اس قسم کے حالات کی وجہ غالبا ًیہ ہے کہ کنارے پر لگائی یہ طاقتیں اسلامی تحریک کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں، لیکن یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ اسلام پسندوں نے اپنی یہ منزل محنت سے حاصل کی ہے غرور و تکبر سے نہیں۔
گزشتہ دنوں مصر میں بعض سکیولر دانشوروں نے اخوان المسلمون اور صدر محمد مرسی کی قدر کو کم کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے لیے ملین مارچ کی کال دی۔ تاہم ان لامذہبوں کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب ان کی اپیل پر صرف چند سو افراد نے کان دھرا۔ یہ لوگ بھی وہ تھے جن کا تعلق مصر کے قدیم عیسائی چرچ سے ہے۔
اس مظاہرے کے شرکاءشدید تھکے نظر آئے اور اتنے مخبوط الحواس تھے کہ انہوں نے اخوان المسلمون کو قاتل اور جنگجو تک قرار دیدیا۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے نفرت سے بھرپور اور مصری اسلام پسندوں کیخلاف تعصب کا مظاہرہ کرنے والوں نے انتہائی گھٹیا اور رذیل زبان استعمال کرکے اسلام مخالف قوتوں کی مایوسی اور ناکامی کو مزید واضح کردیا ہے۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ لوگ ان حقائق کو سمجھنے سے بھی یکسر قاصر ہیں کہ مصر کی عوام ایک اسلامی صدر اور اسلامی پارلیمان کو منتخب کر چکے ہیں۔ اگرچہ پارلیمان کو نام نہاد آئینی عدالت نے ختم کردیا ہے۔ اگرچہ یہ یقینی ہے کہ اس نامقبول فیصلے کے بعد بھی کسی سکیولر یا سابق صدر حسنی مبارک کی باقیات انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گی پھر بھی اس فیصلے کو عوام قبول کرنے کو تیار نہیں۔
دراصل اگر اس مصنوعی طرز عمل کے ساتھ ہم ان کے گھٹیا ارادوں کو بھی ملا دیتے ہیں تو یہ ایک انتہائی قبیح جرم بن جاتا ہے جس کا مقصد عوامی فیصلے کو زبردستی کچلنا اور جمہوریت کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یقینی بات ہے کہ یہ سب آزادی اظہار رائے نہیں، جہاں تک ہم سمجھتے ہیں آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک منتخب صدر کو قتل کرنے سمیت اسی نوعیت کے دیگر اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جائیں۔
لیبیا میں قذافی کے حمایتیوں کی غنڈہ عناصر نے عید الفطر کی چھٹیوں میں ایک یا دو کار حملے کیے۔ اس بھیانک کارروائی کا مقصد بے گناہ لیبی شہریوں کو مارنا اور زخمی کرنا تھا۔ شرپسند چاہتے ہیں کہ ظالم آمر کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے بعد اب عوام کو اس احساس میں مبتلا کیا جائے کہ انہوں نے ایسا کرکے غلطی کی۔ یہ دہشت گرد ہر طرف دہشت گردی، بد امنی اور قتل و غارت گری پھیلانا چاہتے ہیں۔
عرب ممالک میں بہار کا آغاز ثابت ہونے والے تیونس میں ”فرانس پارٹی“ جو ان افراد پر مشتمل ہے جو ان شہریوں پر مشتمل ہے جو اپنے نام کے اعتبار سے عرب مگر باقی ہر اعتبار سے فرانسیسی شہری شمار ہوتے ہیں۔ ثقافت، اسلام دشمنی اور لائف سٹائل ہر اعتبار سے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والے یہ افراد شمال افریقی ملک کے اسلام پسند اور جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔
اسلام مخالف لوگوں کے مطالبات کی تیز دھار اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے کہ اصل مقصد یہاں پر حد سے متجاوز سکیولرزم، اسلام مخالف ظالمانہ کارروائیوں، فحاشی، لامذہبیت، قحبہ گری کو ترویج دینا ہے اور یہاں ہم پر اسلامی اقدار کے خلاف جو کچھ ممکن ہو کر دکھانا ہے۔ یہ انتہاءپسند تیونس کی عوام اور ان کے مذہب ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مراکش میں بھی اسلام کے دشمن یہاں کی اسلامی حکومت کے خلاف اپنی جانیں دھونکنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یہاں پر سن 1956ءسے قائم ناکام آمریت کو للکارنے والی اسلامی حکومت کو تمام مسائل کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
