریاستی حل کی گونج سنائی دے رہی ہے آخر کای واقعی یہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟
سنہ 1917ء میں بالفور اعلامیہ جاری ہوا،سنہ 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کہ جس کی قرار داد لازمی بائنڈنگ نہیں ہوتی ا سکے باوجو دبھی قرار داد نمبر 181پر عمل کر کے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس تقسیم نے فلسطینیوں کی جہاں نسل کشی کا آغاز کیا وہاں ساتھ ساتھ سنہ1948ء میں فلسطینی عوام کی بڑے پیمانہ پر ہجرت کو بھی پروان چڑھا دیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک ہی دن یعنی 15مئی سنہ1948ء کو فلسطین سے بے گھر اور جبری جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک غاصب صیہونیوں کی فلسطین کے مختلف علاقوں میں آبادکاریاں مسلسل جاری ہیں۔
سنہ1948ء میں 11دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اور قرار داد (194)پیش کی گئی جس میں فلسطینی عوام کے حق واپسی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی کہ جنہوں مئی 1948ء میں نکالا گیا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس جنرل اسمبلی ک قرار داد پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست قائم کر دی گئی اس جنرل اسمبلی نے آج تک فلسطینیوں کے حق واپسی کو یقینی بنانے کے لئے کوئی عملی کوشش ہی نہیں کی۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرنے والا ایران واحد ملک ہے کہ جو آج بھی اسی قرار داد کی روشنی میں فلسطینیوں کے حق واپسی کا مطالبہ کرتا ہے اور ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کے مستبقل کے فیصلہ کو ترجیح دیتا ہے۔
بہر حال فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کے بعد سے فلسطین کی صورتحال بگڑتی چلی گئی اور بات سنہ1967ء کی جنگ تک جا پہنچی، جنگ کے خاتمہ کے بعد اسرائیل نے مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر سے ہزاروں فلسطینیوں کو جبری طور پر مہاجر بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ میں ایک اور قرار داد( 242) 22نومبر 1967ء کوپیش کی گئی اور اس قرار داد میں فلسطینی زمینوں کی واپسی کی بات کی گئی لیکن قرار داد کو اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور آج تک فلسطینیوں کو ان کی زمینیں واپس نہیں دی گئی ہیں۔
وقت آگے بڑھا، اور سنہ1973ء میں ایک مرتبہ پھر سے عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور اس مرتبہ بھی اسرائیل جو پہلے سنہ1967ء میں القدس کے علاقہ پر قابض ہو چکا تھا اب شام، لبنان، او ر مصر کے علاقوں پر بھی قابض ہو گیا۔اس جنگ کے اختتام پر بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 338پیش کی گئی ۔یہ قرارداد 22اکتوبر 1973ء کو پیش کی گئی اور ا س میں بھی اسرائیل کو قرارداد نمبر 242پر عمل کرنے کا کہا گیا کہ اسرائیل سنہ1967ء کی سرحدوں پر واپس جائے اور مقبوضہ علاقوں کو خالی کرے لیکن نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی رہا اسرائیل نے اس قرار داد کو ماننے کی بجائے مزید صیہونی بستیاں آباد کر دیں اور دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل کو کسی بھی عالمی قانون اور قرار داد کی کوئی پاسدار ی نہیں ہے۔
عرب دنیا جو سنہ1978ء تک دو جنگوں میں شکست کے بعد مسلسل امریکہ کے سامنے سر جھکا چکی تھی جن میں مصر سرفہرست تھا۔ مصر نے 17ستمبر 1978ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا جو مصر اور اسرائیل کے درمیان تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں بھی فلسطینی علاقوں کی خود مختاری کی بات رکھی گئی لیکن اسرائیل نے عملی طور پر اس معاہدے میں مصر کی کچھ زمین واپس دے کر فلسطین میں اپنی صیہونی آباد کاری سمیت فلسطینی عوام کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کو جاری رکھا۔
اکتوبر 1991ء میں میڈرڈ کانفرنس جو امریکہ اور اس وقت سوویت یونین کی میزبانی میں منعقد ہوئی تھی۔اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ اسرائیلی اور فلسطینی قیادت براہ راست مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔اس کانفرنس میں بھی فلسطین کے لئے دو ریاستی حل کی بات کی گئی تھی جو بعد ازاں قابل عمل نہ ہوئی۔
