تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی
امریکی صدر اور امریکہ کی تاریخ کے نمبر ایک احمق ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کے معاملے پر اسرائیل کی خود مختاری ہے۔یعنی امریکی صدر نے بالکل اسی طرح یکطرفہ اور احمقانہ اعلان کیا ہے جیسا کہ انہوں نے گزشتہ برس میں یروشلم شہر کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا یکطرفہ اعلان کیا تھا جس پر پھر ان کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقہ ہیں کہ سنہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر سنہ1981ء میں باقاعدہ اس علاقہ کو اسرائیل کے ساتھ شامل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس کے مقابلے میں اقوام متحد ہ کی قرار دادیں یہ کہتی ہیں کہ گولان کی پہاڑیاں تاحال شام کا علاقہ ہیں اور اسرائیل اس پر غاصب اور قابض کی حیثیت سے موجود ہے۔امریکی صدر نے شام کی ان پہاڑیوں کے بارے میں اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کا احمقانہ یکطرفہ اعلان کر دیاہے جس پر ایک مرتبہ پھر امریکی صدر کو دنیا بھر میں تنقید کا سامنا ہے اور اکثر ممالک نے اس فیصلہ یا اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی ماہرین امریکی صدر کے اس اعلان کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ میں موجود صہیونی لابی نے امیرکی سیاستدانوں اور کچھ سینیٹرز کے ذریعہ امریکی صد ر کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ امریکہ میں موجود صہیونی لابی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے نام نہاد ہونے والے نئے انتخابات میں نیتن یاہو کو مضبوط امید وار کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تاہم اسی لئے امریکی صدر نے ان کو ایک تحفۃ کے طور پر گولان کی پہاڑیاں دی ہیں ۔البتہ امریکی صدر کا یہ یکطرفہ اعلان گولان کی پہاڑیوں کی اصل شناخت یعنی شام کے علاقے سے تبدیل کر کے اسرائیلی علاقہ نہیں بنا سکتا۔کیونکہ امریکی صدر کا یہ احمقانہ اعلان دراصل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 242سے براہ راست تضاد اور ٹکراؤ رکھتا ہے۔
دراصل امریکی صدر کی جانب سے شام کی گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنے کا اعلان جہاں اسرائیل کے نئے انتخابات پر اثر انداز ہونے سے متعلق ہو سکتا ہے وہاں ساتھ ساتھ امریکہ و اسرائیل کی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہو سکتا ہے ۔کیونکہ امریکہ اور اسرائیل شام کی گذشتہ سات برس کی صورتحال میں اب تک کسی قسم کی کوئی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔حالانکہ اب یہ رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں کہ شام کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بنائی جانے والی دہشت گرد تنظیم داعش کو امریکہ اور اسرائیل نے ہی بنایا تھااور ان ہی کیجانب سے ان کو اسلحہ اور مالی معاونت کی جا رہی تھی تا کہ شام سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے ۔لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے ہیں کیونکہ شام کے اتحادیوں بشمول روس، ایران،چین، حزب اللہ اور دیگر کی مشترکہ کوششوں سے شام سے تا دم تحریر آنے والی اطلاعات کے مطابق کرد علاقوں میں موجود آخری داعشی ٹھکانوں پر بھی شامی افواج نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔شاید امریکہ کے لئے سب سے بڑا درد سر اب یہی ہے کہ شام جو کہ داعش جیسی خطر ناک دہشت گرد تنظیموں سے نمٹ سکتا ہے اور ماضی قریب میں اسرائیلی میزائل حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ جوابی کاروائی بھی کر سکتاہے تو کسی بھی وقت اپنے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے بھی خاموش نہیں رہے گا۔
شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں پر صہیونیوں کے تسلط کے عنوان سے امریکی صدر نے اسرائیل کی خود مختاری کا اعلان کیا ہے تویاد رہے کہ امریکی فیصلہ 1974ء میں طے پانے والے اسرائیل اور شام کے درمیان امن معاہدے کے بھی خلاف ہو گا۔ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، گولان ہائٹس شام کی سرزمین کا حصہ ہیں۔‘‘
سیاسی مبصرین کی نظر میں گولان ہائٹس کے بارے میں اسرائیل کی حالیہ سفارتی سرگرمیوں کی ایک وجہ شام کے موجودہ حالات بھی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے بعد شام حکومت نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے بلکہ شام کی مسلح افواج کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں جبکہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے بھی گولان ہائٹس کے قریب اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔
شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے حال ہی میں کہا ہے: "دمشق گولان ہائٹس پر قبضہ مضبوط بنانے کیلئے انجام پانے والی اسرائیلی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے میں تذبذب کا شکار نہیں ہو گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ جو پہلے ہی مشرق وسطی میں متعدد محازوں پر شکست سے دو چار ہو چکا ہے اب اپنی رہی سہی ساکھ کو اس طرح کے احمقانہ اعلانات اور یکطرفہ فیصلوں سے ناپید کررہا ہے ۔صہیونی مفادات کے خاطر امریکہ دنیا بھر کی مخالفت اور نفرت مفت میں ہی خرید کر اپنی قبر کھودنے کا کام کر رہاہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے پر سیاسی ماہرین کی رائے یہی تھی کہ امریکہ کو اب کسی دشمنوں کی ضرورت نہیں کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہی امریکہ کو تہس نہس کرنے کے لئے کافی ہیں۔تاہم اب یہ آراء درست ہوتی نظر آ رہی ہیں۔امریکی صدر کے اس طرح کے احمقانہ اعلانات اور فیصلوں سے جہاں دنیا بھر میں امریکہ کو سبکی اٹھانا پرتی ہے وہاں عالمی اداروں اور بین الاقوامی فورمز اور قوانین پر بھی سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہوتے ہیں ۔کیا دنیا کی سیاست کے معاملات اسی طرح چلائے جائیں گے کہ جب امریکی صدر کا دل چاہے گا وہ شام پر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کی حمایت کریں گے یا پھر جب شکست کھ اجائیں گے تو شام کی سرزمینوں پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کر کے بین الاقوامی معاہدوں اور قرار دادوں کو دھجیاں بکھیر دیں گے؟ کیا دنیا کی سیاست اسی بات کی متقاضی ہے کہ امریکی صدر کو بے لگام چھوڑ دیا جائے کہ وہ ایران اور وینزویلا کے تیل کے ذخائر پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کے لئے ایران پر پابندیاں عائد کریں اور وینزویلا میں انارکی پھیلانے میں براہ راست ملوث ہوں؟ کیا دنیا کے سیاسی نظام کو امریکی صدر کی من مانی پر چھوڑ دیا جائے کہ جہاں امریکی صدر کی آشیر باد سے فلسطین میں اسرائیل ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھے تو دوسری جانب سعودی عرب کے حکمران یمن میں قتل عام کا بازار گرم رکھیں ،اور ان دونوں پر نگرانی امریکی حکام کی ہو؟آج امریکی صدر کے احمقانہ فیصلے اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکہ شام سے متعلق شدید پریشانی کا شکار ہو چکا ہے اور امریکہ سمیت اسرائیل کو یہ خطرہ لا حق ہے کہ دیر یا جلدی بہر حال شام اپنی مقبوضہ سرزمین کو صہیونی دشمنوں سے آزاد کروانے کے لئے ضرور اقدامات کرے گا۔یہی اقدامات آگے چل کر عنقریب فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