حتیٰ کہ عرب دنیا کے مشرقی حصے کی بعض نسبتاً چھوٹی اور معصوم ریاستوں میں تو اخوانائزیشن کی اصطلاح بھی استعمال ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہ اصطلاح اتنی معصوم اور قدرتی نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیل کو رد کرنے کا ایک مصنوعی طریقہ کار ہے۔
اس زہریلے پروپیگنڈے کو پھیلانے والے بڑی اچھی طرح کسی بھی ریاست کو اسلامائز کرنے کی اصطلاح کو، دلوں کا حال اللہ جانتا ہے، اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کی گفتگو کرکے وہ اسلام پسندوں کے کھلے عام مخالفت کرنے والوں کو خاص پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ الاخوان المسلمون کے پلیٹ فارم کو بدنام کرنے کے لیے اسلامائز کے بجائے اب اخوانائزیشن کی مزید حریصانہ اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔
شیخوں کے زیر تسلط تیل کی دولت سے مالا مال ایک خلیجی ملک میں ہمیں ایک ایسے سکیورٹی عہدیدار کا سامنا ہے جس کو اپنا منہ بند کرنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس جاہل عہدیدار کی زبان اس کے دماغ کے سوچنے کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ یہ عہدیدار آجکل اسلام پسند عناصر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کی باتیں کر رہا ہے۔
اس اعلیٰ عہدیدار کی باتوں کے گھٹیا پن راقم کو اس کے حوالے سے مزید لکھنے سے روک روا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے زیادہ تذکرے سے اس کو وہ مقام مل جائے جس کا وہ حقدار نہیں ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی اسلامی بہار اور انقلاب کو پہلے ہی اس قسم کے خلفشار کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں بہت سے آوارہ کتے ہیں جو بھونکتے رہتے ہیں اگر ان کی طرف توجہ دینا بے فائدہ بلکہ زیادہ دشمنی پیدا کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کے جواب دینے کا مطلب اپنی توانائی کو کسی کام میں لگانے کے بجائے اس بے فائدہ کام میں ضائع کرنا ہے۔ کتے بھونکتے رہتے ہیں لیکن کاررواں پھر بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔
بلاشبہ فکری دیوالیہ پن اور بیہودگی کے شکار ان افراد کی حرکتوں کا جواب دینے کے بجائے اسلامی تحریک کو اپنے سماجی اور معاشی پروگرام پر عمل درآمد کے لیے کوششیں جاری رکھنا چاہیں۔ غربت اور دوسری معاشرتی برائیوں کے خلاف جنگ اور شرح خواندگی بڑھانے کی جدوجہد سے ہی کامیابی حاصل ہوگی۔
مزید برآں، اسلامی تحریک کو روایتی میڈیا کے مقابلے میں ایسے متبادل اور موثر ذرائع ابلاغ کو ترویج دینا ہوگی جو ضرورت کے موقع پر اسلام کے مطابق رائے عامہ تشکیل دے سکے۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مصر اور اردن جیسے ممالک کا سرکاری میڈیا اگر اسلام مخالف نہ بھی سہی تو اسلام پسندوں کا شدید مخالف ہے ہی۔
تاہم اسلامی تحریک میں حصہ لینے والوں کو نئے سیٹلائٹ ٹی وی چینلز قائم کرنے اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی شاندار اور دلکش ویب سائٹس بنانا ہونگی، مختلف زبانوں میں بنائی گئی ان ویب سائٹس کا کام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسلام کا پیغام اور اسلامی نظام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی درست معلومات پہنچانا ہونگی۔
یقینی طور پر یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ عرب ممالک میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک کو اپنی توجہ اسرائیل اور صہیونیت کے ساتھ مقابلے اور مسئلہ فلسطین کے حل پر مرکوز کرنا ہوگی۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی تحریک کو مسئلہ فلسطین کے ساتھ پوری دلجمعی کے ساتھ لگے رہنا ہی عوام میں اس کی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے سب سے اہم عنصر ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین