فلسطین کے ان گنت مقدس مقامات میں خطہ ارضی میں حرمین شریفین کے بعد فلسطین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ وکعبہ موجود ہے۔ قبلہ اول کے خلاف سال ہا سال سے جاری یہودی و نصارایٰ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے مقدس ترین مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں واقع تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے فلسطین میں قبلہ اول کے بعد دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین میں یہودی اور صہیونی سرطان کے سرائیت کرنے کے بعد فطری طورپر وہاں کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی بھی صہیونیوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسجد ابراہیمی کی تاریخی اہمیت، فلسطین اور اسلامی دنیا میں اس کی مقدس مقامات میں حیثیت و مرتبے بالخصوص اسے درپیش یہودیت اور صہیونی توسیع پسندی کی سازشوں کی تفصیلات پرمبنی ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ تفصیلی رپورٹ میں حرم ابراہیمی کو لاحق خطرات کے بعد یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اگرعالم اسلام کی جانب سے قبلہ اول کے ساتھ ساتھ حرم ابراہیمی کو بچانے کی ٹھوس کوشش نہ کی گئی تو یہ مقدس جو پہلے ہی ایک گھناؤنی سازش کے تحت دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے مکمل طورپر مسلمانوں کے ہاتھ سے جاسکتا ہے۔
فلسطین میں سنہ 1967 ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے دوران صہیونیوں نے غرب اردن کے شہرالخلیل پرغاصبانہ قبضہ کیا تو یہ مسجد بھی صہیونیوں کے نرغے میں آگئی تھی۔ اس کے بعد اس مسجد کو تقسیم کرنے یا مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے خوفناک سازشیں جاری رہیں۔ یہاں تک کہ سنہ 1994 ء کا وہ منحوس اور مکروہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک انتہا پسند یہودی نے مسجد میں گھس کرنماز میں مصروف فرزندان توحید پراندھا دھند گولیاں چلا دیں۔ یہودی درندی کے وحشیانہ فائرنگ سے 29 نمازی حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ دسیوں شدید زخمی ہوئے۔ تاریخ انسانی کی اس بدترین بربریت کے بعد صہیونیوں نے اگلی چال یہ چلی کہ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا جائے۔ یوں اس مسجد کے آدھے سے زاید حصے کو یہودیوں نے غصب کرلیا اور اسے یہودی انتہا پسندوں کی عبادت کے لیے مختص کرتے ہوئے اس میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عائد کردی۔
مسجد ابراہیمی کی تاریخ
فلسطینی مورخ ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ نے تاریخی مصادر ومآخذ کی روشنی میں الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تاریخ الخلیل کا آغاز جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس شہر میں ایک سیاسی پناہ گزین کی حیثیت سے آمد کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ ’’الانبیاء‘‘ کی آیت 71 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :’اور ہم نے اسے[ابراہیم] اور لوط کو اس سرزمین میں پناہ دی جسے ہم نے تمام جہاں نے کے لیے بابرکت بنایا تھا‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی سال تک یہاں ایک مہمان کی حیثیت سے مقیم رہے۔ حضرت ابراہیم چونکہ کنعانی عربوں کے مہمان تھے چنانچہ انہیں کے پاس رہے۔ ان کی اس شہرمیں آمد نے الخلیل کوایک نئی شناخت دی اور ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے نسبت ہونے کی بدولت یہ شہر’’مدینۃ الخلیل‘‘ قرار پایا۔
غار ابراہیم
تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ الخلیل شہر میں جہاں آج مسجد ابراہیمی بنائی گئی ہے اس کے نیچے ایک غار تھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ کو 3800 سال قبل یہاں دفن کیا گیا۔ بعد ازاں اسی غار میں حضرت ابراہیم خود، سیدنا اسحق اوران کی بیوی اور سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی بھی وہیں آسودہ خاک ہیں۔
فتح فلسطین کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام کے مقابر کےگرد اونچی فصیل تعمیر کرنے کے ساتھ وہاں ایک مسجد بنائی گئی جسے ’ مسجد ابراہیمی‘ کا نام دیا گیا۔ فتح کے بعد مسجد اقصیٰ کے بعد مسجد ابراہیمی میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جانے لگا تھا۔
