(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) حالیہ دنوں میں پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے کے عنوان سے ایک بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس عنوان سے چند ایک دانشور اور صحافی حضرات کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح فلسطین کی حمایت میں بھی پاکستان کے مختلف حلقوں سے بات سامنے آئی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فلسطین کی حمایت در اصل بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے عین مطابق ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہورہاہے کہ ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف مسئلہ کشمیر سنگین نوعیت اختیار کر رہا ہے اور دوسری طرف خلیجی عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں ، ان حالات میں پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کی بحث کا شدت پکڑ جانا یقینا نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے لئے خطرہ ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسئلہ کشمیر کو سبو تاز کرنے کے لئے عالمی سامراجی قوتیں اور خطے کی عرب ریاستیں بھارت کے حق میں اس فعل کو انجام دے رہی ہیں ۔
گذشتہ دنوں میں نے بہت سے مقالہ جات کا مطالعہ کیا ہے جس میں چند ایک تجزیہ کاروں نے انتہائی مہارت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی طرح سے یہ ثابت کر ڈالیں کہ پاکستان کا اسرائیل سے تعلقات قائم کئے بنا گزارا ممکن نہیں ہے ۔ انہی چند ایک تجزیہ کاروں کی آراء کو اس مقالہ میں شامل کرتے ہوئے سوالوں کا جواب پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی اردو سائٹ پر ایک کالم نویس مونا خان نے لکھا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں سنہ1947ء میں وجود میں آئے ۔ حالانکہ یہ کسی طور بھی درست نہیں ہے ۔ پاکستان یقینا سنہ1947ء میں وجود میں نہیں بلکہ آزادی حاصل کرنے کے بعد قائم ہوا ہے جبکہ اسرائیل سنہ1948ء میں تقریبا دس ماہ بعد فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے۔
اس طرح کے وجود کو بین الاقوامی تعلقات کی زبان میں قابض، جارح، غاصب اور جعلی کہا جاتا ہے۔ جبکہ افسوس کی بات ہے کہ محترمہ مونا خان نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں ہی ایک جیسی ریاست ہیں۔ پاکستان بھی دو قومی نظریہ پر قائم ہے اور اسرائیل بھی۔
یہاں پر محترمہ کی معلومات کے ناقص ہونا عین ثابت ہے کیونکہ کالم لکھتے وقت انہوں نے فلسطین کی اصلیت اور شناخت کو مسخ کیا ہے۔
صہیونیوں نے اسرائیل کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ صہیونزم کے راج کو قائم کرنے کی بنیاد پر کیا ہے ، کالم نویس خاتون کو معلوم ہونا چاہئیے کہ فلسطین میں ہزاروں سالوں سے مسیحی اور یہودی بھی آباد تھے جبکہ اسلام کی آمد کے بعد مسلمان بھی آباد رہے لہذا یہ سرزمین بعد ازاں تین مذاہب کے پیروکاروں کی سرزمین قرار پائی ہے کہ جہاں عرب شناخت کے ساتھ فلسطینی عرب یعنی فلسطینی مسیح، فلسطینی یہودی او ر فلسطینی مسلمان ہیں جبکہ یہاں اگر دو قومی نظریہ لاگو کیا جائے تو پھر عیسائیوں کے لئے تین قومی نظریہ کی بنیاد رکھ کریہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مملکت ہونا چاہئیے۔
لہذا محترمہ کا بیان کردہ قانون یہاں ناقص ثابت ہوتا ہے فلسطین ہمیشہ سے فلسطینی عرب کا ہے اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے کہ جس نے فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کر کے فلسطین کے اصلی باشندوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کر دیا ہے۔
لہذا مونا خان کایہ کہنا کہ پاکستان اور اسرائیل میں کئی ایک مماثلتیں ہیں یہ بھی غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے پاکستان نے ہندوستان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ آزادریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ مماثلت قرار دینا خود پاکستان کی آزادی اور تحریک آزادی پاکستان اور بانیان پاکستان کے نظریات کی توہین ہے ۔