اس کے بعد 13ستمبر 1993ء کو اوسلو معاہدہ سامنےا ٓیا جس کے نتیجہ میں ایک پیشرفت یہ سامنےآئی کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو قائم ہونے دیا اور کسی حد تک فلسطینی اتھارٹی کی محدود خود مختاری کو تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ مستقبل میں ایک مکمل ریاست بنایا جائے گا۔ فلسطینیوں کو صرف وعدے دئیے جاتے رہے لیکن عملی طور پر ان کے ساتھ اس کے الٹ ہی ہوتا رہا۔
انہی حالا ت کے تسلسل میں 24ستمبر 1995ء کو اوسلو معاہدہ دوئم ہوا جس میں محدود خود مختاری کو کچھ حد تک وسیع کر دیا گیا اور مغربی کنارےکو تین زون یعنی بالتریب A,B,Cمیں تقسیم کیا گیا۔23اکتوبر 1998ءکو وائی ریور معاہدہ جو کہ امریکہ کی نگرانی میںانجام پایا تھا اس معاہدے میں بھی صیہونی آبادکاروں کے انخلاء کی بات کی گئی اور وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں ہمیشہ کی طرح اسرائیل نے اس پر عمل نہ کیا۔
کیمپ ڈیوڈ دوئم معاہدہ جولائی سنہ2000ء میں انجام پذیر ہوا جس میں یاسر عرفات اور ایہود باراک کے درمیان یروشلم اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی جیسے مسائل پر ڈیڈلاک آیا اور کسی اتفاق کو نہ پہنچے جس کے نتیجہ میں دو ریاستی حل کے لئے ہونے والے مسلسل مذاکرات ناکام ہو گئے۔
اقوام متحدہ نے 12مارچ 2002ء میں باضابطہ پر قرار داد نمبر 1397کے تحت فلسطین کے دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیااور اس قرار داد میں کہا گیا کہ دونوں فریق آپس میں امن قائم رکھتے ہوئے رہیں۔نتیجہ میں اسرائیل کی ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی جاری رہی اور فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی زمینوں پر قبضہ اور صیہونی آباد کاری جاری رہی۔
امریکہ، روس اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر ایک اور معاہدہ جسے روڈ میپ فار پیس کہا جاتا ہے جسے 30اپریل 2003ء میں پیش کیا گیا تھا، اس میں کہا گیا کہ سنہ2005ء تک فلسطین کی آزاد ریاست قائم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ بھی سب کچھ ناکامی کا شکار ہوا کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے ہی فلسطین کے وجود کا دشمن تھا اور آج بھی ہے لہذا اسرائیل کی خواہش کے مطابق کبھی بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق میسر نہیں ہوئے۔
انناپولس کانفرنس جو کہ 27نومبر 2007ء کو منعقد ہوئی اور اس کانفرنس میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے درمیان ملاقات ہوئی اور مذاکرات انجام پائے لیکن نتیجہ میں کوئی اتفاق نہ ہو سکا۔اقوام متحدہ کی ایک اور قرار داد (67/19)جو کہ 29نومبر 2012کو جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی اور اس کے تحت فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دےد یا گیا۔
حالیہ دنوں 29جولائی سنہ2025ء کو فرانس کی جانب سے نیو یارک میں ایک کانفرسن منعقد کی گئی جس کو سعودی عرب کی شراکت داری بھی حاصل تھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد بھی گذشتہ تسلسل یعنی بالفور اعلامیہ سے لے کر اب تک فلسطین کی تقسیم کے بارے میں ہی تھا۔ جیسا کہ اس کے اعلامیہ میں بیان کیا گیا ہے کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے اور فلسطینی مزاحمت کی مذمت بھی کی گئی اور ساتھ ساتھ سنہ1948 ء سے قرار داد نمبر 194کی نفی بھی کر دی گئی کہ جس میں فلسطین کے مہاجرین کے حق واپسی کی بات کی گئی تھی۔ آج بھی اقوام متحدہ میں جو کچھ دو ریاستی حل کے عنوان سے پیش کیا جا رہاہے یہ سب فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ، ظلم اور نا انصافی ہے۔
اس عنوان سے علیحدہ ایک مقالہ پہلے ہی تحریر کیا جا چکا ہے جسے قارئیں پڑھ کی تفصیلات سے آگاہ ہو سکتے ہیں کہ آخر دوریاستی حل کس طرح فلسطین کے لئے ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے اور کیوں عمل پذیر نہیں ہو سکتا۔فلسطین کے مسئلہ کا واحد حل صرف اور صرف فلسطینیوں کی واپسی اور ریفرنڈم کے ذریعہ مستبقل کا فیصلہ ہے۔