تورات کے باب الفضائل میں بیان ہے کہ جس غار میں حضرت ابراہیم اور دیگر انبیاء کرام آسودہ خاک ہیں وہ مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوگئی تھی۔ نیز اس غار کے گردو پیش میں حضرت سلیمانی علیہ السلام نے بھاری پتھروں اور چٹانوں کی مدد سے مضبوط دیوار تعمیر کی۔ ان میں سے بعض پتھروں کی لمبائی 10 میٹر تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھاری پتھر جنات کے ذریعے وہاں رکھوائے گئے تھے۔
ڈاکٹر ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ اسلامی فتوحات کے بعد مسلمانوں نے الخلیل شہر کے گرد بھی فصیل[دیوار] تعمیر کی اور غار ابراہیم کے گرد پہلے سے بنی دیوار کو مزید اونچا کیا۔
صلیبیوں کا غاصبانہ تسلط
فلسطینی مورخ ڈاکٹر ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ سنہ 492 ء میں صلیبیوں کے حملے کے بعد مسجد ابراہیمی بھی ان کے تسلط میں آگئی اور انہوں نے اس مسجد کو فلسطین کے ایک بڑے گرجا گھر میں تبدیل کردیا۔ کئی سال تک یہ مسجد عیسائی پادریوں کا مرکز رہی جس کی وجہ سے اسے’سینٹ ابراہام‘ کا نام دیا گیا۔ قریبا 90 سال تک مسجد ابراہیمی صلیبیوں کے قبضے میں رہی۔ مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد مسجد ابراہیمی کو بھی صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کرایا اور اس کے اندر بنایا گیا قلعہ مسمار کرکے اسے نماز کے لیے دوبارہ سے کھول دیا۔ صلاح الدین ایوبی نے مسجد کی مغربی سمت الگ سے ایک عمارت دینی درسگاہ کے لیے قائم جہاں قائم ہونے والی درسگاہ کو ’’مدرسہ الیوسفیہ‘‘ کا نام دیا گیا۔
مسجد کی دینی اہمیت
مسجد ابراہیمی کی تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ اہل اسلام کے لیے اس کی دینی اہمیت بھی کم نہیں۔ مسلمانوں کے مختلف ادوار میں یہ مسجد مسلمانوں کا ایک بڑا مرکز رہی۔ مرقد انبیاء ہونے کے ناطے اس کی دینی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہاں پرحضرت ابراہیم کی آخری آرام گاہ کے حوالے سے متضاد روایات بھی ہیں۔ الخلیل شہر کے فلسطینی مفتی الشیخ محمد ماھر مسودی نے ’مرکز اطلاعات فلسطین‘ کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مشہور روایت یہی ہے کہ الخلیل شہر کو یہ نام حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہی کی نسبت سے دیا گیا مگر اس بات کو کوئی قطعی اور ٹھوس ثبو نہیں کہ حضرت ابراہیم خود بھی یہیں آسودہ خاک ہیں۔ یہ روایت سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے آج تک پہنچی ہے۔
مسجد ابراہیمی اور الخلیل شہر کی دینی اہمیت پربات کرتے ہوئے مفتی مسودی کا کہنا تھا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ الخلیل شہر پیغمبروں اور رسولوں کی سرزمین ہے۔ ویسے یہاں کئی انبیاء آئےمگر شہر کا نام صرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہی کی نسبت سے مشہور ہوا۔
ایک سوال کے جواب میں علامہ مسودی کا کہنا تھا کہ مسجد ابراہیمی میں نماز کا ثواب اتنا ہی ہے جتنا کہ کسی بھی دوسری مسجد میں نماز کا ثواب ہے مگر اس کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے مسلمانوں اس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں کا یہ مقدس مقام صہیونیوں کے تسلط میں ہے اور وہ اس پر یہودیت کا رنگ چڑھانے کےلیے ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں۔ الخلیل کے تمام مسلمان باشندے مسجد ابراہیمی کو اپنے جسم وجان کا حصہ سمجھتے ہیں۔
مسجد یا حرم؟
الخلیل شہرسمیت فلسطین بھر میں مسجد ابراہیمی کو’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ محض محض ایک استعارہ ہے، ورنہ یہ مسجد مکہ مکرمہ میں موجود مسجد حرام کی طرح حرم نہیں۔ مسجد کی عزت وتوقیر اور احترام کے باعث اسے حرم ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
