تحریر: عرفان علی
نظریاتی طبقے پر بات چل نکلی ہے تو اس حوالے سے سرزمین مقدس فلسطین کی آزادی کا نظریہ رکھنے والا طبقہ ایک زندہ مثال کے طور پر موجود ہے۔ نہ صرف عرب قوم پرست نظریاتی طبقہ بلکہ اسلام پسند نظریاتی طبقہ، ان دونوں ہی کو دیکھ لیں۔ تنظیم آزادی فلسطین قوم پرست عربوں کی نظریاتی تحریک ہوا کرتی تھی، آج کہاں ہے؟ کیا آج اس نام سے جو تنظیم موجود ہے اور جس کی ایک رکن جماعت الفتح ہے، کیا یہ سب اسی نظریئے کے پیروکار ہیں، جس کی بنیاد پر انکا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ بابائے فلسطین یاسر عرفات خود اس نظریئے پر سمجھوتہ کرچکے تھے اور جب نظریہ ہی نہ رہا، تب بھی کوئی مشکل حل نہیں ہوئی۔ یاسر عرفات نظریاتی محاذ پر پسپائی اختیار کرکے بھی اپنی باعزت زندگی کا بھرم قائم نہیں رکھ سکے۔ جعلی ریاست اسرائیل نے اوسلو معاہدے کے ہوتے ہوئے عرفات کو زیر زمین تہہ خانے میں چھپ کر زندگی گذارنے پر مجبور رکھا اور بالآخر پراسرار انداز میں انکی موت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا۔ میرے حساب سے ہمارا ہیرو یاسر عرفات اسی دن مرگیا تھا، جس دن اس نے آزادی فلسطین کے حق پر مبنی نظریئے پر سودے بازی کر لی تھی۔ جس دن انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور انکی آلہ کار عرب اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ میں فلسطینی نمائندوں کو اردن کے جھنڈے تلے نام نہاد امن کانفرنس میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا، وہ بدقسمت دن فلسطین کی آزادی کے نظریئے کی موت کا اعلان تھا۔ کاش کہ نظریاتی طبقہ سمجھتا۔
عرب قوم پرست فلسطینی نظریاتی طبقہ کی اس سودے بازی سے جو خلاء پیدا ہوا، اسے فلسطین کے عوام نے اس طرح پر کر دیا کہ اسلامی نظریاتی طبقے کو بتدریج غزہ کا حکمران بنا دیا۔ عوامی انتفاضہ کے بعد حماس عوام کی مقبول تحریک و جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ حرکت مقاومت اسلامی فلسطین المعروف حماس نے بھی قوم پرست عرب نظریاتی طبقے کی غلطیوں سے کچھ نہ سیکھا اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اور اسکی آلہ کار عرب اسٹیبلشمنٹ کے جال میں پھنستی چلی گئی۔ اگر وہ نظریہ آزادی کو مقدم رکھتے، اگر وہ راسخ العقیدہ نظریاتی ہوتے تو اس مدار (آربٹ) میں رہتے جہاں سے فلسطین کی آزادی کا حصول ممکن ہوتا۔ ایک کے بعد ایک غلطی اور پھر سنگین تزویراتی غلطی کہ جلاوطنی پر مجبور حماس قیادت شام چھوڑ کر قطر اور ترکی کے دامن میں پناہ گزین ہوئی۔ نظریاتی طبقہ نظریئے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور بے نظریہ زندگی پر اپنی موت کو ترجیح دیتا ہے، لیکن حماس نے نیٹو اتحادی ترکی اور امریکی اتحادی قطر کو نجات دہندہ سمجھنے کی جو بھیانک غلطی کی، آج تک اسکا ازالہ کرنے میں ناکام ہیں۔ نظریات پر سمجھوتہ جس طرح تنظیم آزادی فلسطین، الفتح، یاسر عرفات و محمود عباس کو انکی ماضی کی شان و شوکت اور اچھی ساکھ سے محروم کرگیا، یہی سب کچھ اب حماس کے ساتھ ہو رہا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال قطر کی مالی امداد ہے۔ کہنے کو قطر چھوٹا سا جزیرہ نما سہی، لیکن دولتمند عرب مسلمان ملک ہے، اس نے حماس کے زیر انتظام غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کو ممکن بنانے کے لئے حماس کو اسرائیل کے ذریعے امداد دی۔ نومبر 2018ء میں حماس نے اسرائیل کے ساتھ ایک غیر رسمی معاہدہ کیا، جس کے تحت قطر نے حماس کی غزہ حکومت کو 6 قسطوں میں 9 کروڑ ڈالر ادائیگی کی منظوری کا اعلان کیا۔ چالیس ہزار ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ ڈالر پر مشتمل دو قسطیں ادا کی تھیں۔ قطر کی یہ مہربانی غیر مشروط نہیں تھی بلکہ حماس پر یہ شرط مسلط تھی کہ اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہ خود کرے، نہ کسی اور کو کرنے دے۔ لیکن فلسطین کے نظریاتی افراد کہاں باز آنے والے تھے، اسرائیل کے گھیرے اور نرغے میں محصور غزہ کے مظلوم فلسطینیوں نے غاصب اسرائیل کے مظالم کے خلاف غزہ کے ان حصوں میں کیا، جہاں دوسری طرف اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ غزہ کے نظریاتی عربوں نے موت اور زخموں کو قبول کیا لیکن سرنگوں نہیں کیا۔
یہ خالص و مخلص نظریاتی طبقہ ہی تھا کہ جس نے قطر اور اسرائیل کی مسلط کردہ ذلت آمیز شرائط کو مان کر امداد لینے والی حماس پر تنقید کی۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز بھی نشر کیں، جس میں حماس اور قطر پر بھی طنز کیا گیا۔ حماس اور قطر دونوں ہی کا امیج عرب مسلمانوں اور خاص طور پر فلسطینیوں میں خراب ہوا۔ قطر کا منشاء تھا کہ اس طرح امریکہ اور اسرائیل کو راضی کر لے گا کہ غزہ کے محاذ کو ٹھنڈا کرنے پر اسے ٹرمپ حکومت شاباش دے گی اور ایسا ہوا بھی۔ امریکی حکام نے اسے سراہا، لیکن حماس قیادت اب اس امداد کو قبول کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ قطر کے سفیر محمد العمادی نے حماس قیادت سے ملاقات کی تو انہیں رسمی طور آگاہ کر دیا گیا۔ اب یہ طے پایا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے قطر کی امداد دیگر منصوبوں میں خرچ کی جائے گی۔ حماس قیادت کی نظر میں قطر کی یہ مشروط امداد جعلی ریاست اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے دی جا رہی تھی، جس کا مقصد غزہ کے محاذ پر اسرائیل کی سیاسی و سفارتی کامیابی کو اسرائیلی الیکشن میں ایک دلیل کے طور پر استعمال کروایا جاسکے۔
نظریہ ہی نظریاتی تحریکوں، تنظیموں، جماعتوں، انکے کارکنوں اور ہمدردوں کا سرمایہ ہوتا ہے، بلکہ نظریہ انکی آکسیجن ہوا کرتا ہے، اگر نظریہ ہی نہ رہے تو پھر انکی موت واقع ہو جاتی ہے اور اگر بظاہر وہ زندہ بھی ہوں تو انکی حیثیت چلتے پھرتے لاشوں سے کم کی نہیں ہوتی۔ حماس، اخوان المسلمین یا ان جیسی دیگر تحریکیں اور تنظیمیں، ایک طرف اسرائیل دوست حکمرانوں کی میزبانی میں ان ممالک میں قیام پذیر ہوتی ہیں اور ساتھ ہی اس خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہیں کہ وہ اس طرح اپنے آزاد فیصلے کرسکیں گی، حالانکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ لگے ہاتھوں طالبان ہی کی مثال لے لیں کہ جب امریکہ نے پاکستان کی حکومت سے کہا کہ پالیسی تبدیل کرے تو ملا عبدالسلام ضعیف جو طالبان کی نام نہاد افغان حکومت کے پاکستان میں سفیر تھے، انہیں انتہائی شرمناک انداز میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اور اب بھی جب امریکہ کہتا ہے تو امریکہ سے مرعوب ممالک میں کسی نہ کسی طالبان رہنما کو یا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یا آزاد کر دیا جاتا ہے، یا ملک چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا جاتا ہے۔ اگر انکا نظریہ افغانستان کی آزادی ہے تو پھر اس منزل کے لئے درست شاہراہ کا انتخاب کریں، مادر وطن کی آزادی پر تو ہر غیرت مند فرزند زمین انکا ساتھ دے گا۔ افغان سویلین آبادی کو نقصان پہنچانا ان کے نظریہ آزادی کے دعوے کی تردید ہے۔
اسی طرح حماس قیادت بھی سمجھ لے کہ وہ کسی طرح کی بھی خفیہ ڈیل کرلے، براہ راست یا بوسیلہ قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسکے حصے میں بھی اسرائیل اور اسکے دوستوں کی طرف سے وہی کچھ آنا ہے، جو یاسر عرفات اور محمود عباس کے حصے میں آیا۔ لبنان میں حماس رہنما ابو حمزہ محمد عمر حمدان پر قاتلانہ حملہ ہو یا دبئی میں حماس رہنما محمد مبحوح کی شہادت ہو، یا اس نوعیت کے ان گنت واقعات، یہ سمجھنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں کہ اسرائیل اپنی خو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رانتیسی، یہ افراد نہیں بلکہ نظریئے کا نام ہیں، انہوں نے بھی عرب اسٹیبلشمنٹ پر کبھی نہ کبھی اعتماد کیا ہوگا لیکن نظریہ آزادی نہیں چھوڑا تو اسرائیلی حملوں میں یہ بھی شہید ہوئے۔ نظریئے پر باقی رہ کر شہید ہونا فخر کی بات ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی قائدین سمیت ہر نظریاتی فرد کے سامنے تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، حق پر مبنی نظریئے سے دستبرداری کا مطلب ذلت آمیز موت ہے، مائنس نظریہ کسی بھی نظریاتی تحریک یا فرد کی بقا ممکن ہی نہیں۔
فلسطین کو بھی نظریئے کے ساتھ منزل کی طرف جانے والی شاہراہ پر سفر جاری رکھنے کی ضرورت ہے، کاش کہ حماس قیادت بھی بیک وقت دو کشتیوں کی سواری کے ساتھ ناکام سفر سے باز آجائے! میڈرڈ کی نام نہاد امن کانفرنس کے بعد اٹھائیس سال ہوچکے ہیں، یاسر عرفات رحلت کرچکے۔ محمود عباس تنظیم آزادی فلسطین، الفتح کا ہونا نہ ہونا فلسطینیوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس طرح کی کانفرنسوں، اوسلو معاہدوں سے کچھ ملنا ہوتا تو اب تک مل چکا ہوتا۔ یاد رہے کہ جس وقت یونین کاؤنسل یا ضلع کاؤنسل سطح کا یہ اقتدار محمود عباس کو ملا تھا، اسوقت آزادی فلسطین کے نظریئے کا تھوڑا بہت بھرم باقی تھا، اب تو وہ بھی نہیں ہے۔ البتہ حماس قیادت کے لئے خود غزہ کی زندہ و تابندہ مثال موجود ہے، غزہ سیاسی ڈیل کے ذریعے آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ غزہ کی نہ جھکنے والی اور نہ بکنے والی مقاومت نے ایریل شیرون جیسے سفاک نسل پرست صہیونی دہشتگرد فوجی جرنیل کو اس خطے سے اسرائیلی انخلاء پر مجبور کر دیا تھا۔ حماس اور غزہ کو مسلح مقاومت کے حق پر مبنی نظریئے پر برقرار رہنا چاہیئے۔ مسلح مقاومت نہ ہوتی تو حماس کو سیاسی اقتدار ملنا بھی ناممکن تھا، بالکل اسی طرح جیسے یاسر عرفات کی تحریک کو بھی جو کچھ ملا مسلح مقاومت ہی کی وجہ سے ملا۔ فلسطینیو! نظریہ آزادی کو زندہ رکھو!