(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) عربوں کی دولت پر قبضہ جمائے رکھنا اورا نہیں آپس میں لڑاتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہلِ مغرب کی ترجیحات کا حصہ رہا ہے۔
آخر کار متحدہ عر ب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے لئے معاہدہ طے پا گیا۔ فریقین کے علاوہ امریکہ بھی اس معاہدے کو تاریخی قرار دے رہا ہے اور کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو فروغ دینے کا باعث بنے گا جبکہ اپنے وجود کی بقاء کی جد و جہد میں برسوں سے مصروف فلسطینیوں کو اس ڈیل سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں ان کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
انہوں نے 1967ءمیں قدس، گولان اور دوسرے فلسطینی علاقوں پر زبردستی قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اب پوری فلسطینی زمین پر قابض ہونا چاہتے ہیں جس کے لئے غیر قانونی یہودی بستیوں کے قیام کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہنوذ قائم ہے۔ عربوں کی دولت پر قبضہ جمائے رکھنا اورا نہیں آپس میں لڑاتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہلِ مغرب کی ترجیحات کا حصہ رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے انہوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی اور پھر اس کے استحکام اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مغرب ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ مستعدی سے کھڑا رہا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اسرائیل مغربی ممالک کی بھرپور مدد سے زندہ ہی نہیں ہے بلکہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔
مغرب کی مدد سے اسرائیل ایک جانب ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ فلسطین بیت المقدس کی وجہ سے مسلمانوں کی غیرت اور ناموس کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام مملکتیں اہلِ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ہیں جنہیں انسانی عظمت کا احساس تھا اور انصاف کے اعلیٰ معیار کی فکر لا حق تھی ۔ وہ فلسطینیوں کی جد و جہد کی حمایت اور اسرائیل کی جارحیت کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ 1968ء سے ا ب تک عرب ملکوں نے اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کبھی نہیں کیا۔ مظلوم فلسطینی کل بھی تختۂ مشق بن رہے تھے، آج بھی وہ مار کھا رہے ہیں۔ ظاہری طور پر البتہ فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، مگر اب امریکہ کی ذہنی غلامی کا کمال دیکھئے کہ عرب ریاستیں باقاعدہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام پر پوری طرح آمادہ ہیں ، جس کی ابتداء یو اے ای نے کر دی ہے۔ 1979ء میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا گیا جس کے بعد اردن نے ایسا ہی معاہدہ 1994ء میں کیا۔ ان دونوں کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات باضابطہ طور پر قائم کر لئے ہیں اور یہ ایسا کرنے والا خلیج کی 6 ریاستوں
میں پہلا ملک ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ طور پر تعلقات سالوں سے قائم تھے اور حالیہ معاہدے کی تفصیلات بھی آخری وقت تک خفیہ رکھی گئی تھیں۔ متحدہ عرب امارت کی ابو ظہبی میں وزارتِ خارجہ سے بھی اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی خطے کے کسی اور عرب ملک سے اس بارے میں بات کی گئی۔ سلامتی امور میں امارات پہلے ہی اسرائیل کے رابطے میں ہے۔ اسرائیل کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے وہ طویل عرصہ سے خلیجی ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے زمین تلاش کر رہاتھا،جس میں اب جا کر اسے کامیابی ملی ہے۔
امارات نے اسرائیل سے دوستی کر کے جہاں فلسطینی عوام کو دھوکا دیا ہے وہیں عرب، اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کی رو سے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات تبھی استوار ہو سکتے ہیں جب اسرائیل، فلسطین اور عرب سر زمین کے مقبوضات سے پیچھے ہٹے۔ اس لئے جب تک فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہو تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی عرب ملک تعلقات استوار نہیں کر سکتا۔ 2002ء میں عرب لیگ کی ایک کانفرنس میں سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ کی تجویز پر 22 عرب ممالک نے ایک قرارداد پاس کر کے اسرائیل کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر وہ فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دے اور 1967ء والی جنگ سے قبل کی جغرافیائی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک ایک ساتھ مل کر اس کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے۔
یعنی یہ ایک شرط تھی کہ عرب دنیا اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک وہ فلسطینی سرزمین سے اپنا غاصبانہ تسلط ختم نہیں کرتا ہے۔ سعودی عرب اپنی اس بات پر مستقل مزاجی کے ساتھ قائم ہے اور اس نے عرب امارات اور اسرائیل کی دوستی کی مخالفت کی ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل ہوئے بغیر اس ضمن میں کوئی مثبت رائے دینے سے انکار کیا ہے۔
سعودی عرب نے حق و انصاف پر مبنی اپنے مٔوقف کا کھل کر ظاہر کیا ہے۔ اس کا یہ مٔوقف عالمی سطح پر مسلم کاز کے لئے قائدانہ صفات کا حامل ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ انتخابات میں اپنے سسر کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے ٹرمپ کے داماد جیراڈ کوچز نے اپنے دیرینہ دوست ولی عہد محمد بن سلیمان کے ذریعے متحدہ عرب امارات کو معاہدے پر قائل کیا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب کے اشارے کے بغیر امارات اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا ہے لیکن سعودی عرب کے حالیہ مٔوقف نے ان ساری باتوں کو رد کر دیا ہے۔
اتوار کی شب سعودی شاہ اور امریکی صدر کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں سعودی فرماں روا نے امریکا پر فلسطین کا مسئلہ عرب امن اقدام کے تحت حل کرنے پر زور دیا۔ سعودی عرب مملکتِ فلسطین کا مستقل اور منصفانہ حل چاہتی ہے جس کے لئے عرب امن معاہدے کو بنیاد تصور کرتے ہیں۔ ادھر ایسیکس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر عزیز الغشیان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس لئے بھی ٹھیک نہیں کر سکتا کیونکہ سعودی عرب خود کو مسلم اور عرب دنیا میں بطور لیڈر دیکھنا چاہتا ہے اس لئے ضروری سمجھتا ہے کہ فلسطین کے معاملے کو عرب امن اقدام کے فریم ورک کے اندر تعلقات معمول پر آئیں۔
مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کے لئے عالمِ اسلام بالخصوص فلسطین جس انداز سے اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس کے لئے جتنا خون بہایا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس پر مبینہ طور پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ امارات کو سمجھنا چاہئے کہ اس کے پیچھے بہت گہری سازش ہو سکتی ہے یہودیوں پر کسی حال میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ امارات اور اسرائیل معاہدے میں سازش کی بو اس لئے بھی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ جیسے ہی دونوں ملکوں نے معاہدے پر دستخط کئے امریکہ نے سب سے پہلے استقبال کیا اور امارات کو تجارتی سمجھوتے کی پیش کش کر دی، ایف 16 جنگی طیارے دینے کی حامی بھر لی۔ یہ ایک گہری سازش ہے جس کا آنے والے وقت میں اندازہ ہو گا۔ ممکنہ طور پر یہ معاہدہ مسلمان ممالک میں پہلے سے قائم خلیج میں مزید اضافے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
تحریر رانا ذاہد اقبال
بشکریہ روزنامہ نئی بات