مسجد ابراہیمی کو حرم ابراہیمی کا نام دیے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی مسودی نے کہا کہ 700 سال پیشتر خلافت اسلامی کے قاضی القضاۃ علامہ تقی الدین السبکی فلسطین کے سرکردہ عالم دین اور بزرگ ہستی برھان الدین الجعبری کی دعوت پر اس شہر میں آئے۔ الخلیل میں آنے کے بعد وہ مسجد ابراہیمی میں پہنچے تو وہاں لوگوں کو ’الحرم، الحرم‘ کہتے سنا۔ انہیں بتایا کہ وہ اس وقت مسجد کی تیسری منزل پرہیں، اس کے نیچے ایک منزل اور ایک غار ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ بعض لوگ یہاں نماز کی ادائی پر اعتراض کرتے ہیں اور کچھ لوگ ’حرم‘ کہنے پر معترض ہیں تو قاضی القضاۃ نے کہا کہ کہنے سے مسجد حرم نہیں بن جاتی۔ حرمین شریفین دو ہی ہیں جو ہرایک کو معلوم نہیں۔ اگر ادو احترام کے باب میں مسجد ابراہیمی کو حرم کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
صہیونی یلغار
فلسطین میں یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کے قیام کے بعد مسجد ابراہیمی مسجد انتہا پسند صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کے نشانے پرہے۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الحاج منذر رفیق ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ سنہ 1967 ء کے بعد مسجد ابراہیمی اور اس میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینی بار ہا صہیونیوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
سنہ 1970 ء میں شدت پسند یہودی موشے ڈایان کے مسجد میں داخلے کے بعد اس کے نیچے غار کو بند کردیا گیا۔ سنہ 1976 ء میں یہودیوں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے کئی نسخے نذرآتش کیے جس کے بعد فلسطین سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی روز تک اسرائیل اور یہودیوں کی سازشوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔
سنہ 1994 ء مسجد ابراہیمی کے حوالے سے نہایت المناک سال ہے کیونکہ اسی برس باروکھ گولڈچائن نامی ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی میں مصروف نمازیوں کوگولیوں سے بھون ڈالا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل صہیونی حکام نے سنہ 1987 ء میں مسجد کے تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر الیکٹرانک آلات، کیمرے اور جاسوسی کے دیگر آلات نصب کرکے اس پرقبضہ مضبوط کرنے کی سازش کی تھی۔
مسجد کی تقسیم
مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کے سفاکانہ قتل عام کے بعد صہیونی حکومت نے اس کی تحقیقات کے لیے ’شمغار کمیٹی‘ کے نام سے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے قاتل یہودی کے خلاف کارروائی کے بجائے مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ فلسطینی مسلمانوں پر زبردستی مسلط کیا گیا۔ شمغار کمیشن نے مسجد کا 56 فی صد حصہ یہودیوں کو اور 44 فی صد فلسطینیوں کو دیا تاکہ مسجد پر یہودیوں کی بالا دستی قائم رکھی جاسکے۔ کمیشن کے فیصلے کے تحت مسجد کے یعقوبیہ، الیوسفیہ، العنبر، سدنہ ہال اور لائبریری یہودیوں کو دے دیئے گئے اور صرف الاسحاقیہ کا مقام فلسطینیوں کو دیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد فلسطینی شہری صبح تین بجے سے رات نو بجے تک اپنے حصے کی مسجد میں عبادت کرسکتے ہیں۔ تاہم یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر پوری مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔
اذان پرقدغنیں
ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ جب سے اسرائیل نے مسجد ابراہیمی پرقبضہ کیا ہے اس کے بعد سے آج تک اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز مغرب کی اذان کی اجازت نہیں دی گئی۔ عید کے ایام میں اگرچہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے کھولی جاتی ہے مگراذان کی پابندی برقرار رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ میں مسجد میں 155 بار اذان ہونی چاہیے مگر اسرائیلی انتظامیہ کی ناروا پابندیوں کے باعث 50 سے 70 بار ہی اذان دی جاسکتی ہے۔ باقی نمازوں کے لیے اذانوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب بھی مسجد میں اذان دینا ہوتی ہے تو اسرائیلی انتظامیہ سے اس کی باضابطہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہودی فوجیوں کی مرضی ہوتی ہے چاہے وہ اجازت دیں چاہے نہ دیں۔