یہاں ایک اور بات زہن نشین کر لینی چاہئیے کہ جو لوگ بھی اس وقت پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کا واویلا کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پھر فلسطین پر اسرائیل کا تسلط اور قبضہ بھی تسلیم کر لے ایسی صورتحال میں پھر پاکستان کو کشمیر سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔
کچھ اور ماہرین اور سابق سفارتکار کہتے ہیں کہ جب بھارت کے ساتھ پاکستان کی دشمنی اور مسئلہ کشمیر کے باوجود عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور عرب ممالک پاکستان کے دشمن ملک سے ہاتھ ملا سکتے ہیں مودی کو ایوارڈ دئیے جا رہے ہیں تو پاکستان کسی کی لڑائی کی وجہ سے ایک اضافی دشمن کیوں پالے؟
اس طرح کی گفتگو کا آغاز کرنے والے عناصر فقط پاکستانی ریاست کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے حق میں اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ لینا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر سفارتکاری کا یہی اصول ہی اپنا لیا جائے تو اس کے تحت بھی پاکستان کا کشمیر موقف کمزور ہو جائے گا اور پھر آخر میں فائدہ بھارت ہی لے گا۔
اس گفتگو کا آغاز کرنے والے ماہرین اور سابق سفارتکاروں کا چاہئیے کہ وہ اس بات کا بھی ذکر کریں کہ پاکستان کا فلسطین کے ساتھ رشتہ اور تعلق کسی عرب ملک اور ریاست کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ایک عالمگیر انسانی اصول اور اس کے بعد بطور مسلمان اکثریتی ملک ہونے کے فلسطین کے ساتھ ایک خاص لگاؤ ہے۔
فلسطین میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اگر پاکستان کسی عرب ملک کی سفارتکاری کی بھینٹ چڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرے تو پر قبلہ اول بیت المقدس بھی اسرائیل کے قبضہ میں درست تسلیم کر لے۔
لہٰذا یہ فارمولا پیش کرنے والے عناصر او ر ماہرین و سابق سفارتکار سنگین غلطی پر ہیں ۔ یہ اس بحث کے ساتھ یہ بتانا پسند نہیں کریں گے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کو جعلی ریاست کا عنوان دیا ہے۔ قائد اعظم کا مشہور جملہ ہے کہ فلسطین پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کا ناجائز بچہ ہے۔
جہاں تک عرب ممالک کا بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا سوال ہے تو اس معاملہ میں پاکستان کو سفارتکاری کے ذریعہ عرب ممالک کے سامنے اپنا مدعا بیان کرنا چاہئیے۔ جب پاکستان کی افواج ان عرب ممالک کی سیکورٹی پر مامور ہیں اور ہر مشکل صورتحال میں یہ عرب ممالک پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو ایسے میں پاکستان کے پاس بے پناہ مواقع اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان عرب ممالک کو ہندوستان کے چنگل سے نجات دلوائے اور بھرپور قسم کی سفارتکاری کرے ۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور تدریسی شعبے سے وابستہ سلمان بیٹانی کاکہنا ہے کہ خارجہ پالیسی جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی مفاد کی خاطر بنانی چاہیے، میں بھی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں اوریہاں پر صرف یہی عرض کرتا ہوں کہ پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے سے کون سا قومی مفاد خسارے میں ہے کیا پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ایک ماہر سیاسی امور یا تجزیہ نگار یا خود محترم سلمان صاحب ہی مجھے بتا دیں کہ پاکستان کو اس معاملہ میں کہاں قومی مفاد نقصان میں نظر آ رہاہے لہذا اس طرح کی بات کرنا بھی یقینا حقائق کی پردہ پوشی کرنے کے مترادف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر نے اسی کی دہائی میں اسرائیل کو تسلیم کیا آج مصر کا کون سا قومی مفاد اسرائیل سے حاصل ہو رہاہے بلکہ ا س کا الٹ ہی ہے، اسرائیل نے عرب اسرائیل جنگوں میں مصر کے جو علاقہ قبضہ کر لیے تھے تاحال مصر کو واپس نہیں کئے ہیں۔
کیا یہ مثال بھی اس موقف کی ناکامی کے لئے کافی نہیں ہے ؟ سلمان بیٹانی نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے کی وجہ سے شاید پاکستان فلسطین کے لیے بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہاں پر صرف یہی عرض کروں گا کہ جن عرب ممالک نے بالخصوص ترکی اور مصر نے اسرائیل کو آج سے تین دہائیاں قبل ہی تسلیم کر لیا تھا تو اس پورے عرصہ میں فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق حل کیوں نہیں کیا جا سکا ؟
سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر اسلامی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے اس سوال کا جواب صرف اتنا سا ہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی بھی ایسے عرب ملک کی پالسییوں کے ساتھ ہر گز نتھی نہیں ہے کہ جو ممالک خود اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے اور پاکستان کے محتاج رہتے ہیں لہذا پاکستان ایک بھرپور اور طاقت ور فوج رکھنے والا اسلامی ملک ہے، پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور ایسا نظریاتی ملک ہے کہ جس کے اسرائیل کو تسلیم کرنے س یے نہ صرف فلسطین پر اسرائیل کا تسلط جائز قرار پائے گا بلکہ فلسطین میں موجود اسلامی مقدسات پر بھی صہیونیوں کا تسلط تسلیم کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاک اسرائیل تعلق قائم ہونے سے پاکستان کا ترقی پسند ہونے کا تاثر ابھرے گا میں یہ کہتا ہوں جناب قمر چیمہ صاحب کیا دنیا کے ممالک کے لئے ترقی پسند ہونے کا کلیہ ایک ایسی ریاست کو تسلیم کرنا ہے کہ جو وہاں کے مقامی باشندوں کو ان کے گھروں اور وطن سے بے گھر کر نے اوران کا مسلسل قتل عام کرنے سے وجود میں آئی ہے؟ کیا کوئی بھی ذی شعور انسان اس طرح کے تعلقات قائم ہونے سے خود کو ترقی پسند کہلوائے گا؟ یا پھر یہ کہ آپ دنیا میں کسی اور ایسی ریاست کی مثال پیش کر دیجئے کہ جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہو اور اس کا چہرہ عالمی دنیا میں ترقی پسند تسلیم کر لیا گیا ہو لہذا یہ سب دھوکہ بازی کی باتیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں موجود ماہرین اور تجزیہ کار اس قسم کی سطحی سوچ کے حامل ہیں۔
کچھ عناصر اور صحافتی حلقوں میں موجود افراد ایک اور سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور تسلیم کرنے سے کیا نقصان ہو گا اس سوال کا جواب صرف یہی ہے کہ جو سابق سفیر عبد الباسط نے کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عوامی رائے اور ردعمل کی بہت اہمیت ہے۔
سنہ 2005 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے یاکشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو یہ خام خیالی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ بھی پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں حقیقت میں وہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی گھناؤنی کوشش میں مصروف ہیں اور ساتھ ساتھ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھی پس پشت چلا جائے اور اسی وجہ سے موجودہ حالات میں پاکستان او ر اسرائیل تعلقات کی بحث کو گرم کیا جا رہاہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی خبریں آئی تھیں اور اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سلون شالوم سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد خود جنرل مشرف نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون سے ہاتھ ملایا تھا اور تصویریں کھنچوائی تھیں ۔ لیکن پاکستان کے عوام نے ایسے تمام عناصر کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اور اب بھی مسترد کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی سب سے پہلے خواہش صہیونیوں کی جعلی ریاست کے وزیراعظم نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام لکھ کر کی تھی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔
موجودہ حالات میں بھی وزیر اعظم پاکستان نے فلسطین سے متعلق جس موقف کا اظہار کیا ہے اس میں مزید پختگی کی ضرورت باقی ہے کیونکہ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ سنہ1967ء کے سرحدوں پر فلسطین اور اسرائیل قائم ہو جائیں تو دونوں کو تسلیم کر لیا جائے گایہ بھی سراسر قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولی موقف کی توہین اور خلاف ورزی میں شامل ہو گا۔
فلسطین سے متعلق جب بھی فیصلہ ہو صرف اور صرف سنہ1948ء کی فلسطینی سرحدوں کو تسلیم کرنا ہی بابائے قوم اور بانیان پاکستان کے اصولی موقف کی پاسداری ہو گی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان